آئی ایس آئی نے بلائی آٹھ ایجنسیوں کی بیٹھک

ستمبر کی 10 اور 11 کو آئی ایس آئی نے آٹھ ممالک کی انٹیلی جنس سربراہان کی دو روزہ میٹنگ بھی ایک انٹیلی جنس آپریشن کی طرح منعقد ہونے تک خفیہ ہی رہی۔ جب اجلاس شروع ہوا تو تب اس خبر کو سوشل میڈیا کے ذریعہ سے دنیا تک پہنچایا گیا۔

شاید یہ اپنی نوعیت کی پہلی میٹنگ تھی جس میں چین، روس، ایران، تاجکستان، ازبکستان اور پاکستان کے انٹیلی جنس ایجنسیز کے سربراہان نے شرکت کی (فائل تصویر: این ڈی یو)

اگر امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کے چیف ولیم جے برنز کے پاکستان میں دس روز میں دو مرتبہ آنے کو ایک بڑی خبر سمجھا جا رہا تھا تو دس اور گیارہ ستمبر کو خطے کے آٹھ اہم ممالک کی انٹیلی جنس ایجنسیز کے سربراہان کا اسلام آباد میں ملنا یقینا ایک کہیں زیادہ بڑی اور اہم خبر ہے۔

دو دن پر محیط اس طویل و تفصیلی ملاقات میں افغانستان میں امن و استحکام کے ساتھ ساتھ خطے میں دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ایک مشترکہ حکمت عملی بنانے کے اعتبار سے یہ نہایت اہم بیٹھک ثابت ہوئی۔

پاکستان کی انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) جس نے 40 سال سے افغانستان اور یقینا پاکستان میں سکیورٹی سے لے کر جہاد اور دہشت گردی کے نام پر خون کی ہولی کے دوران اپنے سمیت بہت سے ممالک اور عناصر کو بڑے قریب سے دیکھا۔ اس نے کچھ برس پہلے یہ سبق بھی سیکھا کہ یہ جنگ سب مل کر ہی جیت سکتے ہیں یہ خون کی ہولی سب مل کر ہی ختم کر سکتے ہیں اس کا عملی مظاہرہ ستمبر 10 اور 11 کو دیکھنے میں آیا۔

افغانستان میں طالبان نے جیسے ہی حکومت بنائی پاکستان اور خطے کے دیگر ممالک خاص طور پر جو افغانستان کے ہمسایہ ممالک ہیں انہوں نے سفارتی سطح پر غیرمعمولی طور پر متحرک ہونے کا مظاہرہ کیا۔ سب سے پہلے چھ ممالک جن کی سرحد افغانستان سے ملتی ہے یعنی چین، ایران، تاجکستان، پاکستان، ازبکستان اور ترکمنستان نے ایک ہمسایہ ممالک کا گروپ بنا لیا۔

اس گروپ کے پچھلے ایک ہفتے میں دو اہم اجلاس ہوئے جس میں یہ طے کیا گیا کہ معاشی، سکیورٹی اور افغانستان کے اندرونی حالات کے حوالے سے یہ ممالک مشترکہ حکمت عملی اپنائیں۔ ساتھ میں یہ ممالک افغانستان کو ایک عمومی مشترکہ پالیسی پیغام دیں۔

یہ ممالک دور اندیشی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ ان کا یقینا اقتصادی مقابلہ ہے، سکیورٹی کے معاملات میں ان کی پالیسی مختلف ہے لیکن افغانستان کی پچھلے 20 سال کی صورت حال دیکھ کر اور اس کے اس خطے پر منفی اثرات دیکھ کر تمام ملک یہ جان گئے ہیں کے ’پراکسی‘ جنگ لڑ کر جیت کسی کی نہیں ہوتی۔

اسی سبق کے تحت ناصرف ہمسایہ ممالک نے ایک اجتماعی حکمت عملی بنائی ہے جس کے تحت خطے میں اقتصادی ترقی، راہداری اور سیاسی مسائل کو مل کر حل کریں گے بلکہ اس کے لیے فوری طور پر چھ ہمسایہ ممالک کو منظم کر لیا ہے۔ اب وزرا خارجہ کی تیسری اہم ملاقات اگلے ماہ ایران میں ہوگی۔

باقاعدگی سے تمام ممالک کے افغانستان پر خاص مندوبین تقریبا ضرورت کے مطابق مشاورت کریں گے۔ اس کے علاوہ افغانستان میں چھ ممالک کے سفیر باقاعدگی سے ان معاملات پر جن پر ان کے کا اتفاق ہوا ہے کابل میں ہم آہنگی سے کام کریں گے۔ جو بھی مسائل درپیش ہوں گے خاص طور پر طالبان کی حکومت کے شروع کے دنوں میں اس پر یکجہتی سے افغانستان کی حکومت سے بات چیت کریں گے۔

افغانستان کے ہمسایہ ممالک نے سفارت کاری کا یقینا یہ ایک نیا طریقہ کار اپنایا ہے۔ یہ گزرے ہوئے دنوں کے آپس‏ ‏کے جھگڑوں، مقابلوں اور کسی حد تک دشمنی کے رویے، سب سے بالکل برعکس ہے۔ اگر سفارت کاری کے معاملات میں یہ ایک نئے دور کی کم از کم شروعات دکھائی دے رہی ہیں۔ جو اقدامات علاقے کی انٹیلی جنس ایجنسیاں اٹھا رہی ہیں وہ نہایت اہم ہیں۔ اس خطے کے ممالک کی آپس میں دوستی کے روابط اور تجارتی تعلقات بھی موجود ہیں لیکن دہشت گردی کی شروعات کے بعد ان تعلقات میں تناؤ رہا ہے۔ ان ممالک کے شہریوں، اقتصاد اور یقینا تجارت نے بہت نقصان اٹھایا ہے۔

