’سٹریٹیجک ڈیپتھ‘ کا مطلب کیا ہے؟

سٹریٹیجک ڈیپتھ کے تصور کا ہمارے ہاں بہت مذاق اڑایا گیا ہے لیکن سوال یہ ہے کیا ایسا کرنے والے اس اصطلاح کے درست مفہوم سے آگاہ ہیں؟

ایک پاکستانی فوجی جنوبی وزیرستان میں انگور اڈا سرحد پر کھڑا ہے (اے ایف پی فائل)

یہ تحریر کالم نگار کی زبانی سننے کے لیے نیچے کلک کریں 

 

ناقدین کے نزدیک سٹریٹیجک ڈیپتھ کی اصطلاح کا مطلب یہ ہے کہ اگر کبھی بھارت پاکستان پر حملہ کر دے تو پاکستان اپنا اسلحہ اور جنگی سازوسامان افغانستان پہنچا دے گا تا کہ وہ تباہی سے بچ جائے اور پھر افغانستان سے وہ اپنی بقا کی جنگ لڑے گا اور جوابی حملہ کرے گا۔ ان کے خیال میں اسی مقصد کے لیے پاکستان کابل میں ایک طفیلی حکومت چاہتا ہے۔ یہ شرح فہم یا دیانت میں سے کسی ایک کے بحران کے اعلانِ عام کے سوا کچھ نہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ سٹریٹیجک ڈیپتھ کا مفہوم بالکل مختلف ہے اور یہ پاکستان کے تزویراتی بیانیے کا ایک منطقی تصور ہے۔ یہ تصور صرف اتنا سا ہے کہ مشرق میں بھارت جیسے دشمن کے ہوتے ہوئے ہم مغرب میں ایک دشمن افغانستان کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ پاکستان افغانستان میں طفیلی نہیں، ایک دوست حکومت کا خواہشمند ہوتا ہے اور یہی تصور سٹریٹیجک ڈیپتھ کہلاتا ہے۔ بھارت کے حملے کی صورت میں افغانستان جا کر جوابی حملہ کرنا ایک بچگانہ سی بات ہے۔ روکنے والوں نے اس سے پہلے بھارت کے حملے کو طورخم کے اس پار جا کر نہیں، بی آر بی پر کھڑے ہو کر روکا تھا۔

پاکستان ایک مستطیل میں پھیلا ہے جس کی لمبائی زیادہ مگر چوڑائی کم ہے۔ جنوبی کونے میں سر کریک کے ڈیلٹا سے لے کر شمالی کونے میں پاکستان کے زیر انتظام کشمیر تک بھارت بیٹھا ہے، جس کے ساتھ پاکستان کی سرحد قریب 2912 کلومیٹر ہے۔ دوسری جانب رباط جعلی سے لے کر واخان تک افغانستان ہے جس کے ساتھ پاکستان کی سرحد 2640 کلومیٹر طویل ہے۔ اب اگر بھارت کے ساتھ ساتھ افغانستان بھی دشمن ہو جائے تو پاکستان ان دونوں کے بیچ میں سینڈوچ بن جائے جس کے مشرق میں تین ہزار کلومیٹر طویل سرحد پر بھی دشمن ہو اور مغرب میں ڈھائی ہزار کلومیٹر سرحد پر بھی دشمن بیٹھا ہو۔

اس ’سٹریٹیجک سینڈ وچ‘ بننے سے بچنے کے لیے پاکستان ایک دوست افغانستان چاہتا ہے اور اس کی خواہش ہے کہ وہاں بھارت نواز حکومت نہیں بلکہ پاکستان دوست حکومت ہو۔ یہ پاکستان کا ’سٹریٹیجک ڈیپتھ‘ کا تصور ہے اور ایک منطقی تصور ہے۔

