افغان طالبان کے سب سے سینیئر رہنما ملا ہبت اللہ اخوندزادہ اور قائم مقام نائب وزیر اعظم ملا عبدالغنی برادر بہت دنوں سے منظرعام سے غائب تھے، جس کے بعد اس حوالے سے قیاس آرائیاں بڑھتی جارہی تھیں کہ یہ دونوں کہاں ہیں، تاہم اب ملا برادر کے ویڈیو انٹرویو نے کم از کم ان کے بارے میں پھیلی افواہوں کو تو ختم کردیا ہے، لیکن ملا ہبت اللہ تاحال سامنے نہیں آئے۔
طالبان کے شریک بانی ملا ہبت اللہ اخوندزادہ جنہیں ’امیرالمومنین‘ بھی کہا جاتا ہے اور ان کے پاس طالبان حکومت کو چلانے کی ذمہ داری ہے، 15 اگست سے منظر سے غائب ہیں۔ یہ وہ دن ہے جب طالبان نے اقتدار سنبھالا۔
اس کے بعد بننے والے پہلے نائب وزیر اعظم ملا عبدالغنی برادر جن کا نام ان افراد کی فہرست میں شامل ہے جن پر اقوام متحدہ نے پابندیاں لگا رکھی ہیں، ان اطلاعات کے بعد نہیں دیکھے گئے تھے، جن میں کہا گیا تھا کہ وہ طالبان کے حریف دھڑوں کے ساتھ فائرنگ کے تبادلے میں زخمی ہو گئے۔
’بے بنیاد پروپیگینڈا‘
طالبان حکام نے ان قیاس آرائیوں کو ’بے بنیاد پروپیگینڈا‘ قرار دے کر دبانے کی کوشش کی اور فوری طور پر ایک ویڈیو جاری کی، جس میں بردار مبینہ طور پر ایک اجلاس میں شریک تھے۔ اس کے علاوہ نائب وزیر اعظم کے ایک معاون کا ہاتھ سے تحریر کردہ خط بھی جاری کیا گیا ہے۔
طالبان نے ایک آڈیو پیغام بھی جاری کیا ہے جو مبینہ طور پر ملا برادر کی ریکارڈنگ ہے۔ اس کے علاوہ ان کی ایک پرانی تصویر بھی جاری کی گئی ہے۔
اپنے دو رہنماؤں کی غیر حاضری کے حوالے سے قیاس آرائیوں کے خاتمے کے لیے طالبان کا فوری طور پر اٹھایا جانے والا قدم طالبان کے بانی ملا عمر کی موت کو چھپانے کے عمل کے ساتھ موازنے کا سبب بن گیا ہے۔ ماضی میں طالبان ملا عمر کی موت کے بعد دو سال تک ان کے نام پر آڈیو پیغامات اور تحریری بیانات جاری کرتے رہے، لیکن بالآخر انہوں نے تصدیق کر دی تھی کہ وہ چل بسے ہیں۔
طالبان ترجمان سہیل شاہین نے ٹوئٹر پر کہا تھا کہ ’امارت اسلامی افغانستان کے نائب وزیر اعظم ملا بردار نے ایک ویڈیو پیغام میں ان تمام دعوؤں کو مسترد کر دیا ہے کہ وہ جھڑپ میں زخمی ہوئے یا مارے گئے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ سب جھوٹ اور مکمل طور پر بے بنیاد ہے۔‘
دوسری جانب طالبان کی جاری کردہ فوٹیج میں جنوبی شہر قندھار میں ہونے والے ایک اجلاس میں ملا برادر کو نمایاں طور پر دیکھا جا سکتا ہے، لیکن ان ویڈیوز میں کچھ ایسا دکھائی نہیں دیتا جس سے وقت یا تاریخ کی تصدیق ہو سکے کہ یہ کب ریکارڈ کی گئیں۔
ملا برادر کے آڈیو پیغام کے معاملے میں سوالات پیدا ہوتے ہیں کیونکہ یہ اس وقت سامنے آیا ہے جب طالبان چھپے ہوئے نہیں بلکہ افغانستان سرکاری طور پر ان کے کنٹرول میں ہے۔ برادر طالبان کے اہم عہدے دار بھی ہیں جنہوں نے دوحہ میں امریکہ کے ساتھ امن مذاکرات کی نگرانی کی۔
آڈیو کلپ، جس کی آواز کے بارے میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ وہ برادر کی ہے، میں کہا گیا کہ ’ذرائع ابلاغ میں میری موت کی خبر ہے۔ میں گذشتہ کچھ راتوں سے سفر میں ہوں۔ میں اس وقت جہاں کہیں بھی ہوں، ہم سب ٹھیک ہیں، میرے تمام بھائی اور دوست۔‘
’میڈیا ہمیشہ جعلی پروپیگینڈا کرتا ہے، اس لیے میں ان تمام جھوٹی باتوں کو دلیری کے ساتھ مسترد کرتا ہوں اور میں آپ کو سو فیصد تصدیق کرتا ہوں کہ کوئی جھگڑا نہیں ہے اور ہمیں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔‘
ان قیاس آرائیوں کو نیوز ادارے ’پنچ شیر آبزرور‘ کی ٹوئٹر پر اس رپورٹ سے تقویت ملی ہے کہ برادر کابل میں حقانی نیٹ ورک کے لوگوں کے ساتھ پرتشدد جھڑپ میں زخمی ہو چکے ہیں۔ برادر اور حقانی نیٹ ورک کے سربراہ سراج الدین حقانی کے حامیوں کے درمیان جھڑپیں مبینہ طور پر اس داخلی مخالفت کے نتیجے میں ہوئیں جو گذشتہ ہفتے نئی کابینہ میں اہم عہدوں کے اعلان کے بعد پیدا ہوئی۔
امریکہ نے حقانی نیٹ ورک کو غیر ملکی دہشت گرد تنظیم (ایف ٹی او) قرار دے رکھا ہے جبکہ اس کے سربراہ سراج الدین حقانی کو افغانستان کے قائم مقام وزیر داخلہ کا عہدہ دے دیا گیا ہے، حالانکہ امریکی فیڈرل بیورو آف انویسٹی گیشن (ایف بی آئی) نے ان کے سر کی قیمت ایک کروڑ ڈالر مقرر کی ہوئی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ملا برادر جو ’امیرالمومنین‘ کے تین نائبین میں سے ایک تھے اور ان کے بارے میں اطلاعات ہیں کہ وہ اگلے وزیر اعظم ہوں گے، انہیں کوئی بڑی وزارت نہیں دی گئی۔ ملا بردار اس وزارتی وفد میں بھی شامل نہیں تھے جس نے اتوار کو قطر کے وزیر خارجہ شیخ محمد بن عبدالرحمٰن الثانی سے ملاقات کی۔
تازہ ویڈیو
لیکن اب ملا برادر نے ملی ریڈیو ٹیلی ویژن افغانستان کو دیے گئے حالیہ انٹرویو میں طالبان رہنماؤں سے اختلافات اور زخمی ہونے کی خبروں کی تردید کردی ہے۔
انٹرویو میں ملا برادر نے اپنی خیریت کی اطلاع دیتے ہوئے کہا کہ وہ ہم کابل سے باہر سفر میں تھے، جہاں سے ذرائع ابلاغ تک رسائی ممکن نہیں تھی۔
انہوں نے مزید کہا: ’ہمیں معلوم نہیں تھا کہ قطر سے وزیر خارجہ افغانستان کے دورے پر آرہے ہیں، اگر معلوم ہوتا تو ہم اپنا سفر معطل کرتے، ہم سفر میں تھے، اس لیے ملاقات نہیں ہوسکی۔ یہ ممکن نہیں تھا کہ سفر سے واپس لوٹ کر وزیر خارجہ سے ملاقات کرتے، اگر پہلے معلوم ہوجاتا تو ہم دیگر ساتھیوں سمیت وزیر خارجہ سے ملاقات کرتے۔‘
کیا ہبت اللہ زندہ ہیں؟
خود مختار پالیسی تحقیق اور تجزیہ کرنے والی تنظیم اینالسٹس نیٹ ورک نے کہا ہے کہ طالبان کے ’امیر الومنین‘ ملا ہبت اللہ اخوندزادہ کی سرکاری تقریبات میں غیر حاضری سے ظاہر ہوتا کہ ہو سکتا ہے کہ ان کی موت واقع ہو چکی ہو۔ تنظیم کا کہنا ہے کہ طالبان کے بانی ملا عمر جو ایک آنکھ سے محروم تھے، نے بھی صوتی بیانات جاری کیے اور انٹرویوز دیے، اگرچہ ان کی ویڈیو ریکارڈنگ نہیں کی گئی اور نہ ہی تصویر بنائی گئی۔
’اس لیے یہ عجیب ہوگا کہ اس وقت جبکہ تحریک اقتدار میں ہے، ہبت اللہ زندہ ہوں لیکن اس کے باوجود الگ تھلگ رہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ اس وقت وہ علامتی رہنما کے طور پر کام کر رہے ہیں جو سامنے آئے اور بات کیے بغیر طالبان کو متحد رکھ سکتے ہیں۔ (ملا عمر کے معاملے میں بھی ایسی ہی صورت حال تھی جنہیں ان کی موت کے دو سال بعد بھی ’امیر المومنین‘ کہا جاتا رہا تھا۔)
برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کے مطابق طالبان اعتراف کر چکے ہیں کہ انہوں نے ملا عمر کی موت کو دو سال سے زیادہ عرصے تک چھپائے رکھا جبکہ ان کے نام سے سرکاری بیانات جاری کیے جاتے رہے۔
بیمار رہنے کے بعد ملا عمر 23 اپریل 2013 کو پاکستان میں وفات پا گئے تھے لیکن ان کے نام سے 2015 تک بیانات جاری کیے جاتے رہے۔ طالبان کا کہنا ہے کہ ملا عمر کی موت کی خبر کو اس لیے چھپایا گیا کیونکہ توقع کی جا رہی تھی کہ 2014 افغانستان میں سرگرم غیر ملکی فوجیوں کی موجودگی کا آخری سال ہے۔