خیبر پختونخوا ’ہوم بیسڈ ورکرز اب گمنام نہیں رہیں گے ‘

پاکستان میں لیبر قوانین و معاوضوں کی رپورٹس دینے والی ویب سائٹ پے چیک کا کہنا ہے کہ ’غیر حتمی اندازوں کے مطابق پاکستان میں دو کروڑ ہوم بیسڈ ورکرز ہیں جن میں خواتین کی تعداد ایک کروڑ بیس لاکھ ہے۔‘

اقوام متحدہ کے ادارے یو این ویمن کی سال 2016 کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کی معیشت میں ہوم بیسڈ ورکرز کی اجرت سے آنے والا حصہ چار سو ارب روپے ہے جس میں 65فیصد حصہ خواتین کا تھا(فائل فوٹو: اے ایف پی)

گیارہ سال کی جدوجہد کے بعد آخر کار بدھ چار اگست کو صوبہ خیبر پختونخوا اسمبلی نے گھر سے ملازمت کرنے والے ہنرمند افراد کے تحفظ وبہبود کے لیے ایک قانون منظور کر لیا ہے جس پر عملدرآمد کے لیے ایک جامع لائحہ عمل ترتیب دینے کے لیے بحث کا آغاز اگلے ہفتے سے کیا جائے گا۔

بحث میں اس قانون کےتمام زاویوں پر غور کیا جائے گا تاکہ اس پر عمل درآمد کرنے کے لیے ایک باقاعدہ طریقہ کار وضع کیا جا سکے۔

خیبر پختونخوا ہوم بیسڈ ورکرز تحفظ وبہبود بل 2021 کی تفصیلات کے مطابق وہ تمام ہنرمند افراد جو مستقل بنیادوں پر گھر کی چاردیواری سے اپنے ہنر کو روزگار کا ذریعہ بناتے ہیں، کی نشاندہی کرکے انہیں رجسٹر کروا کر اب انہیں وہ تمام مراعات اور فوائد مہیا کیے جائیں گے جو باقاعدہ کام کرنے والے افراد کو حاصل ہیں۔

خیبر پختونخوا میں ہوم بیسڈ ورکرز قانون کے لیے جدوجہد کا آغاز سب سے پہلےسوشل ایکٹویسٹ خورشید بانو نے کیا تھا۔

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے اس موضوع پر تفصیلی بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہوم بیسڈ ورکرز کا قانون منظور ہونے کے بعد اب گھر سے کام کرنے والے افراد جن میں مرد و خواتین اور خواجہ سرا شامل ہیں، کو سوشل، میڈیکل اور میٹرنٹی فوائد حاصل ہوں گے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’یہ تقریباً 11 سالہ طویل جدوجہد تھی۔ اٹھارہویں ترمیم کے بعد وزارت بہبود خواتین اور وزارت لیبر و مین پاور کا صوبوں کو اختیارات کی منتقلی کے بعد ہر صوبے نے اس بل کے لیے الگ الگ جدوجہد شروع کی۔ جس کے نتیجے میں پہلے سندھ پھر پنجاب اور اب خیبر پختونخوا نے یہ قانون منظور کر لیا ہے۔‘

ان 11 سالوں میں انہوں نے خیبر پختونخوا کے مختلف دیہات اور اضلاع سے سینکڑوں ایسی خواتین کی فہرست تیارکر لی ہے جو گھر سے کام کرکے پیسے کماتی تھیں۔

خورشید بانو کے مطابق ’چاہے وہ سینے پرونے کا کام ہو، اچار اور مربے بیچنے کا یا ٹوکریاں اور ٹوپیاں بنانا۔ ہنر کی فہرست ہمیشہ طویل رہتی ہے۔ میں نے اپنے محدود وسائل میں اور بعد ازاں کچھ غیر حکومتی اداروں کے ساتھ مل کر سینکڑوں خواتین کا ڈیٹا اکھٹا کیا جو گھر سے سامان تیار کروا کر بڑی انڈسٹریز، برانڈز اور ایمپلائرز کو سامان فراہم کرتی ہیں۔‘

خورشید بانو نے بتایا کہ ان کی حاصل کردہ فہرست سے مزید گھر سے ملازمت کرنے والی خواتین تک پہنچنا اور ان تمام کی رجسٹریشن کروانے میں حکومت کو آسانی ہوگی۔

انہوں نے مزید بتایا کہ اگرچہ یہ قانون تمام جنس کے افراد کے لیے ہے تاہم انہوں نے کہا کہ خیبر پختونخوا میں گھروں سے کام کرنے والے افراد میں زیادہ تعداد خواتین کی ہے۔

خورشید بانو کا کہنا ہے کہ ’خیبر پخونخوا کے رسم ورواج کی وجہ سے زیادہ تر خواتین گھر سے باہر ملازمت نہیں کر سکتیں۔ پھر جب وبا آئی تو ایسی خواتین کی تعداد میں مزید اضافہ ہوا۔ اس لیے پہلے سے زیادہ ضروری ہوگیا تھا کہ ان کو وہ مراعات اور فوائد حاصل ہوں جو دیگر  کام کرنے والی خواتین کو حاصل ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تاہم ان کے مطابق اس مقصد کے لیے ہر ایسے شخص کو پہلے حکومت کے پاس رجسٹر ہونا پڑے گا۔ رجسٹریشن کا طریقہ کار بھی بہت جلد وضع کر کے اس کا پیغام تمام صوبے میں عام کر دیا جائے گا۔

پاکستان میں لیبر قوانین و معاوضوں کی رپورٹس دینے والی ویب سائٹ پے چیک کا کہنا ہے کہ ’غیر حتمی اندازوں کے مطابق پاکستان میں دو کروڑ ہوم بیسڈ ورکرز ہیں جن میں خواتین کی تعداد ایک کروڑ بیس لاکھ ہے۔‘

جب کہ لیبر فورس سروے نے اس تعداد کو 48 لاکھ ظاہر کیا ہے۔

دوسری جانب اقوام متحدہ کے ادارے یو این ویمن کی سال 2016 کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کی معیشت میں ہوم بیسڈ ورکرز کی اجرت سے آنے والا حصہ چار سو ارب روپے ہے جس میں 65 فیصد حصہ خواتین کا تھا۔

پاکستان کی قومی پالیسی ہوم بیسڈ ورکرز کا مفہوم کچھ اس طرح بیان کرتی ہے کہ ’وہ کام کرنے والا شخص جو گھر کی چار دیواری میں مستقل بنیادوں پر ایک ہنر کو روزگار کا ذریعہ بنائے ، جس کا اس نے کسی آجر یا ادارے کے ساتھ معاہدہ کیا ہو اور جو عارضی نہ ہو۔‘

اس پالیسی کے مطابق گھریلو ملازمین جو جھاڑو پوچا یاگھر کے دیگر کام کرتے ہیں ’ہوم بیسڈ ورکرز‘ میں شمار نہیں ہوتے۔

زیادہ پڑھی جانے والی معیشت