یہ تصور کیسے پیدا ہوا اور کیا یہ ایک جارحانہ تصور ہے یا دفاعی؟ یہ تصور افغان حکومتوں کی وجہ سے پیدا ہوا جنہوں نے پہلے دن سے پاکستان کی مخالفت کی۔ اقوام متحدہ میں پاکستان کی مخالفت میں ووٹ دیا۔ پاکستان میں مسلح تحریکیں چلانے کی کوشش کی۔ ڈیورنڈ لائن کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ پاکستان کا افغانستان کے ایک انچ پر بھی کوئی دعویٰ نہیں، نہ تھا، نہ ہے۔ یہ افغان حکومتیں تھیں جو روز اول سے بھارت کی پراکسی کے طور پر پاکستان کے وجود کو چیلنج کر رہی تھیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پشتونستان تحریک افغانستان سے چلائی گئی، پشتون زلمی کے نام سے مسلح گروہ افغان حکومت کی سرپرستی میں کھڑا کیا گیا۔ یعنی پاکستان کو پہلے دن سے ’سٹریٹیجک سینڈ وچ‘ بنانے کی کوشش کی گئی۔ یہی وہ خطرہ تھا جس کا اظہار پاکستان کے پہلے کمانڈر ان چیف جنرل گریسی نے قائد اعظم سے کیا تھا کہ پاکستان کی بعض سیاسی قوتیں مغرب میں شورش پیدا کر سکتی ہیں۔

یہ کون سی قوتیں تھیں اور یہ کون سا خطرہ تھا؟

پاکستان کو ’سٹریٹیجک سینڈ وچ‘ بنانے کی پالیسی آج بھی بھارت کی خارجہ پالیسی کا بنیادی نکتہ ہے۔ افغانستان کے ساتھ پاکستان کی تو ایک طویل سرحد ہے، بھارت کا کیا ہے؟ وہ افغانستان کے معاملات میں اتنا دخیل کیوں ہے اور افغانستان کے نئے حکمران دیکھ کر اس کا میڈیا اتنے غم و غصے میں کیوں ہے؟

ابھی کا حال دیکھ لیجیے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری تھی۔ پاکستان امریکہ کا فرنٹ لائن اتحادی تھا۔ لیکن اس کے باوجود افغانستان کی طرف سے پاکستان کے لیے مسائل ہی کھڑے ہوتے رہے۔ بلوچستان میں شورش کے تانے بانے بھی ادھر ہی ملتے رہے۔ ابھی افغانستان کی نئی حکومت نے پاکستان میں دہشت گردی کرنے والوں کو سخت تنبیہ کی ہے کہ آئندہ ایسی حرکت برداشت نہیں کی جائے گی، گویا اب سے پہلے افغانستان ان کی محفوظ پناہ گاہ تھی۔

حالات کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ افغان سرحد کے ساتھ پاکستان کو اپنی قریباً تین سٹرائکنگ کورز لگانا پڑیں۔ افغانستان میں پاکستان دوست حکومت آنے کا مطلب ہے کہ پاکستان کی تین سٹرائکنگ کورز اب ادھر سے فارغ ہو گئی ہیں اور کسی بھی خطرے سے نبٹنے کے لیے پاکستان کو دستیاب ہیں۔ بھارت اس کا مطلب خوب جانتا ہے۔

بھارت نے خود تو پاکستان کے خلاف آبی جارحیت کی ہی ہے، اس نے افغانستان کے ذریعے بھی یہی کام کیا ہے۔ بھارتی سرمایہ کاری اور انجینیئروں کی مدد سے چہار آسیاب میں دریائے کابل پر شاہ توت ڈیم بظاہر تو کابل وغیرہ کے لیے پانی کی فراہمی کا پراجیکٹ تھا لیکن اصل میں یہ پراجیکٹ پاکستان کے خلاف آبی جارحیت تھی۔

دریائے کابل پر صرف کابل کا انحصار نہیں ہے۔ یہ دریا اٹک کے مقام پر دریائے سندھ میں گرتا ہے۔ یہاں پہنچنے سے پہلے یہ پشاور کی پانی کی ضرورت پوری کرتا ہے اور پوری وادی پشاور اور وادی نوشہرہ کی زراعت کا انحصار اسی پر ہے۔ وارسک ڈیم بھی اسی دریا پر بنا ہے۔ بھارت یہاں ڈیم بنا کر وادی پشاور اور وادی نوشہرہ کی زراعت تباہ کرنا چاہتا تھا۔ (لیکن حیران کن طور پر کالاباغ ڈیم کے مخالفین نے کبھی شاہ توت ڈیم کے خلاف ایک لفظ ادا نہیں کیا۔)

پڑوس کو دوست رکھنے کی خواہش ہر ملک کا حق ہے۔ پاکستان ’سٹریٹیجک ڈیپتھ‘ تلاش نہ کرے تو کیا ’سٹریٹیجک سینڈوچ‘ بن جائے؟

 

نوٹ: یہ مضمون مصنف کی ذاتی رائے پر مبنی ہے ادارے کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