آجر ہیڈ سکارف پر پابندی لگا سکتے ہیں: یورپی عدالت

یورپی یونین کی عدالت نے حکم دیا ہے کہ اصولی طور پر آجر اپنے ملازمین کو کام کی جگہ پر ہیڈ سکارف پہننے سے روک سکتے ہیں۔

جرمنی میں کام کرنے کی جگہوں پر ہیڈ سکارف پہننے پر پابندی کو دو جرمن خواتین نے عدالتوں میں چیلنج کیا تھا جنہیں سکارف پہننے پر ملازمتوں سے برطرف کردیا گیا تھا (اے پی فائل)

جرمنی میں ملازمت کرنے والی مسلمان خواتین کی جانب سے دائر کیے گئے دو مقدمات کا فیصلہ سناتے ہوئے جمعرات کو یورپی یونین کی عدالت نے حکم دیا ہے کہ اصولی طور پر آجر اپنے ملازمین کو کام کی جگہ پر ہیڈ سکارف پہننے سے روک سکتے ہیں۔

یورپی عدالت انصاف نے اپنے ایک بیان میں کہا: ’کسی آجر کا صارفین کے لیے اپنی غیر جانبدار شبیہہ پیش کرنے کے غرض یا معاشرتی تنازعات سے بچنے کے لیے ہیڈ سکارف جیسی مذہبی علامات پر پابندی لگانے کا اقدام جائز قرار دیا جاسکتا ہے۔‘

عدالت نے اپنے فیصلے میں یہ بھی کہا کہ آجر کو اس بات کا بھی مظاہرہ کرنا ہوگا کہ وہ اپنی کسی پالیسی کے ذریعے مختلف عقائد اور مذاہب کے درمیان امتیازی سلوک روا نہ رکھے۔

کام کرنے والی جگہ پر سکارف پہننے پر پابندی عائد ہونے کے بعد کیمسٹ پر بطور کیشیئر کام کرنے والی ایک خاتون اور ایک نرس نے جرمن عدالتوں میں اس پابندی کو چیلنج کیا تھا۔ دونوں کو ہی سکارف پہننے کی بنا پر ملازمت سے برطرف کردیا گیا تھا۔

اس کے بعد جرمن عدالتوں نے یورپی یونین کے قانون کی تشریح کے لیے مقدمات کو یورپین کورٹ آف جسٹس (ای سی جے) بھیجا تھا۔

2002 سے ’مولر ڈرگ سٹور‘ میں کام کرنے والی خاتون ابتدا میں سکارف نہیں پہنی تھیں تاہم 2014 میں زچگی کی چھٹیوں سے واپس آنے کے بعد وہ کیمسٹ پر سکارف پہننا چاہتی تھیں۔

ای سی جے کے مطابق کیمسٹ نے انہیں کسی بھی سیاسی، فلسفی یا مذہبی عقائد کی واضح اور بڑی علامت کے بغیر ملازمت پر واپس آنے کی ہدایت کی تھی۔

دوسری خاتون نے 2016 میں ہیمبرگ میں شہر کی غیر سرکاری تنظیم ’چلڈرن کیئر سنٹر‘ میں بطور نرس ملازمت اختیار کی اور وہ ابتدا سے ہی دوران ملازمت ہیڈ سکارف پہن رہی تھیں۔

وہ بھی زچگی کی چھٹیوں پر چلی گئیں تھیں اور اسی دوران چلڈرن کیئر سنٹر نے ایک پالیسی جاری کی جس کے تحت صارفین سے رابطہ رکھنے والے ملازمین کے لیے کام کے دوران سیاسی، نظریاتی یا مذہبی عقائد کی علامتیں پہننے پر پابندی عائد کردی گئی تھی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

رخصت سے واپس آنے کے بعد انہوں نے ہیڈ سکارف اتارنے سے انکار کردیا جس کے نتیجے میں متعدد وارننگ جاری کی گئیں اور بالآخر انہیں ملازمت سے برطرف کردیا گیا۔

ای سی جے نے کہا کہ قومی عدالتوں کو ہر انفرادی معاملے کی جانچ کرنا ہوگی کہ آیا کمپنی کے اصول مذہبی آزادی سے متعلق قومی قوانین اور ’غیرجانبداری کی پالیسی‘ کی ضرورت کے مطابق ہیں یا نہیں۔

عدالت انصاف نے بیان میں مزید کہا کہ ایسی پالیسی کے لیے آجر یا ادارے کے پاس ایک حقیقی ضرورت ہونی چاہیے اور اس پالیسی کو ’مذہبی آزادی کے تحفظ سے متعلق قومی دفعات کے مخالف بھی نہیں ہونا چاہیے۔

سکارف یا حجاب کا مسئلہ برسوں سے پورے یورپ میں متنازعہ ہو چکا ہے۔

یورپی یونین کی عدالت نے 2017 میں فیصلہ دیا تھا کہ ادارے اپنے عملے پر حجاب اور دیگر مذہبی علامتوں پر مخصوص شرائط کے تحت پابندی عائد کرسکتے ہیں۔

جرمنی میں 50 لاکھ سے زیادہ مسلمان آباد ہیں جو ملک کی سب سے بڑی مذہبی اقلیتی برادری ہے۔

جرمنی میں برسوں سے کام کرنے والی مسلم خواتین پر سکارف کی پابندی ایک گرما گرم سیاسی موضوع رہا ہے تاہم اس سال کے قانون ساز اسمبلی کے انتخابات کی مہم کے دوران اس معاملے پر زیادہ بات نہیں کی گئی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی یورپ