کراچی میں بم دھماکے سے ہلاکتوں کی تعداد 13 ہو گئی

کراچی میں گذشتہ رات ایک منی ٹرک میں ہونے والے بم دھماکے میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد اتوار کے صبح تک 13 ہو گئی۔ 

14 اگست، 2021 کی اس تصویر میں پولیس اہلکار بم دھماکے کا نشانہ بننے والی گاڑی کا جائزہ لے رہے ہیں (اے پی)

کراچی میں گذشتہ رات ایک منی ٹرک میں ہونے والے بم دھماکے میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد اتوار کے صبح تک 13 ہو گئی۔ 

عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) ضلع ملیر کے صدر کچکول خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ مرنے والے ان کی پارٹی کے سینیئر رہنما فرمان علی اور ان کے بھائی اور جماعت اسلامی کے رہنما معراج خان سواتی کے اہل خانہ ہیں۔

’دھماکے میں ابتدائی طور پر 10 افراد ہلاک ہوئے۔ بعد میں تین زخمی ہسپتال میں دوران علاج جانبر نہ ہو سکے۔ اس طرح مرنے والوں کی کل تعداد 13 ہوگئی، جن میں سات خواتین اور چھ بچے ہیں۔‘

 یہ واقعہ بلدیہ ٹاؤن کے علاقے مواچھ گوٹھ میں گذشتہ رات پونے 10 بجے کے قریب پیش آیا۔  

کچکول خان کے مطابق: ’متاثرہ خاندان کے افراد لانڈھی کی شیرپاؤ کالونی سے کرائے پر منی ٹرک لے کر شادی میں شرکت کے لیے بلدیہ ٹاؤن عابد آباد آئے ہوئے تھے۔ ٹرک پر دستی بم پھینکا گیا۔‘

پاکستانی میڈیا میں رات بھر دھماکے میں ہلاک اور زخمیوں کی تعداد اور دھماکے کی نوعیت پر مختلف خبریں رپورٹ ہوتی رہیں۔ 

مقامی میڈیا نے ابتدائی طور  پر اسے سلنڈر دھماکہ رپورٹ کیا۔ مگر بم ڈسپوزل سکواڈ کے انچارج غلام مصطفیٰ آرائیں نے رات گئے ایک رپورٹ میں واضح کیا کہ یہ روسی ساختہ دستی بم کا دھماکہ تھا۔

ہلاک اور زخمیوں کی تعداد پر مختلف ٹی وی چینلز نے الگ الگ رپورٹیں دیں۔

اس کی وجہ ایدھی فاؤنڈیشن کی ایمبولینس سروس کے ڈرائیور نادر نے کچھ یوں دی کہ ’کراچی میں جب بھی کوئی دھماکہ یا حادثہ ہوتا ہے تو رضاکار ایمبولینس سروس والے موقعے پر پہنچ کر نہ صرف لاشیں اور زخمیوں کو اٹھاتے ہیں بلکہ تصاویر اور ویڈیوز بنا کر واٹس ایپ کے مختلف گروپس میں شیئر کرتے ہیں اور اسی وجہ اسے اعداد و شمار میں کنفیوژن ہوتی ہے۔

کچھ ٹی وی چینلز نے اسے ذاتی دشمنی کا واقعہ قرار دیا تو کچھ نے اسے یوم آزادی سے جوڑا۔ تاہم پولیس حکام نے میڈیا سے گفتگو میں بتایا کہ حملے کا نشانہ بننے والے ٹرک پر پاکستان کا جھنڈا نہیں لگا تھا۔

واضح رہے کہ کچھ دن قبل دہشت گردی کے خدشے کے پیش نظر پولیس نے شہر کے مختلف مقامات پر پاکستانی پرچم کے سٹال وغیرہ بند کروا دیے تھے۔

بم دھماکے کی نوعیت اور بم کی ساخت کا تعین کیسے کیا جاتا ہے؟ 

 بم ڈسپوزل سکواڈ لاہور کے بم سکواڈ ٹیکنیشن اللہ یار خان نے، جو گذشتہ 27 سالوں سے بم کو ناکارہ بنانے کا کام کررہے ہیں، بتایا کہ سکواڈ میں عموماً افسر پاکستان آرمی کے ریٹائرڈ ہوتے ہیں، جنہیں تربیت کے دوران مختلف اوزان کے دھماکہ خیز مواد سے دھماکہ کرکے سکھایا جاتا ہے کہ ایک کلو وزن والا بم کتنا نقصان کرسکتا ہے اور دو کلو وزن والا کتنا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’کچھ عرصے کے بعد ہمیں یہ تیکنک خود بخود سمجھ آجاتی ہے۔ ہم جو وزن بتاتے ہیں، اس میں ایک یا دو اونس کا فرق آسکتا ہے، مگر اس سے زیادہ نہیں۔ اس لیے ہم رپورٹ میں بم کا وزن لکھتے ہوئے 'تقریباً اتنا وزن' لکھتے ہیں۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ وہ اس کے علاوہ یہ بھی دیکھتے ہیں کہ دھماکے کے باعث زمین میں کتنا گڑھا بنا یا دھماکے کے بعد آس پاس کی کتنی اشیا کو کتنا نقصان پہنچا، اس سے بھی بم کے وزن کا اندازہ لگایا جاتا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان