’دھمال احتجاج ہے، بندے تبدیلی لائیں تو شہنشاہ کا عمل دخل نہیں‘

سندھ کے تاریخی شہر سیہون میں لعل شہباز قلندر کے مزار پر عام دنوں میں آدھا گھنٹہ جب کہ جمعرات و دیگر مخصوص ایام میں ایک گھنٹہ دھمال ہوتا ہے۔

سندھ کے تاریخی شہر سیہون کی پہچان صوفی بزرگ لعل شہباز قلندر کا مزار ہے مگر اس مزار کی پہچان دھمال سے منسلک ہے۔

یہ مزار سارا سال زائرین اور عقیدت مندوں سے بھرا ہوا ہوتا ہے۔ ہر روز شام کے وقت مغرب کی اذان کے بعد مزار کے صحن میں دھمال ہوتا ہے۔ مزار پر دھمال مخصوص سازوں کی لے پر ہوتا ہے۔

یہ قدیمی اور روایتی دھمال ایک محتاط اندازے کے مطابق سات سو برس سے روزانہ کی بنیاد پر ہوتا ہے۔

عام دنوں میں دھمال آدھا گھنٹہ جب کہ جمعرات و دیگر مخصوص ایام میں ایک گھنٹہ دھمال ہوتا ہے۔ دھمال میں شرکت کے لیے سندھ سمیت ملک بھر سے عقیدت مند شامل ہوتے ہیں۔

احسان علی کا کہنا ہے کہ ان کے آبا ؤ اجداد دھمال بجاتے تھے اور اب ہم سب بھائی بھتیجے دھمال بجاتے ہیں۔

’ہر روز اذان مغرب کے بعد درگاہ کے صحن میں دھمال بجاتے ہیں، طوفان آندھی چاہے حالات کیسے بھی ہوں ہر صورت میں دھمال بجاتے ہیں۔‘

دھمال کے متعلق درگاہ شہباز قلندر کے سجادہ نشین سید حسن علی شاہ کھٹ دہنی کا کہنا ہے کہ دھمال دراصل احتجاج ہے۔ دھمال کا طریقہ یہ ہے کہ ایک پاوں اٹھانا ہے، ایک پاؤں رکھنا ہے، جس کو دھمال کہتے ہیں، شہنشاہ (شہباز قلندر) کی طرف سے اس میں کوئی تبدیلی نہیں مگر بعد جیسے جیسے وقت اور انسان بدلتے گئے، تو اس میں لوگوں نے تبدیلی لائی ہے، کوئی رقص کرتا ہے، تو اس میں شہنشاہ کا اس میں کوئی عمل دخل نہیں، مقصد یہ ہے کہ دھمال اصل احتجاج ہے جوکہ آج تک کئی صدیوں سے جاری و ساری ہے۔ یہ دھمال صرف محرم الحرام کے 12 دن بند ہوتا ہے، باقی پورا سال چلتا ہے، اپنے مقررہ روایتی وقت پر۔‘

’ہم نے اپنے بڑوں سے سنا تھا کہ کئی ایسی روحانی ہستیاں اس دھمال میں موجود ہوتی ہیں جوکہ اہل نظر بندوں کو نظر آتی ہیں، سب کو نہیں، کیونکہ سرکار خود دھمال میں ہوتے ہیں۔‘

’منتیں مرادیں پوری کرنے والا اللہ تعالی ہے مگر قلندر کے وسیلے سے منتیں حاجتیں لوگ مانتے ہیں اور دھمال کر کے واپس جاتے ہیں، اس دھمال کا سلسلہ یہ ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سوال: سجادہ نشین اور گدی نشین میں کیا فرق ہے؟

’گدی نشین وہ ہوتا ہے جو اس لڑی سے ہو، شہنشاہ قلندر ستی جتی تھے، ان کی شادی تو تھی نہیں، اور اولاد میں سے جو ہو اس کو گدی نشین کہا جاتا ہے، سجادہ نشین طالبوں میں سے ہوتا ہے۔ جو شہنشاہ کی طریقت کی اولاد تھی۔ ہم سارے اس لیے سجادہ نشین ہیں۔

سوال: چار چراغ تیرے بلن ہمیشہ، پنجواں میں بالن آئی ہاں بلا جھولے لعلن، اس شعر کے کیا معنی ہیں؟

’ پرانے زمانے میں جب یہاں سیہون میں بجلی کا سلسلہ نہیں تھا تو چراغ چلائے جاتے تھے، آج سے کئی سو سال پہلے ہر کونے میں چراغ جلتا تھا، چار کونے تھے چار چراغ جلائے جاتے تھے، پانچواں جو تھا منت کے طور پر جو بھی آتا تھا وہ اپنی منت لے کر، آ کے، پانچواں جلاتا تھا، اس وجہ سے یہ کہاوت مشہور ہوگئی کہ چار چراغ تیرے بلن ہمیشہ پنجواں میں بالن آئی، تو یی اس وقت سے شروع ہوا ہے اور آج تک چل رہا ہے۔‘

’حالاںکہ اب تو بجلی کا نظام بھی آ گیا ہے، ہر چیز ہے، پھر بھی یہ چراغ جلتے ہیں اور تاقیامت جلتے رہیں گے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ملٹی میڈیا