پاکستان کی خلا پر کمند

اگلے سال دو پاکستانی خلاباز چین کے تعاون سے خلا کا سفر کریں گے، جو پاکستان کے خلائی پروگرام کی تاریخ میں سنگِ میل ثابت ہو گا۔

سپارکو کے فیس بک پر پاکستانی سیٹلائٹ ای او 1 کی یہ تصویر 17 جنوری کو شیئر کی گئی تھی (فیس بک)

پاکستان کا خلائی پروگرام روس، امریکہ، چین یا پھر ہمارے پڑوسی ملک انڈیا جیسا ترقی یافتہ نہیں ہے، لیکن اب اس کے دو خلاباز اگلے برس خلا پر کمندیں ڈالنے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔

البتہ ان کے نام ابھی سپارکو نے جاری نہیں کیے۔ سپارکو کے خلائی مشن کے پروجیکٹ مینیجر طاہر محمود نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ چین کے ایک خلائی سٹیشن سے پاکستان کے دو خلا باز تربیت حاصل کرنے کے لیے روانہ کیے جائیں گے۔

چینی خلائی سٹیشن کا نام ’تیانگ گونگ‘ ہے، جس کے معنی ’آسمانی محل‘ کے ہیں۔ اس سلسلے میں موجودہ سال فروری میں دونوں ممالک کے درمیان سپارکو اور چینی ادارے ’سی ایم ایس اے‘ نے ایک معاہدے پہ دستخط کیے تھے۔

پاکستان میں خلائی پروگراموں اور خلا بازوں کی تربیت سے متعلق کس قسم کی مہارت اور رجحان پایا جاتا ہے، اس بارے میں قائداعظم یونیورسٹی سے ریٹائرڈ ماہرِ طبیعیات پروفیسر اے ایچ نیر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’سپارکو کو قائم ہوئے چھ دہائیاں گزر چکی ہیں لیکن ہم مواصلات کے نظام سے موسم اور ٹی وی پروگراموں کی ترسیل تک ہی محدود ہیں۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’فضا میں سیٹلائٹس تو بھیجتے رہتے ہیں لیکن اپنا خلائی مشن بنانے میں ابھی کامیاب نہیں ہو سکے۔‘

پروفیسر اے ایچ نیر: ’ہمارا راکٹ کا نظام اتنا ایڈوانس نہیں ہو سکا ہے کہ ہم خلا میں اپنے تجرباتی مشن بھیج سکیں۔ اس وقت بھی ہم جو خلا باز بھیج رہے ہیں اس میں ہمیں چین کے تیانگ گونگ خلائی سٹیشن کی مدد لینا پڑ رہی ہے جس پر خاصی لاگت بھی آئے گی۔

’لیکن یہ اچھا بھی ہے کہ ہمارے خلا بازوں کی تربیت اور تجربہ ان کو مستقبل میں اپنا خلائی سٹیشن قائم کرنے میں مددگار ثابت ہو گا۔‘

سپارکو کے خلائی مشن کے پروجیکٹ مینیجر طاہر محمود کا کہنا ہے کہ یہ اقدام ملک کے خلائی پروگرام کی ترقی میں ایک نمایاں اہمیت کا حامل ہو گا اور پاکستان کا خلائی پروگرام آگے بڑھے گا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تیانگ گونگ کے ساتھ پاکستانی خلا باز، سپارکو کے اشتراک سے ملک کے محقق، اساتذہ اور مختلف صنعتوں کے حوالے سے تیار کردہ معلومات کی روشنی میں تجربات کر سکیں گے۔

اس مشترکہ خلائی مشن سے دونوں ممالک کے خلائی پروگراموں کی بہتری میں اضافہ ہو گا اور دنیا بھر سے خلائی مشنز کے ہمراہ تجربات اور تحقیق کی بنیاد پڑے گی۔

