مودی کے دوبارہ انتخابات جیتنے کی سات اہم وجوہات

1971 کے بعد بھارت کی سیاسی تاریخ میں ایسا پہلی بار ہو گا کہ اتحادیوں کی بیساکھی کے بغیر کوئی جماعت مسلسل دوسری بار دہلی میں حکومت بنائے گی۔

2014 کی طرح ان انتخابات میں بھی بی جے پی کی کامیابی کا سہرا نریندر مودی کے سر ہی جائے گا جن کی متنازعہ اور انتہاپسندانہ حکمت عملی کے سامنے حزب اختلاف کی جماعتیں تنکے کی طرح بہہ گئیں (اے ایف پی)

بھارتی انتخابات کا معرکہ وزیراعظم نریندر مودی کی قیادت میں قائم اتحاد نے سر کر لیا ہے اور بھارتیہ جنتا پارٹی تن تنہا اگلے پانچ  برس کے لیے حکومت بنانے کی پوزیشن میں آ گئی ہے۔

1971 کے بعد بھارت کی سیاسی تاریخ میں ایسا پہلی بار ہو گا کہ اتحادیوں کی بیساکھی کے بغیر کوئی جماعت مسلسل دوسری بار دہلی میں حکومت بنائے گی۔

2014 کی طرح ان انتخابات میں بھی بی جے پی کی کامیابی کا سہرا نریندر مودی کے سر ہی جائے گا جن کی متنازعہ اور انتہاپسندانہ حکمت عملی کے سامنے حزب اختلاف کی جماعتیں تنکے کی طرح بہہ گئیں۔

مودی کی اس تاریخی فتح کے پیچھے کیا عوامل تھے ان میں سے سات کا جائزہ لیتے ہیں۔

مودی کی شخصیت

بھارتی اخبار ٹائمز آف انڈیا کے مطابق بھارتیہ جنتا پارٹی کے سیاسی اتحاد نیشنل ڈیموکریٹک الائنس (این ڈی اے) کو وزیراعظم کے عہدے کے لیے نریندر مودی کی صورت میں متفقہ امیدوار میسر تھا جبکہ اس کے برعکس اپوزیشن کے کیمپ میں ایسا کوئی چہرہ موجود نہیں تھا۔

کانگریس پارٹی کے صدر راہل گاندھی دو اتحادی جماعتوں کو چھوڑ کر کسی اور جماعت کو وزیراعظم کے عہدے کے لیے قبول نہیں تھے جب کہ ان کے پاس اس عہدے کے لیے راہل سے بہتر شخصیت دستیاب بھی نہیں تھی۔

مغربی بنگال کی وزیراعلیٰ ممتا بینرجی، بی ایس پی کی سربراہ مایاوتی، سابق وزیراعظم ایچ ڈی دیو گوڈا، این سی پی کے صدر شرد پاوار سمت کئی دوسری علاقائی جماعتوں کے رہنما وزیراعظم کے عہدے کے لیے میدان میں کود پڑے جس سے ووٹرز الجھن کا شکار ہو گئے۔

منقسم اپوزیشن

گذشتہ برس کرناٹک کے وزیراعلیٰ ایچ ڈی کمارا سوامی کی حلف برداری کے موقع پر جب تمام بڑی اپوزیشن جماعتوں کے رہنماؤں نے سٹیج پر یک جہتی کا اظہار کیا تو ایسا لگ رہا تھا کہ 2019 کے لوک سبھا کے انتخابات کے لیے مودی کے خلاف ایک مضبوط اتحاد تشکیل پا جائے گا مگر انتخابی مہم کے دوران یہ اتحاد بکھر کر رہ گیا اور ان جماعتوں کے رہنما ایک دوسرے کے خلاف ہی صف آرا ہو گئے جس کا فائدہ یقینی طور پر حکمران جماعت کو پہنچا۔ جیسا کہ خود نریندر مودی نے اس اتحاد کو ’مہا ملاوٹ‘ (بڑی ملاوٹ) سے تشبیہہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ یہ پانی اور تیل کی طرح ہیں ان کو جتنا بھی ملا لیں یہ کبھی یک جان نہیں ہو سکتے۔

منفی سیاست

اپوزیشن جماعتوں کی منفی سیاست ایک طرح سے ان کو لے ڈوبی۔ اپنے سیاسی کارنامے بتانے یا حکومت میں آنے کی صورت میں اپنے ترقیاتی منصوبوں کے بارے میں بات کرنے کی بجائے حزب اختلاف کی جماعتیں مودی حکومت میں ہی کیڑے نکالتی رہیں۔ راہل گاندھی نے مودی کی ذات پر بدعنوانی کے الزامات لگائے اور ’چوکیدار چور ہے‘ کے نعرے لگاتے رہے تاہم عوام نے ان کے الزامات کو مسترد کر کے مودی پر ایک بار پھر اعتماد کا اظہار کر دیا۔

