کرونا وائرس کے کیسز میں اچانک اضافہ کیوں ہونے لگتا ہے؟

جب سے کرونا وائرس نے سر اٹھانا شروع کیا ہے تو عوام کے ذہنوں میں یہ سوال ضرور گردش کرتا ہے کہ کرونا تین چار مہینے بعد کہاں چلا جاتا ہے کہ ملک میں کیسز نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں اور پھر اچانک کیسز بڑھنا شروع ہو جاتے ہیں۔

پاکستان میں  ایک مرتبہ پھر کرونا وائرس کی چوتھی لہر کی آمد کے ساتھ کیسز کی تعداد میں اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے( اے ایف پی)

بہت سے لوگوں نے کسی قریبی رشتہ دار یا دوست کے منہ سے یہ  بات ضرور سنی ہو گی کہ کرونا (کورونا) وائرس کے کیسز اچانک کیسے بڑھ جاتے ہیں جبکہ کیسز بڑھنے سے تین چار مہینے پہلے بالکل خاموشی ہوتی ہے۔

پاکستان میں بھی ایک مرتبہ پھر کرونا وائرس کی چوتھی لہر کی آمد کے ساتھ کیسز کی تعداد میں اضافہ دیکھنے کو ملا ہے جبکہ آج سے تین چار مہینے پہلے حالات معمول پر آ گئے تھے اور مارکیٹوں، تعلیمی اداروں، شادی ہالوں، درگاہوں اور ہوٹلوں میں ان ڈور ڈائننگ پر سے بھی پابندی ہٹالی گئی تھی۔

تاہم چار دن قبل پاکستان میں کرونا کے لیے بنائے گئے نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر (این سی او سی) نے ایک مرتبہ پھر کرونا وائرس سے بچاؤ اور اس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے کچھ سخت فیصلے کیے ہیں، جن میں ہوٹلوں میں ان ڈور ڈائننگ پر پابندی، مارکیٹیں رات آٹھ بجے بند کرنے، سرکاری دفاتر میں 50 فیصد حاضری، لازمی ماسک اور پبلک ٹرانسپورٹ میں  50 فیصد سواریاں بٹھانے جیسے فیصلے شامل ہیں۔

وزیراعظم کے مشیر صحت ڈاکٹر فیصل سلطان نے بھی عوام کو تین دن پہلے ایک ٹویٹ کے ذریعے خبردار کیا تھا کہ ملک میں کرونا کی چوتھی لہر آ چکی ہے، لہذا لوگ پرہجوم مقامات پر جانے سے گریز کریں، ہمیشہ ماسک پہنیں اور ویکسین لگوائیں۔

این سی او سی کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں کرونا کے مثبت کیسز کا تناسب گذشتہ تین مہینوں میں جمعرات کی شب سب سے زیادہ نو فیصد ریکارڈ کیا گیا ہے۔

جب سے کرونا وائرس نے سر اٹھانا شروع کیا ہے تو عوام کے ذہنوں میں یہ سوال ضرور گردش کرتا ہے کہ کرونا تین چار مہینے بعد کہاں چلا جاتا ہے کہ ملک میں کیسز نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں اور اچانک کیسز بڑھنا شروع ہوجاتے ہیں۔

اسی سوال کا جواب ڈھونڈنے کے لیے انڈپینڈنٹ اردو نے ماہرین سے بات کی۔

ڈاکٹر یاسر یوسفزئی خیبر پختونخوا میں خیبر میڈیکل یونیورسٹی کے زیر اہتمام چلنے والی کرونا لیبارٹری کے ڈائریکٹر ہیں، جو کرونا وائرس کے ابتدائی دنوں سے اس پر تحقیق بھی کرتے رہے ہیں۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اس کی مختلف وجوہات ہو سکتی ہیں کہ تین چار مہینے بعد کرونا کیسز کے تناسب میں کمی کیوں آجاتی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ’کرونا وائرس کا کوئی خاص پیٹرن نہیں ہے اور نہ ہی اس کا موسم کے ساتھ کوئی تعلق ہے، لیکن اس میں یہ ہوتا ہے کہ ایک وقت میں کیسز اتنے بڑھ جاتے ہیں کہ وائرس کو مزید لوگ نہیں ملتے کہ وہ انہیں متاثر کرے اور اسی وقت میں زیادہ لوگ ایسے بھی ہوتے ہے جو وائرس سے صحت یاب ہو چکے ہوتے ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ڈاکٹر یاسر مزید کہتے ہیں کہ ’کیسز جب بڑھ جاتے ہیں، حکومت کی طرف سے لاک ڈاؤن کا اعلان کیا جاتا ہے اور ایس او پیز پر عمل درآمد میں بھی سختی کی جاتی ہے تو مزید اتنے لوگ نہیں ہوتے کہ وائرس انہیں متاثر کرے اور اسی وجہ سے کیسز کم ہونا شروع ہوجاتے ہیں اور جب لاک ڈاؤن، بڑے اجتماعات اور لوگوں کے مابین رابطہ کم ہوتا ہے تو کیسز کم ہوجاتے ہے۔‘