پاکستان اور چین کے اس معاہدے کی رُو سے چینی خلائی مشن پاکستان کے خلا بازوں کی تربیت کر سکے گا، جو پاکستان کے خلا بازوں کے لیے اہم قدم ہو گا اور ایک دن پاکستان اپنا خلائی مشن انفراسٹرکچر کھڑا کرنے میں کامیاب ہو گا۔

ڈاکٹر اے ایچ نیئر کا کہنا ہے کہ پاکستان میں خلائی پروگرام کو مستحکم کرنے پر کام کیا جانا چاہیے۔ ’ابھی تک ہم ایسا راکٹ نظام نہیں بنا سکے ہیں جو خلا میں بھیجے گئے سیٹلائٹ کو ایک مخصوص فاصلے تک لے جا سکے، جو خلائی مشاہدات کے لیے ضروری ہیں۔‘

اس وقت پاکستانی سیٹلائٹس زمین سے قریب مدار تک محدود ہیں اور باقاعدہ خلا میں اپنے مواصلاتی سیارے بھیجنے کی صلاحیت میں پیچھے ہیں۔

سپارکو کے مطابق چینی خلائی مشن تیانگ گونگ میں پاکستانی خلابازوں کی شمولیت پاکستان کی خلائی ترقی کو سائنسی اور تکنیکی میدان میں آگے لے جائے گی۔

تیانگ گونگ سپیس مشن میں یہ پاکستانی خلا باز ’پے لوڈ ماہرہین‘ کی طرز پر تربیت حاصل کریں گے۔ گو کہ ان کا تعلق امریکی ادارے ناسا کے ماہرین سے نہیں ہو گا لیکن یہ وہ خلاباز ہوں گے جو کسی بھی خلائی شٹل مشن میں مخصوص تجربات، مشینری اور پے لوڈ پر کام کر سکیں گے۔

اس میدان میں قابلیت حاصل کرنے کے لیے ان خلابازوں کو انتھک ٹریننگ سے گزرنا ہو گا۔

تربیت کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ ’کشش ثقل یا گریویٹی نہ ہونے کے برابر ہے، جس سے مدار میں ٹھہرنا اور کچھ دن گزار کے واپس زمین پر لوٹ آنا خلا بازوں کے لیے بڑا چیلنج ہوتا ہے، ان کی صحت، ان کے جسم اور اعصاب سبھی خلا میں متاثر ہوتے ہیں اور اس سب کو متوازن رکھنے کے لیے خلا بازوں کی ٹریننگ کی جاتی ہے۔

’انہیں ایسی مشینوں اور ماحول کے ساتھ ٹریننگ دی جاتی ہے کہ وہ خلا میں ایک مخصوص عرصہ گزار سکیں اور مشاہدات درج کر سکیں۔ ان کی خوراک اور ان کے اوقات کار سب کی مانیٹرنگ کی جاتی ہے۔‘

سپارکو سے ملنے والی معلومات کے مطابق، پاکستان چین خلائی معاہدے کے مطابق چین کے خلا باز تربیتی سینٹر میں جنوری 2026 سے اکتوبر 2026 تک پاکستان کے دو خلا بازوں کو تربیت دی جائے گی اور پھر ان میں سے کوئی ایک سپیس فلائٹ پر بھیجا جائے گا۔

اس سپیس مشن میں پاکستانی خلا باز چھ سے سات دن گزار سکیں گے اور اس دوران وہ مختلف سائنسی تجربات اور ٹاسک پرفارم کریں گے۔

بقول ڈاکٹر اے ایچ نیئر: ’پاکستان کو اپنا راکٹ کا نظام بہتر کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ اپنے خلائی مشن اور خلاباز اپنی سرزمین سے خود بھیج سکے اور اس طرح وہ اس لاگت سے بھی بچ جائے گا جو اسے دوسرے ممالک کی مدد حاصل کرنے اور اپنے خلا بازوں کو بھیجنے پر ادا کرنی پڑتی ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی ٹیکنالوجی