پاکستان کا ’لوٹا‘ بھارت میں ’آیا رام، گیا رام‘ کہلاتا ہے

نہ صرف لوٹا، بلکہ بھارتی سیاسی کلچر میں ’چھانگا مانگا سیاست‘ کا رواج بھی عام ہے، البتہ وہاں اس کا نام الگ ہے۔

 19 جولائی کو دہلی میں پارلیمان کے باہر میڈیا کے نمائندے وزیر اعظم کی آمد کا انتظار کر رہے ہیں  (اے ایف پی)

سیاسی بھگوڑے جنہیں پاکستان میں سیاسی لوٹے کہا جاتا ہے، وہ بھارت میں ’آیا رام، گیا رام‘ کی اصطلاح سے جانے جاتے ہیں۔

ملک الگ الگ سہی، سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے کا رواج بھارت اور پاکستان دونوں میں عام سی بات ہے۔ ان لوگوں کا نظریات و وفاداری سے کچھ لینا دینا نہیں ہوتا۔ انہیں اگر کچھ عزیز ہوتا ہے تو وہ ہے ذاتی مفاد۔

لیکن بھارت میں ’آیا رام گیا رام‘ کی اصطلاح لوٹوں سے کیسے منسوب ہوگئی، اس کی کہانی بڑی دلچسپ ہے۔

1947 کے بعد 1967 تک بھارت میں مرکز کے ساتھ ریاستوں میں بھی انڈین نیشنل کانگریس کی حکومت ہوتی تھی۔ 1967 میں پہلی بار کانگریس کے خلاف آواز اٹھنا شروع ہوئی تھی، جب مختلف ریاستوں میں علاقائی سیاسی جماعتیں جنم لے رہیں تھیں۔ 

1967 میں ہریانہ اسمبلی کے الیکشن میں ’گیا لال‘ نامی شخص آزاد جیت کر آیا۔ یہ شخص پورے بھارت میں پورے میڈیا کی زینت اس وقت بنا جب اس نے 15 دنوں میں چار دفعہ سیاسی جماعتیں تبدیل کرنے کا عالمی ریکارڈ قائم کیا۔

پہلے اس شخص نے انڈین نیشنل کانگریس میں شمولیت اختیار کی اور پھر چھوڑ کر یونائٹڈ فرنٹ نامی جماعت جوائن کرلی۔ 

یونائٹیڈ فرنٹ کو خیر باد کہتے ہوئے وہ دوبارہ کانگریس میں آیا۔ کانگریس لیڈران نے ہریانہ کے صدر مقام چندی گڑھ میں پریس کانفرنس کے دوران بتایا کہ گیا لال جو کانگریس چھوڑ گئے تھے دوبارہ کانگریس میں آ گئے ہیں۔ یہاں سے اس کا نام ’آیا رام‘ پڑا کہ گیا لال جو چھوڑ گئے تھے وہ آ گئے ہیں۔

اس کے سات گھنٹے بعد ہی دوسری مرتبہ کانگریس چھوڑ کر انہوں نے دوبارہ یونائٹیڈ فرنٹ میں شمولیت اختیار کی۔ یونائیٹڈ فرنٹ میں شرکت اور کانگریس چھوڑنے پر اس کا نام گیا رام مشہور ہو گیا تھا۔ 

اس واقعے کے بعد سیاسی بھگوڑوں کے لیے بھارت میں ’آیا رام، گیا رام‘ کی اصطلاح متعارف ہوئی۔ 

سیاسی بھگوڑوں کو پاکستان میں لوٹے کہا جاتا ہے۔ لوٹا وہ برتن ہوتا ہے جو واش روم میں استعمال کیا جاتا ہے۔ ان لوگوں کے لیے اس اصطلاح کا ایک مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ جس طرح لوٹوں کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی اور استعمال کرنے کے بعد انہیں پھینک دیا جاتا ہے، یہی مثال ان لوگوں کی بھی ہے۔ 

ہارس ٹریڈنگ اور سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے کے حوالے سے بھارت اور پاکستان دونوں ملکوں میں اینٹی ڈیفیکشن کے قوانین تو موجود ہیں لیکن بدقسمتی سے دونوں ممالک میں یہ قوانین پارلیمان کے اندر سیاسی وفاداریوں کی بات کرتے ہیں۔ پارلیمان کے باہر یہ قوانین سست روی کا شکار ہیں۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پارلیمان کے اندر بھی ان قوانین میں بہت ساری پیچیدگیاں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آیا رام گیا رام اور سیاسی لوٹے موج مستی کاٹتے ہیں۔ 

بھارت میں اینٹی ڈیفیکشن کا قانون 1985 میں راجیو گاندھی کی حکومت نے منظور کروایا۔ اس ترمیم کے تحت آئین ہند میں پورا ایک شیڈول ایڈ کیا گیا جس کو دسواں شیڈول کہا جاتا ہے۔ گو کہ 1967 میں آیا رام گیا رام کے واقعے کے بعد ہی حکومتی سطح پر یہ کوششیں جاری ہو گئی تھیں۔ اس دوران بھارت میں غیر یقینی صورت حال اور ایمرجنسی وغیرہ کی وجہ سے 18 سال لگ گئے۔ 