’ہوتا یہ ہے کہ جب کیسز کم ہونا شروع ہوجاتے ہیں تو حکومت کی طرف سے لاک ڈاؤن میں نرمی شروع ہوجاتی ہے اور بڑے اجتماعات، تعلیمی ادارے اور پبلک ٹرانسپورٹ وغیر کھول دی جاتی ہیں۔ اضلاع کے مابین بھی رابطہ دوبارہ بحال ہو جاتا ہے تو لوگ ایک جگہ سے دوسری جگہ نقل و حرکت شروع کر دیتے ہیں، جس کی وجہ سے جو چند لوگ کرونا سے متاثر ہوتے ہیں وہ دوبارہ اس کو پھیلانا شروع کر دیتے ہیں۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’اسی پیٹرن سے متاثرہ لوگ، جن میں سے بعض میں کرونا کی علامات بھی نہیں ہوتیں، وائرس کو دوبارہ پھیلانا شروع کردیتے ہیں اور کیسز بڑھنا شروع ہو جاتے ہیں، جس سے کیسز کا تناسب پیک تک پہنچ جاتا ہے اور حکومت کو دوبارہ لاک ڈاؤن لگانا پڑتا ہے، جس طرح اب چوتھی لہر میں حکومت نے دوبارہ لاک ڈاؤن لگانے کے عندیہ بھی دیا ہے اور کچھ ایس او پیز کا اعلان بھی کیا ہے۔‘

ڈاکٹر یاسر نے بتایا کہ کرونا وائرس کی یہ لہریں سمندری موجوں کی طرح ہوتی ہیں، جو اوپر نیچے تو جاتی ہے لیکن ختم نہیں ہوتیں۔ ’جس طرح پانی کی موجیں اوپر اور نیچے جاتی ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ موجیں جب نیچے جاتی ہیں تو پانی ختم ہو جاتا ہے، پانی وہاں پر موجود ہوتا ہے لیکن  لہر کی اونچائی میں کمی آ جاتی ہے۔‘

ڈاکٹر فہیم یونس امریکہ کی یونیورسٹی آف میری لینڈ میں انفیکشنز بیماریوں کے پروفیسر ہیں اور کرونا وبا کے آغاز سے ہی اس کے مختلف زاویوں پر لکھتے رہے ہیں۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ کرونا وائرس کے کیسز مین کمی اور اضافے کے پیچھے کئی عوامل کارفرما ہیں، جن میں کسی علاقے میں لاک ڈاؤن، لوگوں کی نقل و حرکت، سماجی فاصلہ، تعلیمی اداروں کی بندش اور اجتماعات وغیرہ شامل ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ اس میں ایک وجہ موسم بھی ہے کہ سردیوں میں عموماً لوگ گھروں میں رہتے ہیں، جس کی وجہ سے کرونا کیسز میں کمی آ جاتی ہے یعنی سماجی فاصلہ اور اجتماعات سے گریز کیا جاتا ہے۔

ڈاکٹر فہیم نے بتایا: ’آسان الفاظ میں یوں کہہ لیجیے کہ کرونا کہیں پر بھی نہیں جاتا لیکن اس کی شدت کا اندازہ اوپر بیان کیے گئے عوامل سے لگایا جا سکتا ہے  اور اسی بنیاد پر کیسز زیادہ اور کم ہوتے ہیں (یعنی اگر اجتماعات، سماجی فاصلہ اور کرونا وائرس سے بچاؤ کی دیگر احتیاطی تدابیر پر عمل زیادہ ہے تو کیسز کم ہوں گے ورنہ کیسز میں اضافہ دیکھنے کو ملے گا۔‘

ویکسی نیشن کے حوالے سے ڈاکٹر فہیم کا کہنا تھا کہ ہر دفعہ زیادہ آبادی کو ویکسین لگائے بغیر اگر کوئی ملک لاک ڈاؤن ختم کرے گا تو وہاں پر کیسز کی شرح بڑھے گی، تاہم بہت گھمبیر صورت حال میں جب وائرس کی لہریں زیادہ ہو جائیں تو زیادہ آبادی وائرس سے متاثر ہو گی اور اسی طرح زیادہ آبادی کی وائرس کے خلاف قوت مدافعت بھی بڑھ جائے گا (دوسرے لفظوں میں اس کو ہرڈ ایمونٹی کہا جاتا ہے) لیکن  بدقسمتی سے اس صورت حال میں بہت سی اموات ہوں گی۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی صحت