پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے دریاؤں سے نکلتی ریت، جسے ’گرے گولڈ‘ کہا جاتا ہے، سے مقامی لوگوں کے گھروں کے چولہے روشن ہیں۔
مظفرآباد اور اس کے گرد نواح میں بہنے والے دریائے نیلم، جہلم اور کنہار اپنے ساتھ ہر سال ریت کی بڑی مقدار بہا کر لاتے ہیں، جو سردیوں کے سیزن میں دریاؤں کا پاٹ سکڑنے سے کناروں پر جمع ہوتی ہے۔
ان ہی دریاؤں کے کنارے اس ریت کو نکال کر، چھان کر، صاف کرنے اور فروخت کرنے کی ایک پوری صنعت آباد ہے، جس سے مقامی لوگ فائدہ اٹھا رہے ہیں۔
دریاؤں سے نکلنے والی یہ ریت تعمیرات میں پتھر سے بنائی گئی ریت کی جگہ استعمال کی جاتی ہے، جو معیاری اور مضبوط سمجھی جاتی ہے۔ اسی ریت کی صنعت کے باعث مقامی افراد اس کاروبار سے اپنا گزر بسر کر رہے ہیں، تاہم دریاؤں پر بننے والے ڈیمز اور موسمیاتی تبدیلیوں سے ان لوگوں کے کاروبار پر بھی اثر پڑ رہا ہے۔
مظفرآباد کے علاقے جلال آباد کے رہائشی گلفام احمد گذشتہ 12 سال سے مقامی طور پر دریا سے ریت نکالنے کے کام سے وابستہ ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے بتایا کہ ’مظفرآباد کے دریاؤں میں دو کوالٹی کی ریت آتی ہے۔ ایک ریت درجہ حرارت بڑھنے اور تیز دھوپ کے ساتھ پہاڑوں پر پڑی برف پگھلنے سے بننے والے دریا کے پانی کے ساتھ بہہ کر آتی ہے، جو بالکل صاف اور انتہائی اعلیٰ کوالٹی کی ہوتی ہے اور پلستر اور چنوائی کے لیے بہت مضبوط تصور کی جاتی ہے۔
’دوسری کوالٹی کی ریت وہ ہے، جو برسات کی وجہ سے ندی نالوں میں بہہ کر آتی ہے، اس میں مٹی بھی شامل ہو جاتی ہے، جس کی وجہ سے ریت کی کوالٹی میں فرق پڑتا ہے۔‘
گلفاط نے مزید بتایا کہ ’اس دریا کی ریت بہت اعلیٰ کوالٹی کی ہے۔ آپ پتھر کی بنائی ہوئی ریت سے اس کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔‘
دریا کے بہتے پانی سے ریت کیسے نکالی جاتی ہے؟ اس سوال کے جواب میں گلفام نے بتایا: ’ہم یہ ریت دریا کے اندر جا کر نکالتے ہیں۔ جب دھوپ ہوتی ہے، تو دریا کا بہاؤ زیادہ ہوتا ہے، تب ہم یہ ریت نہیں نکال سکتے، اس زیادہ بہاؤ میں ہمارے دریا میں بہہ جانے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔
’لہذا ہم آسمان پر بادل چھانے کا انتظار کرتے ہیں، جب ایک دو دن آسمان پر بادل آتے ہیں تو درجہ حرارت کی کمی کی وجہ سے پہاڑوں پر پڑی برف کم پگھلتی ہے، جس کی وجہ سے دریا کے پانی کا بہاؤ کم ہوتا ہے اور اس دوران ہم کنارے پر کھڑے ہو کر دریا سے ریت نکال پاتے ہیں۔‘
گلفام نے مزید بتایا: ’میں گذشتہ 12 سال سے کام کر رہا ہوں۔ پہلے اس دریا پر کوئی ڈیم نہیں تھا، اس ڈیم کی وجہ سے ہمیں نقصان ہوا ہے۔ پہلے پورا سال یہاں سینکڑوں لوگ کام کرتے تھے لیکن پانی کا بہاؤ کم ہونے کی وجہ سے دریا کے پانیوں میں آنے والی ریت کی مقدار کم ہوچکی ہے۔‘
مظفرآباد کے دوسرے دریا جہلم کے کنارے کام کرنے والے ثاقب صبح سکول جاتے ہیں اور واپسی پر اپنے گھر والوں کے ساتھ ریت نکالنے کا کام کرتے ہیں۔
انہوں نے بتایا: ’ہمارا پورا خاندان یہی کام کرتا ہے، یہاں سے ریت نکالتے ہیں، اسے چھانتے ہیں اور پھر گدھوں کے ذریعے اسے اوپر لا کر پھینکتے ہیں اور وہاں سے اسے گاڑیوں پر لاد کر بیچتے ہیں، اسی کاروبار سے ہماری آمدن ہوتی ہے، جس سے ہم اپنے گھر کا کھانا کھاتے ہیں۔‘
مظفرآباد میں دریا کے کنارے ریت نکالنے کی صنعت سے وابستہ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ دریاؤں پر بننے والے ڈیمز اور موسمیاتی تبدیلیوں کے تحت بارشوں اور برف باری کا نہ ہونا یا کم ہونا دریاؤں کے بہاؤ میں کمی لا رہا ہے، جس سے ان کے کاروبار براہِ راست متاثر ہو رہے ہیں۔