خواتین اور ترقیاتی سرگرمیاں

مودی کی فتح میں خواتین نے اہم کردار ادا کیا۔ وزیراعظم نے اپنی اتخابی مہم میں خواتین کی حمایت حاصل کرنے ’سواچھ بھارت‘ سکیم کے تحت ہر گھر میں ٹوائلٹ کی تعمیر اور ’اُجالا یوجنا‘ کے تحت غریب گھرانوں میں گیس سلینڈروں کی تقسیم کا وعدہ کیا تھا۔ ایسی طرح مسلمان خواتین کو راغب کرنے کے لیے ٹرپل طلاق آرڈینس کے ذریعے قانون میں تبدیلی کی۔ مودی کی قیادت میں پچھلے پانچ سالوں میں بھارت کی شرح نمو 7 فیصد سے زیادہ ریکارڈ کی گئی۔ معاشی میدان میں بھارت کی ترقی کا ذکر مودی، امیت شاہ اور دیگر بی جے پی کے رہنماوں نے انتخابی مہم کے دوران خوب زور شور سے کیا۔ انہوں نے سٹرکوں، بنیادی ڈھانچے کی تعمیر، کاروبار میں مدد، صحت کارڈز کا اجرا، جان دھان اکاونٹس اور ایسی دیگر ترقیاتی سکیموں سے عوام کو رام کرنے کی کوشش کی جس میں وہ کامیاب بھی رہے۔

قومی سلامتی

انتخابی مہم کے دوران بی جے پی کے تمام رہمنا بشمول نریندر مودی، پارٹی صدر امیت شاہ اور دیگر وزرا پاکستان کے علاقے بالاکوٹ پر مبینہ فضائی حملوں کا کریڈٹ لیتے دکھائی دئیے۔ بھارتی زیر انتظام کشمیر کے علاقے پلوامہ میں نیم فوجی دستے پر ہونے والے بدترین خودکش حملے کا بھی ہندو نواز اور قوم پرست جماعت نے خوب فائدہ اٹھایا۔ مودی کا پاکستان کے خلاف یہ نعرہ ’گھر میں گھس کر ماریں گے‘ بھارتی عوام نے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ 2016 میں اڑی کیمپ پر حملے کے بعد بھی مودی نے ’گولی کا جواب گولے سے دیں گے‘ کو اپنی سیاست کے لیے استعمال کیا۔ مودی بھارتی عوام کو پیغام دینا چاہتے تھے کہ ان کی حکومت میں ملک کی سلامتی محفوظ ہاتھوں میں ہے۔ بالاکوٹ پر مبینہ فضائی حملے کے بعد مودی کی مقبولیت میں اچانک بے پناہ اضافہ ہو گیا تھا۔

سیاسی حکمت عملی

شمالی ریاستوں اتر پردیش، دہلی، مدھیا پردیش، راجستھان اور چھتیس گڑھ میں کچھ نشستیں کھو دینے کے اندیشے کے باعث، بی جے پی نے نئی سیاسی حکمت عملی تشکیل دی جس کے تحت شمال مشرقی مغربی بنگال اور اڑیسہ کی ریاستوں پر توجہ مرکوز کی گئی۔  یہ حکمت عملی کامیاب رہی بلکہ یوپی میں تو 2014 کی نسبت زیادہ نشیتیں بی جے پی کے ہاتھ آئی ہیں۔

ہندوتوا

اس میں کوئی شک نہیں کہ نریندر مودی ایک سخت گیر ہندو قوم پرست رہنما کے طور پر ابھرے ہیں اور اس معاملے میں ان کا رویہ کبھی معذرت خواہانہ نہیں رہا۔ وہ ڈنکے کی چوٹ پر ہندوتوا کا پرچار کرتے رہے ہیں۔ انہوں نے حال ہی میں کمبھ کے میلے میں فخریہ انداز سے سنگم پر آشنان لیا تھا جو شاید اس سے پہلے کسی وزیراعظم نے نہیں کیا تھا۔ گجرات فسادات کے دوران بھی ان کا متنازعہ کردار کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ گذشتہ ہفتہ انہوں نے مقدس غار میں مراقبہ بھی کیا تھا۔ یہ واضح ہے کہ مودی اپنے شدت پسندانہ ہندوتوا نظریے کے اظہار سے کبھی نہیں چوکتے اور شاید یہی ہندو اکثریتی ملک میں ان کی فتح کی اہم وجہ ہو سکتی ہے۔

 

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا