جنرل فیض پر تنقید: کیا مریم نواز نے بھی کشتیاں جلادیں؟

پارٹی میں دوبیانیوں کی لکیر بھی گہری ہوتی دکھائی دے رہی ہے کیونکہ اپوزیشن لیڈر شہباز شریف یا حمزہ شہباز میں سے کوئی مریم نواز کے ساتھ عدالتوں میں پیش ہونے کو بھی تیار نہیں۔

مریم نواز ن لیگ کی سینیئر قیادت کے ہمراہ اسلام آباد  میں عدالت کے باہر ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کے سوالات کے جوابات دے رہی ہیں جس کے دوران انہوں نے جنرل فیض حمید پر تنقید بھی  کی تھی(سکرین گریب)

پاکستان کا سیاسی پارہ ویسے تو اتارچڑھاؤ سے دوچار رہتا ہی ہے لیکن ان دنوں سابق حکمران جماعت مسلم لیگ ن کی رہنما مریم نواز نے بھی اپنے والد کی طرح نام لے کر جنرل فیض حمید پر سیاسی انجینئرنگ اور عدالتوں پر اثرانداز ہونے کے سنگین الزامات عائد کیے ہیں۔

جس کے بعد سیاسی حلقوں میں ایک بار بھی بحث وتکرار شروع ہوچکی ہے کوئی حق میں بات کر رہا ہے تو کوئی اسے اداروں کے خلاف سازش قرار دے رہا ہے۔

اہم بات یہ ہے کہ ن لیگ کے رہنما ان کے ساتھ عدالتوں میں تو پیش ہوتے ہیں مگر اس بارے میں بات کرنے سے گریزاں ہیں۔

پارٹی میں دوبیانیوں کی لکیر بھی گہری ہوتی دکھائی دے رہی ہے کیونکہ اپوزیشن رہنما شہباز شریف یا حمزہ شہباز میں سے کوئی مریم نواز کے ساتھ عدالتوں میں پیش ہونے کو تیار نہیں۔

اس صورت حال کو واضح کرتے ہوئے مریم نواز کو کہنا پڑا کہ یہ لڑائی ان کی اور نواز شریف کی ہے جس کے بعد یہ سوال جنم لیتے ہیں کہ مستقبل کا ملکی سیاسی منظرنامہ کیا ہوگا؟

ن لیگ کی ’گڈ کاپ بیڈ کاپ‘ پالیسی اور جارحانہ بیانات سے سابق حکمران جماعت کوئی فائدہ لے سکے گی یا سیاسی طور پر کمزور ہونے کا خدشہ ہے؟

ان سوالوں کے جواب حاصل کرنے کے لیے انڈپینڈنٹ اردو نے تجزیہ کاروں سے بات کی جنہوں نے اس حکمت عملی پر مختلف آرا کا اظہار کیا ہے۔

مریم نواز کا جنرل فیض حمید پر نام لے کرتنقید کرنے کا مقصد کیا ہوسکتا ہے؟

مریم نواز نے بدھ کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اس الزام کو دہرایا کہ معزول جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے سپریم جوڈیشل کونسل میں بیان حلفی جمع کرایا کہ انہیں اس وقت جنرل فیض حمید نے ملاقات کر کے نواز شریف اور مریم نواز کے خلاف کیسز میں سزا کی ہدایت کی جب انہوں نے انکار کیا تو انہیں کہا گیا کہ دو سال کی محنت ضائع ہوجائے گی جو وہ ن لیگی قیادت کو سزا دلوانے کے لیے کر رہے ہیں۔

اس معاملہ پر جب سینیئر اینکر پرسن منصور علی خان سے بات کی گئی تو انہوں نے کہاکہ پہلے نواز شریف نے آرمی چیف قمر جاوید باجوہ اور سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید پر نام لے کر سیاسی انجینئرنگ کے ذریعے ان کی حکومت کے خاتمے کا الزام عائد کیا مگر اس کے بعد کافی خاموشی رہی۔

اب جب جنرل فیض حمید کو ڈی جی آئی ایس آئی سے ہٹا کر کور کمانڈر پشاور تعینات کیا گیا ہے تو اسی دن مریم نواز نے انہیں نام لے کر عدالتوں پر دباؤ ڈال کر لیگی قیادت کےخلاف فیصلوں کا موجب قرار دیا۔

ان کے بقول مریم نواز کی جانب سے اچانک اس طرح کے بیانات کسی سیاسی حکمت عملی کی وجہ سے ہی ہوسکتے ہیں البتہ انہوں نے صرف جنرل فیض حمید پر تنقید کی ہے دوسرا نام بیانات سے نکال دیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ویسے تو مریم نواز کافی عرصہ سے بعض عسکری شخصیات پر نام لیے بغیر تنقید کرتی آئی ہیں مگر اب اچانک اس طرح سے تنقید کا سیاسی مقصد ہی دکھائی دیتا ہے۔

لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ امجد شعیب نے کہا کہ مریم نواز کی جانب سے جنرل فیض حمید پر الزامات کا مقصد صرف عدالتوں کو دباؤ میں لاکر اپنی اور اپنے والد کی کرپشن کیسوں سے نجات ہے۔ کیونکہ جو بھی ان کے خلاف فیصلے آئے انہیں جج ارشد ملک کی ویڈیو سے اور جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے الزامات کی وجہ سے متنازع بنانے کی کوششیں کی جاری ہیں۔

انہوں نے کہا کہ مریم نواز اپنے والد اور خود کو بچانے کے لیے ملکی سلامتی کے اداروں کو ڈھال بنا کر لوٹی ہوئی دولت بچانے کی کوشش کر رہی ہیں۔

تجزیہ کار حسن عسکری کے مطابق مریم نواز یا نواز شریف کی جانب سے عسکری ادارے یا افسران پر کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ سب کو معلوم ہے سیاست دان خود کو بچانے کے لیے ہمیشہ سے اس طرح کی تنقید کرتے آئے ہیں اور اس طرح کے بیانات سے عدالتوں کے فیصلوں پر بھی اثرات مرتب نہیں ہوتے کیونکہ وہاں دلیل اور ثبوت کی بنیاد پر فیصلہ کیا جاتا ہے۔

لہذا سیاسی پوائنٹ سکورنگ اپنی جگہ اس کے مقاصد کا اندازہ وقت کے ساتھ ہو جائے گا۔

کیا پارٹی مریم نواز کے بیانیے سے متفق ہے؟

مریم نواز کی جانب سے جنرل فیض حمید پر الزامات سے متعلق جب مسلم لیگ ن کی مرکزی ترجمان مریم اورنگزیب اور پنجاب کی ترجمان عظمی بخاری سے موقف لینے کے لیے رابطہ کیا لیکن انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔

جبکہ سابق نگران وزیر اعلی حسن عسکری نے کہا کہ یہ بات واضع ہے کہ مسلم لیگ ن کے رہنما نواز شریف اور مریم نواز کی جرنیلوں پر تنقید سے متفق نہیں ہیں اسی لیے وہ ان کے بیانات کو اپناتے بھی نہیں کیونکہ سیاسی نظام میں ہر ایک اپنی سیاست بچانے کی کوشش میں ہوتا ہے۔

منصور علی خان نے کہا کہ ن لیگ میں دو بیانوں کی بات پرانی ہوگئی اب لگتا ہے کہ بیانیہ صرف شہباز شریف کا چل رہا ہے کیونکہ میاں جاوید لطیف اور احسن اقبال کو نوٹس جاری کیے جانے سے واضح ہوگیا کہ نواز شریف اور مریم نواز پارٹی میں تنہا ہوتے جارہے ہیں۔

منصور علی خان کے مطابق جب مریم نواز عدالت پیشی کے لیے جاتی ہیں شہباز شریف یا حمزہ شہباز بھی ان کے ساتھ نظر نہیں آتے اب تو ایک ساتھ کسی اجلاس یا پریس کانفرنس میں بھی اکھٹے ہوتے مشکل سے دکھائی دیتے ہیں۔

