افغان خواتین روبوٹکس ٹیم کی ارکان قطر پہنچ گئیں

’افغان ڈریمر‘ کے نام سے جانی جانے والی ٹیم میں 20 ارکان شامل ہیں جن کی عمریں 12 سے 18 سال کے درمیان ہیں اور ان کا تعلق صوبائی دارالحکومت ہرات سے ہے۔

افغان ٹیم نے 2017 میں دنیا بھر میں اس وقت پہچان حاصل کی جب اس کے چھ ارکان کو ایک مقابلے کے لیے امریکہ جانے سے روک دیا گیا تھا(فائل فوٹو: اے ایف پی)

کابل اور ملک کے دیگر علاقے طالبان کے کنٹرول میں آنے کے بعد بیرون ملک فرار ہونے والوں میں افغان لڑکیوں کی روبوٹکس ٹیم کی کئی ارکان بھی شامل ہیں، جنہوں نے قطر میں پناہ لی ہے۔

ٹیم کی کچھ ارکان منگل کو ایک کمرشل پرواز کے ذریعے کابل سے روانہ ہوئیں جبکہ دیگر نے ملک میں ہی رہنے کا فیصلہ کیا۔

ٹیم کی بانی اور افغان ٹیک انٹرپرینیور رویا محبوب کے مطابق قطر پہنچنے والی لڑکیاں وہاں اپنی تعلیم جاری رکھیں گی جب کہ افغانستان میں رہنے والی دیگر اراکان کو طالبان کی انتظامیہ میں غیر یقینی مستقبل کا سامنا ہے۔

خواتین پر مشتمل روبوٹکس ٹیم افغانستان میں اپنی نوعیت کی پہلی ٹیم ہے، جس نے ملکی اور بین الاقوامی سطح پر متعدد مقابلے جیتے ہیں۔

’افغان ڈریمر‘ کے نام سے جانی جانے والی ٹیم میں 20 ارکان شامل ہیں جن کی عمریں 12 سے 18 سال کے درمیان ہیں اور ان کا تعلق صوبائی دارالحکومت ہرات سے ہے۔

انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے سماجی کارکن کمبرلے موٹلی نے سی بی سی نیوز نیٹ ورک کو بتایا کہ ’لڑکیاں انتہائی خوفزدہ ہیں جہنوں نے دارالحکومت کابل کو طالبان کے ہاتھوں میں جاتے ہوئے دیکھا ہے۔

طالبان کے 1996 سے 2001 تک پہلے دورِ اقتدار کے دوران ملک میں لڑکیوں کو سکول جانے کی اجازت نہیں تھی اور خواتین کی آزادی کو سختی سے سلب کر لیا گیا تھا۔

ان کی پچھلی حکومت میں خواتین کو عوامی مقامات پر اس وقت تک جانے کی اجازت نہیں تھی جب تک کہ ان کے ساتھ گھر کا کوئی مرد موجود نہ ہو، خواتین کی کم عمری میں شادی عام تھی اور خواتین کو جنسی غلام بنایا جاتا تھا۔

اگرچہ طالبان کا کہنا ہے کہ اس بار خواتین کو زیادہ آزادیوں کی اجازت دی جائے گی لیکن افغانستان میں رہنے والوں کو طالبان کے اس بیان پر بہت سے شکوک و شبہات ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دی نیو یارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق رویا محبوب نے کہا کہ طالبان نے لڑکیوں کو تعلیم کی اجازت دینے کا وعدہ کیا ہے لیکن ایسا شرعی قانون کے تحت ہوگا۔

انہوں نے مزید کہا: ’ہمیں انتظار کرنا اور دیکھنا پڑے گا کہ (شریعت کے مطابق تعلیم کی اجازت) کا کیا مطلب ہے۔‘

انہوں نے کہا: ’ظاہر ہے ہم امید کرتے ہیں کہ خواتین اور لڑکیوں کو طالبان کے ماتحت اپنے خوابوں کو پورا اور مواقع حاصل کرنے کی اجازت دی جائے گی اور ایسا کرنا ہی افغانستان اور دنیا کے لیے بہتر ہوگا۔‘

ٹیم کی ارکان گذشتہ ہفتے ہرات سے روانہ ہوئیں اور ویزا کے حصول، ہوائی اڈے پر افراتفری اور کینیڈا میں پناہ کی درخواست جیسی مشکلات کے بعد اب کئی لڑکیاں قطر پہنچ چکی ہیں۔

افغان ٹیم نے 2017 میں دنیا بھر میں اس وقت پہچان حاصل کی جب اس کے چھ ارکان کو ایک مقابلے کے لیے امریکہ جانے سے روک دیا گیا تھا۔ انہیں آخرکار عوامی ردعمل اور اس وقت کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی مداخلت کے بعد اجازت دی گئی تھی۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین