نیا پاکستان بنانے کے پرانے دعوے

ہماری داغ داغ تاریخ کے ہر موڑ پر ایک نیا پاکستان ہمیں گریباں سے پکڑے کھڑا ہے۔

خوش قسمتی سے اس ریاست میں ہر سیاسی، مذہبی اور عسکری رہنما نے اپنی آستین میں ایک نیا پاکستان پال رکھا ہے (اے ایف پی)

ہماری داغ داغ تاریخ کے ہر موڑ پر ایک نیا پاکستان ہمیں گریباں سے پکڑے کھڑا ہے۔ محمدعلی جناح کے پرانے پاکستان کی نشوونما تو ماڑی پور کے اسی فٹ پاتھ پر رک گئی تھی جہاں ان کی کھٹارا ایمبولینس کم پیٹرول یا خرابی کی بنا پر رک گئی تھی۔

وسیع النظری، معقولیت، رواداری اور جمہوریت جیسی بیوائیں آج بھی ماڑی پور کے اسی فٹ پاتھ پر بال کھولے بین کر رہی ہیں۔

پھر نئے نئے پاکستان بنانے کا لامتناہی سلسلہ شروع ہو گیا۔ خوش قسمتی سے اس ریاست میں ہر سیاسی، مذہبی اور عسکری رہنما نے اپنی آستین میں ایک نیا پاکستان پال رکھا ہے۔

جس کے تانگے میں سواریاں پوری ہوئیں، اسی کے دل میں انقلاب کی آتش شوق بھڑک اٹھی اور وہ ’شہنشاہِ جذبات‘ بن کر گھوڑے کو چابک دکھاتا ایک نئے پاکستان کی انجانی شاہراہ پر رواں ہو گیا۔ گویا جسے بھی موقع ملا، اس نے بساط بھر نیا پاکستان بنایا۔

1948 میں قائداعظم کی رحلت کے بعد گلیاں ویران ہوئیں تو شخصی و طبقاتی مطلق العنانیت کی راہ ہموار کرنے کی خاطر قرارداد مقاصد تخلیق فرما کر ایک یکسر مختلف اور نئے پاکستان کا سنگ بنیاد رکھ دیا گیا۔ 1951 میں لیاقت علی خان کے قتل کے بعد گورنر جنرل غلام محمد ہاتھ، پاؤں اور زبان سے معذور ہونے کے باوجود اپنا نیا پاکستان بنانے پر مُصر رہے۔

اس کارِ خیر کی خاطر انہوں نے 1954 میں اسمبلی توڑی تو مولوی تمیز الدین کی درخواست پر عالی قدر جسٹس منیر نے نظریہ ضرورت تخلیق فرما کر ایک اور نئے پاکستان کی راہیں کشادہ کر دیں۔ 1956 کے پہلے آئین کے تحت اسکندر مرزا ملک کے صدر بنے تو انہوں نے کمانڈر انچیف ایوب خان کو کابینہ میں شامل کر کے قوم کو پھر ایک نئے پاکستان کی طرف ہانک لیا۔

پھر27 اکتوبر 1958 کو ملک نے انقلاب آفریں کروٹ لی اور ایک انوکھا نیا پاکستان وجود میں آیا۔ جنرل ایوب خان نے اس پاکستان کے گیسو سنوارنے شروع کیے۔ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت نے نظریۂ ضرورت کو مشعل راہ بناتے ہوئے ان کا نیا پاکستان جائز قرار دیا۔

1962 کا صدارتی آئین بھی نیا پاکستان بنانے کی کاوش تھی۔ 1964 میں جس دن ایوب خان نے صدارتی انتخاب میں مادر ملت کو شکست دی، اس دن بھی ایک اور نیا پاکستان وجود میں آیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پھر کشمیر کے مردہ گھوڑے میں جان ڈالنے کی خاطر ہمارے جذبۂ جنوں کے شاہکار آپریشن جبرالٹر کے نتیجے میں 1965 کی پاک بھارت جنگ ہوئی۔ 17 دنوں پر محیط اس جنگ سے ملک کی معیشت تباہ ہوئی، بیرونی امداد بند ہوئی اور ہر طرح کی پابندیاں لگیں۔ یوں ایک بھوکے ننگے نئے پاکستان کی راہ ہموار ہوئی۔

 پھر1970 کے انتخابات ’مطلوبہ نتائج‘ نہ دے سکے تو ایک اور پاکستان سر اٹھانے لگا۔

مشرقی پاکستان کے عوام کا احساس محرومی دور کرنے کی خاطر یحییٰ خان نے آپریشن بنگال کا آغاز کیا۔ بھارت نے مکتی باہنی کے سر پر ہاتھ رکھا تو ہم نے البدر اور الشمس تخلیق کر کے ان کے سر پر اپنا دست شفقت رکھ دیا۔ نتیجتاً پاک بھارت جنگ ہوئی اور16 دسمبر 1971 کو دو نئے پاکستان دنیا کے نقشے پر ابھرے۔

گندے مندے بنگالی الگ ہو گئے اور نئے نئے تجربات کرنے کے لیے مغربی پاکستان کے چاروں صوبوں پر مشتمل ایک مختصر مگر صاف ستھرا نیا پاکستان ہمارے ہاتھ لگ گیا۔

ذوالفقارعلی بھٹونے اس نئے پاکستان کی باگ ڈور سنبھالی تو انہوں نے جمہوری کلچر کو فروغ دینے کی کوشش کی اور قوم کو 1973 کا پہلا متفقہ آئین دیا۔ البتہ اس پاکستان میں کچھ قباحتیں بھی در آئیں۔

ایٹمی پروگرام کی بنیاد، سٹیل ملز کا  قیام، ٹینک بنانے کی واہ فیکٹری، کامرہ کمپلیکس، ایچ ایم فیکٹری، اسلامی سربراہی کانفرنس اورسب سے بڑھ کر یہ کہ عوام میں بڑھتا سیاسی شعور اور بھٹو کی مقبولیت۔

چنانچہ 1977 کے انتخابات کے نتائج کے خلاف پارساؤں نے امریکی سپانسرڈ تحریک نظام مصطفیٰ چلائی، جس کے نتیجے میں پانچ جولائی 1977 کی حبس زدہ صبح جب اس ملک کے باسی نیند سے بیدار ہوئے تو ایک نئے پاکستان کا خونخوار شیر نوکیلے پنجے اٹھائے اور پورا جبڑا کھولے غرا رہا تھا۔

عدالت عظمیٰ نے 1973 کا آئین روندنے کے ان کے اقدام کو خلعتِ جواز عطا فرمائی اور 90 روز کے لیے آنے والے ضیاء الحق بزورِ بازو تاحیات قوم کے مائی باپ بن بیٹھے۔ 80 کاعشرہ غرق کرنے کا سہر ان کے سر ہے، جہاں سے ایک وکھری ٹائپ کے جہادی، تنگ نظر، انتہاپسند، فرقہ پرست، علم دشمن، جمہوریت مخالف اور بم دھماکوں، کلاشنکوف اور ہیروئین کلچر کے حامل نئے پاکستان کو تاریخ نے اپنے دامن میں محفوظ کر لیا۔

اگر اس پاکستان کی تعلیمات سے وجود میں آنے والے طالبان اور تحریک لبیک کے بزرگوں کو آج نہ روکا جاتا تو انہوں نے بھی اپنے اپنے نئے پاکستان بنا ہی ڈالنے تھے۔ چار اپریل 1979 کو بھی چشمِ فلک نے ایک نئے پاکستان کا تماشا کیا، جب منتخب وزیراعظم کو پھانسی دی گئی۔

مرد مومن کی شہادت کے بعد پرانے پاکستان کی طرف لوٹنے کی راہ قدرے ہموارہوئی۔ 1988 کے انتخابات کے بعد بے نظیر بھٹونے پہلی خاتون وزیراعظم کا حلف اٹھایا تو ایک معتبر پاکستان کے خدوخال واضح ہونا شروع ہوئے، مگر طاقت کے مراکز اور مردحق کے مرید غلام اسحاق خان کا دل اس پاکستان سے جلد ہی اچاٹ ہو گیا۔ 18 ماہ بعد اس بابے نے اپنے مرشد کی بھٹی میں تیارکردہ 58/2-Bکا تیز کلہاڑا اسمبلی پر چلا کر دنیا کوایک نیا پاکستان دکھا دیا۔

1990 کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کے مقابلے میں آئی جے آئی کو کامیاب کروا کر ایک اور نیا پاکستان بنانے کی دردمندانہ کوشش کی گئی۔ تاہم منتخب یانیم منتخب ایوانوں کا خون بابے اسحاق کے منہ لگ چکاتھا، سونوازشریف کی حکومت بھی اس نے اسی خوش اسلوبی سے ختم کی۔

سپریم کورٹ کی طرف سے اسمبلی کی بحالی کے فیصلے کے بعد صدر اور وزیراعظم میں کشیدگی برقرار رہی تو جنرل وحید کاکڑ نے دونوں سے استعفیٰ لے لیا، البتہ انہوں نے اپنے حصے کا نیا پاکستان بنانے سے گریزکیا۔

1993 کے انتخابات کے نتیجے میں بننے والی بےنظیرحکومت کا آئینی قلع قمع کرنے کی سعادت فاروق لغاری کے حصے میں آئی۔ 1997 کے انتخابات میں نواز شریف دوبارہ وزیراعظم بنے مگرجمہوریت کا وقفہ طویل ہو چکا تھا، لہٰذا نیا پاکستان بنانے کا فریضہ پرویز مشرف نے انجام دیا، جسے عدلیہ نے جائز قرار دیا۔

2002 کے انتخابات کے بعد دنیا نے لیڈرآف دی ہاؤس شوکت عزیز کی صورت پارلیمانی جمہوریت کا انوکھا مشاہدہ کیا، جس کا ملک بھر میں ایک بھی ذاتی ووٹ نہ تھا۔ دسمبر2007 میں ایک دلہن تابوت کی ڈولی میں راولپنڈی سے گڑھی خدا بخش کے قبرستان کے لیے روانہ ہوئی تو ایک ایسا پاکستان وجود میں آیا، جسے دیکھ آسمان بھی روپڑا۔

2008 کے انتخابات کے بعد آصف زرداری حکومت نے اپنی مدت کوہ پیمائی کی طرح پوری کی۔ اس دوران جج بحال ہوئے اور افتخار محمد چوہدری نے دوبارہ چیف جسٹس کا منصب سنبھالا تو ایک اور نیا پاکستان نمودار ہوا، جس میں ’دو بوتل شراب‘ سے لے کر میمو گیٹ سکینڈل تک اندھادھند انصاف ہونے لگا۔

تاہم انصاف اتنا بھی اندھا نہیں ہوا تھا کہ ارسلان افتخاروں پرہاتھ ڈالتا۔ 2013 کے انتخابات میں نوازشریف پھر کامیاب ہوئے مگرایک سال بعد ہی انقلابیوں کو نیا پاکستان بنانے کی خارش شروع ہو گئی۔

غیبی طاقتیں انقلابیوں کے ساتھ تھیں۔ انصاف کا جادو ایک مرتبہ پھر سر چڑھ کر بولا اور نوازشریف، یوسف رضا گیلانی سے بھی زیادہ عبرت ناک انجام سے دوچار ہوئے۔

اب 2018 کے مشکوک سے انتخابات کے ذریعے وجود میں آنے والی حکومت کا نیا پاکستان اپنے جلوے دکھا رہا ہے، جس میں معیشت کی زبوں حالی، بدانتظامی، نااہلی، لاقانونیت اور ڈالر اور مہنگائی کی بلند ترین اڑان نے عوم کا جینا دوبھر کر رکھا ہے۔

اب تک جتنے بھی نئے نئے پاکستان وجود میں لائے گئے، ان کی مشترکہ خصوصیت یہ تھی کہ وہ سماجی انصاف، عوامی حاکمیت، جدید تعلیم اور بنیادی سہولتوں اورحقوق کے خرخشوں سے پاک پاکستان تھے۔

غیراخلاقی سہی مگر لطیفہ حسب حال ہے کہ بچے نے اپنی ماں سے پوچھا، ’میں اس دنیا میں کیسے آیا؟‘ ماں جواب دیا کہ ایک فرشتہ تمہیں یہاں چھوڑ گیا تھا۔ بچے نے اپنے چھوٹے بھائی کے متعلق پوچھا توماں نے بتایا کہ ایک صبح ہم سو کر اٹھے تو یہ برآمدے میں لیٹا انگوٹھا چوس رہا تھا۔

بچے نے اپنی ننھی بہن کی بابت بھی یہی استفسار کیا تو ماں بولی کہ اسے تو ایک پری ہمارے گھر چھوڑ گئی تھی۔

21 ویں صدی کے بچے نے کچھ سوچتے ہوئے کہا: ’اس کامطلب ہے کہ ہم میں سے کوئی بھی فطری طریقے سے دنیا میں نہیں آیا۔‘

ہمارے اربابِ اختیار اور رہنماؤں کو بھی نیا پاکستان بنانے کا بڑا شوق ہے مگر اس کے لیے انہوں نے کبھی فطری طریقہ اختیار نہیں کیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

انڈپینڈنٹ اردو کسی بھی موضوع پر مختلف آرا کا خیرمقدم کرتا ہے۔ ہم آپ سے بھی سنا چاہیں گے کہ آپ اس مضمون یا دیگر کے بارے میں کیا سمجھتے ہیں۔ ہماری ای میل ہے:

[email protected]

ہمیں ٹویٹر پر یہاں فالو کریں:

@IndyUrdu

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