اسی طرح پاکستان میں بھی بھارت کی طرح اصل آئین میں اینٹی ڈیفیکشن کا قانون موجود نہیں تھا۔ پاکستان میں یہ قانون 1997 میں نواز شریف کی حکومت نے چودھویں آئینی ترامیمی کے ذریعے منظور کروایا۔ 

پاکستان میں ایک تاثر یہ بھی عام ہے کہ یہ موسمی لوٹے طاقتور اسٹیبلشمنٹ کے اشاروں پر چلتے ہیں، جب ضرورت پڑتی ہے ان کو استعمال کرکے جوڑ توڑ شروع کر دیا جاتا ہے۔ 

آیا رام گیا رام یا سیاسی لوٹے ہی نہیں، دونوں ملکوں کے سیاسی و انتخابی کلچر میں ایک اور چیز بھی مشترک ہے۔ پاکستان میں اسے ’چھانگا مانگا سیاست‘ اور بھارت میں اسے ’ریزورٹ سیاست‘(Resort politics)  کہا جاتا ہے۔ اس میں ہوتا یہ ہے کہ جن ارکانِ پارلیمان کے بارے میں شبہ ہوتا ہے کہ وہ پارٹی چھوڑ کر کسی اور جماعت میں شامل ہو جائیں گے انہیں کسی دور افتادہ ریزورٹ میں منتقل کر دیتے ہیں تا کہ کوئی ان پر دباؤ نہ ڈال سکے۔ اس کی حالیہ مثالیں اتراکھنڈ 2016، تامل ناڈو 2017، کرناٹک 2019 اور 2020 میں مدھیہ پردیش میں دیکھنے کو ملیں۔

قارئین کو ریزوٹ پولیٹکس کی گتھی آسان الفاظ میں سمجھانے کے لیے اوپر دی گئی مثالوں میں سے ایک پر روشنی ڈالتا ہوں۔ 2020 میں مدھیہ پردیش کے 22 ایم۔ ایل۔ ایز نے پارٹی کےخلاف بغاوت کھڑی کر دی۔ اس کے بعد کانگریس کو اسمبلی فلور پر اپنی اکثریت دکھانا تھی۔ 

اسمبلی فلور پر اپنی اکثریت دکھانے کے لیے کانگریس نے بھارتیہ جنتا پارٹی کے ایم ایل ایز سے رابطے تیز کر دیے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی نے اپنے ایم ایل ایز کو بسوں میں بھر کر ہریانہ کے ایک مہنگے ترین ہوٹل میں منتقل کر دیا تاکہ یہ کانگریسی لیڈران کی پہنچ سے دور رہ سکیں۔ 

اسی طرح 22 میں سے 19 کو دوبارہ کانگریس میں جانے سے روکنے کے لیے بی جے پی کی سخت نگرانی میں کرناٹک کی راجدھانی بنگلور کے ایک ہوٹل میں منتقل کر دیا گیا۔ 

کانگریس نے اپنے بقیہ ایم ایل ایز کو بھارتیہ جنتا پارٹی کی گرفت سے بچانے کے لیے راجستھان کے ایک ہوٹل میں منتقل کر دیا، تاکہ بی جے پی مزید کانگریسی ایم ایل ایز کو نہ توڑ سکے۔ 

مدھیہ پردیش میں چونکہ سیاسی افراتفری تھی اور دونوں پارٹیوں کو ایک دوسرے سے خطرہ تھا، اس لیے بھارتیہ جنتا پارٹی نے مدھیہ پردیش کے اپنے ایم ایل ایز کرناٹک اور ہریانہ میں اس لیے منتقل کیے کیوں کہ ان دونوں ریاستوں میں بی جے پی کی حکومت ہے۔ اسی طرح راجستھان میں کانگریس کی حکومت ہے اس لیے مدھیہ پردیش کے کانگریسی ایم ایل ایز کو پارٹی کی طرف سے کانگریس کے محفوظ مقام پر پہنچایا گیا۔ 

جب اسمبلی فلور ٹیسٹ کیا جاتا ہے اس سے پہلے سیاسی جماعتوں کی طرف سے بھاری بھرکم رقوم کے عوض ایک دوسرے کے نمائندگان کی وفاداریاں بدلنے کا عمل تیز تر ہو جاتا ہے۔ حکومت کا کلیم کرنے والی پارٹی کو ایک متعین مدت میں اسمبلی میں اپنی اکثریت دکھانی ہوتی ہے، اس عمل کو فلور ٹیسٹ کہا جاتا ہے۔ ممکنہ سیاسی وفاداریوں سے بچانے کے لیے سیاسی پارٹیاں فلور ٹیسٹ تک اپنے نمائندگان کو دور منتقل کر دیتی ہیں۔ 

آیا رام، گیا رام یا سیاسی لوٹے ہر آنے والی حکومت میں شامل ہو جاتے ہیں۔ جب موجودہ اقتدار ختم ہو جائے تو دوسری پارٹی جوائن کرکے پھر اقتدار کے مزے لوٹتے ہیں، وزیر و مشیر رہتے ہیں اور سرکاری مراعات حاصل کرتے ہیں۔ 

ان کی خاص بات یہ ہے کہ پچھلی حکومتوں کو مسائل کے لیے موردِ الزام ٹھہراتے ہیں، جس میں وہ خود بھی وزیر مشیر رہ چکے ہوتے ہیں۔ مزید یہ کہ سابقہ پارٹی کی قیادت کو چور اور ڈاکو کہتے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست