حکومت ایک پیسہ نہیں دیتی تو جوابدہی کس چیز کی: اولمپک ایسوسی ایشن

بین الاصوبائی روابط کی قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن پر بات چیت کا آغاز ہوا تو ایسوسی ایشن کے عیداروں کا کہنا کہ انہیں حکومتی فنڈنگ نہیں ملتی جبلہ کمیٹی کے ممبران کا سوال یہی تھا کہ ایسوسی ایشن ’کس کے ماتحت ہے؟‘

قائمہ کمیٹی برائے بین الاصوبائی تعاون کے اجلاس میں پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن پر کافی گرما گرم بحث ہوئی (پاکستان اولمپکس ایسوسی ایشن/ فیس بک)

پاکستان میں کھیلوں کے عہدیداران نے پارلیمانی کمیٹی کے سامنے پیشی کے دوران ان کی کارکردگی کے حوالے سے سوالات پر صرف ایک ہی بات کہی کہ انہیں جب تک فنڈز نہیں دیے جاتے تب تک کارکردگی ایسی ہی رہے گی۔   

اسلام آباد میں جمعے کو بین الاصوبائی روابط (انٹر پروونشیل کو آرڈینشین یا آئی پی سی) کی قائمہ کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں پاکستان ہاکی فیڈریشن، پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن اور پاکستان جمناسٹک فیڈریشن بلایا گیا تھا تاکہ ان سے چند ضروری سوالات کے جواب طلب کیے جا سکیں۔

اجلاس پارلیمان کی چوتھی منزل پر روم نمبر سات میں ہو رہا تھا جس میں مختلف جماعتوں کے ارکانِ پارلیمان کی بڑی تعداد موجود تھی جنہیں دیکھ کر لگ رہا تھا کہ ان میں سے کوئی بھی کھیلوں کے عہدیداران سے خوش نہیں ہیں اور اس اجلاس کے لیے خوب تیاری کر کے آئے ہیں۔

جبکہ ارکان پارلیمان کی نشستوں کے بالکل سامنے لگی نشستوں پر وہ شخصیات بیٹھی تھیں جنہوں نے بریفنگ دینی تھی اور انہیں دیکھ کر محسوس ہو رہا تھا کہ ان کے پاس کہنے کو کوئی ٹھوس بات نہیں، اگر کہنے کو کچھ تھا تو صرف اپنے ادارے کی تاریخ اور یہ کہ فنڈز نہیں ملتے۔

اجلاس کے دوران کھیلوں کے عہدیداران سے ان کی کارکردگی، مالی صورت حال وغیرہ کے حوالے سے کافی سخت سوالات کیے گئے جیسا کہ ’کون، کیا اور کیسے کر رہا ہے اور کب سے کر رہا ہے‘ جس کے جواب میں زیادہ تر کا یہی کہنا تھا کہ ’فنڈز کا مسئلہ‘ ہے۔

لیکن سب سے حیران کن جواب پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن کے سینیئر نائب صدر سید عاقل شاہ کی جانب سے دیا گیا۔  

پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن پر بات چیت کا آغاز ہوا تو کم از کم ایک بات تو واضح ہو گئی کہ وہاں موجود ارکان پارلیمان اور خود وفاقی وزیر برائے آئی پی سی ان سے بالکل بھی خوش نہیں ہیں یہی وجہ ہے کہ وہاں موجود ممبران کا واحد سوال یہی تھا کہ ’یہ سب کس کے ماتحت ہیں؟‘ 

اس پر قائمی کمیٹی کے چیئرمین نواب شیر کی آواز آئی: ’ہاں جی اولمپک ایسوسی ایشن کی طرف سے کون آیا ہے؟‘ اس سوال پر پہلے تو کچھ لمحے کے لیے خاموشی ہو گئی اور پھر ’پہلے آپ، پہلے آپ‘ کرنے کے بعد پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن کے سیکریٹری جنرل نے بات کرنا شروع کی۔  

جیسے ہی انہوں نے اپنا تعارف کرایا تو  پھر سے چیئرمن نے انہیں روکتے ہوئے پوچھا: ’آپ کے صدر کہاں ہیں؟‘ اس پر سیکرٹری جنرل خالد اقبال نے بتایا: ’جی صدر صاحب طبی وجوہات کی بنا پر ملک سے باہر گئے ہیں 21 تاریخ کے بعد آجائیں گے۔‘  

اس کے بعد پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن کے سینیئر نائب صدر سید عاقل شاہ کو بولنے کا موقع دیا گیا، جن کا نام لے کر ممبران کی جانب سے کئی بار ان کے تعیناتی پر سوال اٹھایا گیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ممبران کے سوالوں کے جواب میں سید عاقل شاہ نے کہا کہ  ’بار بار کہا گیا کہ خیبرپختونخوا میں عاقل شاہ اتنے سالوں سے ہیں، تو میں تو منتخب ہو کر جمہوری طریقے سے آتا ہوں۔ پھر بات کی گئی کہ جوابدہی ہونی چاہیے، ایک پیسہ حکومت سے نہیں ملتا تو جوابدہی کس چیز کی؟‘  

سید عاقل شاہ کی اس بات پر پہلے تو چیئرمین نواب شیر بولے کہ ’میں آپ کا بہت مشکور ہوں کہ جو بات آپ کے دل میں تھی وہ آپ نے کہہ دی۔‘  