دہشت گردی کی شروعات چونکہ افغانستان میں روسی مداخلت اور پھر امریکہ بشمول پاکستان کے بہت سے ممالک کی تیار کردہ بین الاقوامی جہاد کے نتیجے میں ہوئی اور افغانستان اس کا مرکز بنا تو یہ کوئی عجب معاملہ نہیں کہ اب دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑنے کا معاملہ بھی افغانستان کے حوالے سے خطے کے ملک اب مل کر اٹھا رہے ہیں۔

ستمبر کی 10 اور 11 کو آئی ایس آئی نے آٹھ ممالک کی انٹیلی جنس سربراہان کی دو روزہ میٹنگ بھی ایک انٹیلی جنس آپریشن کی طرح منعقد ہونے تک خفیہ ہی رہی۔ جب اجلاس شروع ہوا تو تب اس خبر کو سوشل میڈیا کے ذریعہ سے دنیا تک پہنچایا گیا۔ شاید یہ اپنی نوعیت کی پہلی میٹنگ تھی جس میں چین، روس، ایران، تاجکستان، ازبکستان اور پاکستان کے انٹیلی جنس ایجنسیز کے سربراہان نے شرکت کی۔ یہ آٹھ ممالک جن میں سے دو اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کے مستقل رکن ہیں اور بین الاقوامی فیصلوں میں اہم آواز اور ویٹو کا حق بھی رکھتے ہیں کے ساتھ ساتھ ان آٹھ ممالک کے تعلقات میں گاہے بگاہے سکیورٹی کے معاملات پر آپس میں کشیدگی کوئی راز کی بات نہیں۔

افغانستان اور دہشت گردی کے حوالے سے خاص طور پر روس، چین، ایران اور پاکستان میں اختلافات رہے ہیں۔ سب معاملات کو دیکھتے ہوئے اسلام آباد میں آٹھ انٹیلی جنس ایجنسی کا اس موقع پر امن اور استحکام کے لیے ایک مشترکہ حکمت عملی اپنانا یقینا ایک تاریخی اہمیت رکھتا ہے۔

ان آٹھ ممالک کو ایک مشترکہ پالیسی بنانے کے لیے دو اہم معاملات پر مشترکہ کام کرنے ہیں۔ پہلے یہ کہ تمام ممالک دہشت گردی میں ملوث گروہوں اور تنظیموں کی نشاندہی کریں۔ اور تمام ممالک ایک دوسرے کے دہشت گردوں کو دہشت گرد اور اپنا دشمن بھی سمجھیں۔ دوسرا معاملہ ان تمام ممالک کو مختلف دہشت گرد تنظیموں کے بارے میں خصوصا جو افغانستان میں موجود ہیں اپنا انٹیلی جنس مواد مشترکہ طور پر افغانستان کی موجودہ عبوری حکومت تک پہنچانا ہوگا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یہ کام کرنے کے لیے پہلے ہی ہمسایہ ممالک کی تنظیم نے جس میں روس بھی جلد ہی شاید شامل ہو جائے, مشترکہ طور پر کرنے کے لیے ان ممالک کے دارالخلافوں میں مندوب اور تمام وزرائے خارجہ کے درمیان مستقل بات چیت کے نیٹ ورک قائم کر لیے ہیں۔

ان تمام ایجنسیز کی میٹنگ، مقاصد اور طریقہ کار کے حوالے سے شاید اس خطے کے لیے انقلابی قدم ہے۔ اس سے ناصرف افغانستان کے حوالے سے دہشت گردی سے نمٹنے پر پیش رفت متوقع ہے بلکہ پورے خطے میں جن ریاستوں نے تاریخی طور پر دہشت گردی کو خارجہ پالیسی کا آلہ سمجھا شاید اس میں بھی اب تبدیلی کا امکان نظر آتا ہے۔

یہ خطے کی وہ ممالک ہیں جو علاقائی تجارت اور اقتصاد میں بہتری کا بظاہر عزم کیے ہوئے ہیں۔ اس خطے کے تمام ممالک اور یقینا افغانستان بھی چین کے ون بیلٹ ون روڈ کے تاریخی منصوبے اور اس سے جڑے  پاکستان کے سی پیک کا بھی حصہ ہیں یا آنے والے دنوں میں شامل ہوں گے۔

یہ بات واضح ہے کہ عمل اور استحکام کے بغیر کوئی بھی اس خطے کو پورے طریقے سے فائدہ نہیں پہنچا سکتے۔ معاملات کی شروعات افغانستان حکومت کی تبدیلی سے شروع ہوئی ہے لیکن دیکھنا یہ ہے کے کس حد تک یہ تبدیلی سب سے پہلے افغانستان اور پھر خطے کے لیے مثبت ثابت ہو سکتی ہے۔

جہاں خطے کے ممالک اس وقت استحکام اور امن کے لیے اوور ٹائم مشترکہ حکمت عملی بنانے میں مصروف ہیں سب سے بڑی ذمہ داری بہرحال طالبان کی عبوری حکومت کی ہے۔ جو ان کے دوست تھے اور شاید کسی حد تک لیکن خطے کے لیے دہشت گردی کا اور اب بھی سبب بن رہے ہیں، ان کی بابت طالبان کو اپنی پالیسی پر گہری نظرثانی کرنی ہوگی۔

اگر کل تک پاکستان پر دہشت گردی کی پشت پناہی کا عموما بے بنیاد الزام لگایا جا رہا تھا تو آج پاکستان جس دور اندیش اور مثبت سوچ کا اور پالیسی کا مظاہرہ کر رہا ہے اس سے کسی معروضی سوچ رکھنے والے کو انکار نہیں ہوگا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