کیا مریم جنرل فیض کے ممکنہ طور پر آرمی چیف بننے سے قبل انہیں متنازع بنا رہی ہیں؟

اس سوال کے جواب میں جنرل ریٹائرڈ امجد شعیب نے کہا کہ پاکستانی فوج میں ترقیاں اور تبادلے ادارے کے اپنے اصولوں کے مطابق ہوتے ہیں یہ بات ٹھیک ہے کہ جنرل فیض حمید کا نام سنیارٹی لسٹ میں چوتھے نمبر پر ہے اور روایت کے مطابق نئے آرمی چیف کے لیے وزیر اعظم چار سے پانچ نام مانگتے ہیں اور انہیں آرمی چیف لگایا جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ فوج لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے پر ترقی پانے والے تمام جرنیلوں کو آرمی چیف بننے کے قابل سمجھتی ہے مگر حتمی فیصلہ وزیر اعظم کا ہوتا ہے۔ یہ ضروری نہیں اس معاملہ میں سنیارٹی کو مد نظر رکھا جائے کیونکہ جنرل باجوہ کو بھی چار لیفٹیننٹ جنرلز کو سپر سیڈ کر کے آرمی چیف بنایا گیا تھا۔

امجد شعیب کے بقول: ’سیاسی رہنماؤں کے بیانات سے جرنیلوں کی ترقی کا کوئی لینا دینا نہیں یہ خالص ملکی دفاع کے اداروں کا معاملہ ہوتا ہے کسی کے الزمات وہ بھی بے بنیاد لگنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔‘

حسن عسکری کے خیال میں: ’جنرل فیض کو متنازع بنانے کی بات تو ابھی قبل از وقت ہے کیونکہ آرمی چیف کا فیصلہ تو پہلے کی مدت ختم ہونے سے چھ ماہ قبل ہوتا ہے۔‘

آرمی چیف قمر جاوید باجوہ کی مدت تو ابھی نومبر 2022 تک ہے اس وقت تک حالات کیا بنتے ہیں یہ تو اس وقت کچھ کہا جاسکے گا لیکن یہ ضرور ہے کہ اگر موجودہ حکومت کے دوران ہی آرمی چیف کا نام فائنل ہوا تو مریم یا نواز شریف کے بیانات سے کوئی فرق نہیں پڑے گا لیکن اگر قبل از وقت انتخابات ہوئے اور ن لیگ کی حکومت آئی تو یہ شاید جنرل فیض حمید کو آرمی چیف کے طور پر تعینات نہ کریں۔

مریم کے الزامات سے قانونی فائدہ ممکن ہے؟

جنرل ریٹائرڈ امجد شعیب نے اس سوال کے جواب میں کہا کہ ’نواز شریف نے کرپشن کا پیسہ بچانے کے لیے مریم نواز کو آگے کردیا ہے لیکن ان کے بے بنیاد اور کھوٹے الزامات نہ پہلے عدالتی فیصلوں پر اثر انداز ہوئے اور نہ آئندہ ہوسکتے ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کے بقول جنرل فیض حمید پر جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے ان باپ بیٹی کے خلاف فیصلے دینے کا جو الزام لگایا گیا ہے وہ جھوٹا ہے کیونکہ اس بارے میں نے مکمل چھان بین کی گئی تھی معلوم یہ ہواتھا کہ شوکت عزیز سے بطور ڈی جی سی فیض حمید نے جو ملاقات کی تھی وہ آئی ایس آئی کے اسلام آباد دفتر کے باہر سڑک پر دیوار ہٹانے سے متعلق شہریوں کی درخواست پر تھی۔

جنرل فیض نے جسٹس شوکت عزیز سے درخواست کی تھی کہ یہ دیوار ہٹانے کا حکم نہ دیا جائے کیونکہ یہ سکیورٹی کا معاملہ ہے اور ملازمین کی جانوں کو خطرہ ہوسکتا ہے۔

