زیتون بانو: پشتو ادب کی ’خاتون اول‘ جو آخری دنوں تک لکھتی رہیں

ادب کی دنیا میں’مور بی بی‘ کہلانے والی خیبر پختونخوا کی معروف علمی شخصیت زیتون بانو 83 سال کی عمر میں منگل کی شب انتقال کرگئیں۔

 زیتون بانو نے قریباً 100 افسانےاور کئی کتابیں لکھی ہیں (تصویر: اہل خانہ)

ادب کی دنیا میں’مور بی بی‘ کہلانے والی خیبر پختونخوا کی معروف علمی شخصیت زیتون بانو 83 سال کی عمر میں منگل کی شب انتقال کر گئیں۔

زیتون بانو عرصہ دراز سے ذیابیطس، بلڈ پریشر اور گردوں کے عارضے میں مبتلا تھیں، تاہم وہ اپنی زندگی کے آخری ایام تک لکھتی رہیں اور اپنا آخری افسانہ انتقال سے صرف 10 دن پہلے مکمل کیا۔

ان کے قریبی دوستوں کے مطابق آخری افسانہ مکمل کرنے کے بعد زیتون بانو کی جسمانی پیچیدگیوں میں مزید اضافہ ہوا، یہاں تک کہ انہوں نے کھانا پینا بند کردیا اور بالآخر 14 ستمبر کی شام وہ اس دنیا سے رحلت فرما گئیں۔

زیتون بانو کی وفات پر ان کے دوست احباب خصوصاً ادب کی دنیا سے وابستہ افراد نے سوشل میڈیا کے مختلف فورمز پر گہرے رنج وغم کا اظہار کیا اور ان کی موت کو خیبر پختونخوا اور پشتو ادب کا بہت بڑا نقصان قرار دیا۔

زیتون بانو کے قریبی جاننے والوں میں سے ایک، ادیبہ اور’د خویندو لشکر‘ تنظیم کی صدر کلثوم زیب نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ زیتون بانو جیسی شخصیات صدیوں میں پیدا ہوتی ہیں۔

’وہ ایک زیرک، قابل اور بہادر خاتون تھیں۔ انہوں نے منٹو کی طرح ایسے موضوعات پر اس زمانے میں لکھا جب پشتون معاشرے میں خواتین کا صرف لکھنا بھی معیوب سمجھا جاتا تھا۔ یہ ایک خاتون کی طرف سے بہت بڑی جرات تھی۔‘

انہوں نے کہا کہ زیتون بانو ’د خویندو لشکر‘ کی مشاورتی کمیٹی کی چیئرپرسن بھی تھیں، جس کی تقریبات اور مجلسوں میں وہ کچھ عرصہ قبل تک کافی مستعدی سے حصہ لیتی رہی تھیں۔

انہوں نے کہا: ’وفات سے 10 دن قبل میں نے انہیں کال کی تو انہوں نے اپنے ایک افسانے کی تکمیل کی بات کی کہ اس کو چھاپنا ہے۔ میں نے بہت جلد ملاقات کی یقین دہانی کروائی لیکن اس کے کچھ دنوں بعد ان کی بہو نے فون پر روتے ہوئے اطلاع دی کہ مور بی بی نے بولنا اور کھانا پینا بند کر دیا ہے۔‘

تعلیم، ملازمت اور ادبی خدمات

زیتون بانو پشاور کے علاقے سفید ڈھیری کے ایک ادبی اور مذہبی گھرانے میں 1938 میں پیدا ہوئیں۔

وہ مشہور پشتو ڈراما اداکار سید ممتاز علی شاہ کی کزن تھیں، جبکہ ان کے شوہر تاج سعید ایک بہت اچھے لکھاری اور ریڈیو پاکستان کے ڈائریکٹر تھے۔ ان کے والد پیر سید سلطان محمود شاہ بھی ادیب تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے بیٹی کی تعلیم وتربیت پر خصوصی توجہ دی۔

زیتون بانو نے ایم اے تک تعلیم حاصل کی تھی اور خود انہوں نے بھی پہلے پہل ریڈیو پاکستان کی ملازمت اختیار کی تھی لیکن بعد ازاں انہوں نے ورسک روڈ پر واقع پشاور پبلک سکول میں ہیڈ مسٹرس کی ملازمت اختیار کی اور ریٹائرمنٹ تک اسی عہدے پر فائز رہیں۔

ممتاز ماہر تعلیم و دانشور خادم حسین نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ زیتون بانو نے پشتون سماج میں عورتوں کی کردار نگاری کی بھرپور عکاسی کی۔

’مور بی بی نے پشتونوں کے دیہاتی اقدار کے اظہار کے لیے بے مثال کردار تخلیق کیے ہیں۔ انہوں نے انسانی احساسات کے اظہار کے لیے لافانی پلاٹ اور کہانیاں ترتیب دیں اور پشتو و اردو زبانوں میں افسانہ نگاری کے نئے زاویے دریافت کیے۔‘

زیتون بی بی نے تقریباً 100 افسانے اور کئی کتابیں لکھی ہیں۔ ان کی تین کتابوں ’برگ آرزو‘،’شیشم کا پتہ‘ اور ’وقت کی دہلیز‘ پر انہیں اباسین آرٹس کونسل سے انعام اور ایوارڈ بھی ملا تھا۔

ادیبہ اور شاعرہ کلثوم زیب کہتی ہیں: ’مور بی بی ڈراما نگار، افسانہ نگار، ناول نگار، صداکارہ، اداکارہ، پروڈیوسر اور اناؤنسر رہ چکی ہیں۔ اپنے ہی ایک ڈرامے میں خود مرکزی اداکارہ کے طور پر بھی کام کیا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے بتایا: ’وہ برصغیر کی پہلی ایسی پشتون ادیبہ ہیں جن پر نہ صرف بھارت اور دوسرے ممالک میں مقالے لکھے گئے بلکہ کئی زبانوں میں ان کے کام کا ترجمہ بھی ہوا۔ ان پر پاکستان کے نامور پشتو اور اردو زبانوں کے شعرا اور ادیبوں نے کافی کچھ لکھا ہے۔ ایوب صابر نے تو انہیں پشتو ادب کی ’خاتون اول‘ کہا۔‘

زیتون بانو کے پشتو افسانوں کا پہلا مجموعہ ’ہندارہ‘ 1958 میں ان کے زمانہ طالب علمی میں جبکہ ان کا آخری مجموعہ ’د شگو مزل‘ کے نام سے 2017 میں شائع ہوا۔ ان کے افسانے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے بی اے اور پشاور یونیورسٹی میں پشتو ایم اے کے نصاب میں بھی شامل ہیں۔

 1986 میں ان کے افسانے ’موم کے آنسو‘ کا ترجمہ جرمن زبان میں ہوا۔ جب کہ افسانہ ’دلشاد‘ بین الاقوامی سطح پر منظور شدہ سات زبانوں میں بھی ترجمہ ہوا۔

ان کے کام کے صلے میں انہیں 1994 میں صدارتی ایوارڈ سے نوازا گیا۔ 1973 میں انہیں پاکستان ٹیلی وژن نے سرحد ایوارڈ سے نوازا۔

انہیں ریڈیو پاکستان میں بہترین صداکاری کا سلور جوبلی ایوارڈ اور اباسین آرٹس کونسل کی جانب سے حسن کارکردگی ایوارڈ بھی ملا تھا۔

ان کے مشہور افسانے ’کخے‘ اور ’چلمچی‘ میں انہوں نے پشتون معاشرے کے ان کرداروں کو بے نقاب کرنے کی کوشش کی ہے، جن کے خلاف  بولنےکی کوئی جرات نہیں کرتا۔

سماجی کارکن ثنا اعجاز نے ان کی وفات پر انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ زیتون بانو ایک قدآور شخصیت ہونے کے باوجود ہر کسی سے جھک کر ملتی تھیں۔ ’وہ ایک ملنسار، بردبار اور شفیق خاتون تھیں۔ پہلی بار جب انہیں نزدیک سے جاننے کا موقع ملا تو ان کے اعلیٰ اوصاف اور شفقت سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکی۔‘

زیتون بانو بیوہ کی زندگی بسر کر رہی تھیں اور ان کے دو بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں۔ وہ اپنے عہد کی آخری پشتو ادیبہ اور شاعرہ تھیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی ادب