نواب شیر نے انتہائی نرم لہجے کے ساتھ تلخ باتیں کیں اور کہا کہ ’آپ پاکستان کا نام استعمال کرتے ہیں، پاکستان کا جھنڈا استعمال کرتے ہیں تو کیسے جوابدہ نہیں ہیں، آپ بالکل جوابدہ ہیں۔‘  

بات یہیں ختم نہیں ہوئی بلکہ اجلاس کے آخر میں آنے والی آئی پی سی کی وفاقی وزیر ڈاکٹر فہمیدہ مرزا نے انتہائی گرج دار انداز میں اسی حوالے سے بات کی۔  

انہوں نے کہا:  ’دنیا میں کہیں ایسا نہیں ہوتا، کسی ملک میں کوئی مادر پدر آزاد نہیں ہوتا کہ کوئی ادارہ یہ کہے کہ وہ کسی کو جوابدہ نہیں ہے۔‘  

’آپ کے نام کے ساتھ جب پاکستان جڑے گا تو سب سے پہلے آپ پاکستان کو جوابدہ ہیں۔ آپ پاکستان کے بچوں کے مستقبل کے ساتھ ڈیل کر رہے ہیں، آپ پاکستان سے باہر کسی کے ساتھ کام نہیں کر رہے۔‘  

انہوں نے مزید کہا: ’پانچ سال بعد حکومت بدل جاتی ہے، لیکن فیڈریشن وہی رہتی ہے، فنڈنگ تو صرف ایک چیز ہے، اور یہ بالکل غلط ہے کہ کوئی فنڈنگ نہیں ہوئی۔ آپ کو 2019 میں کیوں خیال آیا کہ آپ آئین کو تبدیل کریں، پیٹرن کو ہٹانے کا فیصلہ آپ کا تھا، کوئی شفافیت نہیں ہے۔‘

ڈاکٹر فہمیدہ مرزا نے اولمپک ایسوسی ایشن کے عہدریداران کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’انٹرنیشنل اولمپک کمیٹی کے چارٹر پر بالکل عمل نہیں ہو رہا، آپ کے ایک کھلاڑی کے ہارنے پر آپ نے وہیں سے حکومت پر الزام لگانا شروع کر دیا۔‘ 

واضح رہے کہ گذشتہ ماہ ڈاکٹر فہمیدہ مرزا نے ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا تھا کہ اولمپکس مقابلوں میں ناکامی اور قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی پر اولمپک ایسوسی ایشن کے صدر کو منصب رکھنے کا کوئی حق نہیں، انہیں فوری طور پر مستعفی ہونا چاہیے۔

جمعے کے اجلاس میں انہوں نے کہا: ’خود مختار ادارہ ہونے کا مقصد یہ نہیں کہ آپ قانون سے بالاتر ہیں۔‘   

چیئرمین کی جانب سے کہا گیا کہ اولمپک ایسوسی ایشن کی کارگردگی پر ایک اور خصوصی میٹنگ ہونی چاہیے جس پر پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن کے سینیئر نائب صدر قاعل شاہ نے کہا: ’جی جی بالکل بلائیں، ہماری ایسوسی ایشن کوئی جھگڑا نہیں چاہتی۔ ہم صرف فنانس کے حوالے سے جوابدہ نہیں باقی تو ہم حاضر ہیں۔‘  

اس موقع پر ایڈشنل سیکریٹری آئی پی سی محسن مشتاق نے کہا: ’اگر ایک ڈالر بھی ملک میں آرہا ہے تو حکومت کے علم میں ہونا چاہیے۔ نیشنل فیڈریشن جتنی بھی ہیں وہ اپنا آڈٹ کروائیں، جیسے ہاکی فیڈریشن اور کرکٹ بورڈ کا ہوتا ہے۔‘  

اس پر سید عاقل شاہ نے کہا: ’ہر سال ہوتا ہے آڈٹ۔‘ جس کے جواب میں ایڈشنل سیکریٹری آئی پی سی نے پھر سے انہیں روکتے ہوئے کہا کہ ’آڈٹ نہیں ہوتا اور اگر پہلے کبھی آڈٹ ہوا ہے تو بتا دیں۔‘ جس پر پھر سے کچھ دیر کے لیے خاموشی ہو گئی۔  

آخر میں ایک رکن پارلیمان گل ظفر خان نے ہاتھ بلند کر کے سوال کرنے کی اجازت طلب کی اور پوچھا کہ ’یہ پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن آخر کس کے ماتحت ہے؟‘ اس پر چیئرمین کمیٹی نے کہا: ’جی ہم یہی تو کہہ رہے ہیں کہ یہ حکومت کے ماتحت ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ ہم نہیں ہیں۔‘  

اس پر پھر سے گل ظفر خان نے سوال کیا کہ ’پھر ان پر پالیسی کس کی چلتی ہے۔ صدر کو ہٹانے کے لیے تو پالیسی پر عمل ہوتا ہے لیکن ان پر نہیں ہوتی۔ اتنی طویل حکومت تو صدام حسین کی بھی نہیں چلی جتنا وقت ان (اولمپک ایسوسی ایشن کے عہدیداران) کو ہو گیا ہے۔‘  

اس میٹنگ کے دوران باتیں تو کافی ہوئیں لیکن نتیجا ایک ہی نکالا جا سکتا ہے کہ ’حکومت فنڈز نہیں دیتی‘ اور حکومت کی ’سنتا بھی کوئی نہیں ہے۔‘  

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی کھیل