جب یہ شکایت انہوں نے اپنی راولپنڈی بار میں خطاب کے دوران دباؤ کے تناظر میں پیش کی اس وقت تو ارشد ملک نے فیصلہ بھی نہیں سنایا تھا تو دباؤ کیسا؟

امجد شعیب کے مطابق جسٹس شوکت عزیز سے جوڈیشل کمیشن میں پوچھا گیا کہ جب جنرل فیض نے ان سے ملاقات کی تو انہوں نے اسی وقت اپنے چیف جسٹس کو بتایا تھا انہوں نے خود تسلیم کیا کہ نہیں بتایا تھا۔

جب ن لیگی قیادت کے خلاف فیصلے آئے تو انہوں نے ارشد ملک کی ویڈیو سے بلیک میل کر کے جھوٹا بیان ریکارڈ کیا اور شوکت صدیقی کے بیان حلفی کو دباؤ کا ثبوت بنا کر پیش کردیا ہے۔

ان کے خیال میں مریم نواز کے ان بیانات سے عدالتی فیصلوں پر کوئی اثر نہیں پڑے گا کیونکہ وہاں ان پر کرپشن کے الزامات کے ثبوت نہیں سوائے ان ہتھکنڈوں کے جو عدالتیں نہیں مانتی۔

دوبیانیوں میں گھری ن لیگ کا سیاسی مستقبل کیا ہوگا؟

منصور علی خان نے کہاکہ وہ ن لیگ کے دو بیانیوں سے اختلاف کرتے ہیں کیونکہ بیانیہ تو شہباز شریف کا چل رہا ہے ان کے اپنے رہنماؤں کو نواز شریف کا بیانیہ تسلیم کرنے کی اجازت نہیں۔ اپوزیشن رہنما شہباز شریف اور حمزہ شہباز بھی اس بیانیہ پر چلنے کو تیار نہیں باپ بیٹی کے بیانات میں بھی تنقید کے لیے ایک نام رہ گیا ہے جبکہ پہلے زیادہ جرنیلوں کے نام لیے جاتے تھے۔

انہوں نے کہا کہ مریم نواز نے خود اپنی میڈیا ٹاک کے دوران سوال کے جواب میں کہا کہ یہ بیانیہ صرف ان کا اور نواز شریف کا ہے جس سے مسلم لیگ ن کا کوئی تعلق نہیں۔

حالانکہ یہ بھی سیاسی بیان ہے جب وہ مسلم لیگ ن کے سٹیج پر ایسے بیان دے چکی ہیں اور جب انہوں نے جنرل فیض حمید پر الزام لگائے تو ان کے ساتھ ن لیگی کئی رہنما اور کارکن موجود تھے تو یہ ان کا ذاتی بیانیہ تو نہ ہوا سیاسی ہوا، شاید پارٹی میں اسے پزیرائی نہ ملنے کے باعث ہی ان کو یہ کہنا پڑا ہے۔

حسن عسکری کے خیال میں شروع سے ہی سیاست دان ایسے بیانات دیتے آئے ہیں جن سے ان خیالات کے حامی لوگ ان کے ساتھ ملیں اسی لیے مریم نواز بھی ایسے بیانات دیتی ہیں کہ جو ان بیانات کے حامی ہیں وہ ان کی حمایت کریں معاملہ سارا ہی سیاست کا ہے جس کا اصل مقصد اقتدار ہوتا ہے۔

مسلم لیگ ن نے کینٹونمنٹ انتخابات کے دوران بھی لاہورمیں ووٹ کو عزت دو کی بجائے کام کو عزت دو کے بیانیہ کی تشہیر کی اور تمام بینرز پر یہی نعرہ درج تھا۔

اس پالیسی پر مختلف حلقوں کی جانب سے تنقید بھی سامنے آئی تھی تاہم پارٹی کی سطح پر اس پالیسی بارے کوئی وضاحت نہیں دی گئی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست