افغان بھائی جن کا موسیقار بننے کا خواب ادھورا رہ گیا

افغانستان میں کئی پروگراموں میں اپنا فن دکھانے والے سبحان اور سہراب لطیف کابل میں موسیقی سیکھ رہے تھے مگر طالبان کے حکومت میں آنے کے بعد انہیں اور ان کے خاندان کو جلدی میں کابل چھوڑنا پڑا۔

ساتویں جماعت کے طلبہ سبحان اور سہراب لطیف دو بھائی ہیں جو موسیقار بننے کا شوق لے کر سکول کے بعد موسیقی سیکھتے تھے، مگر چند ہی دنوں کے عرصے میں انہیں یہ سب پیچھے چھوڑنا پڑ گیا۔

افغانستان میں طالبان کی حکومت آنے کے بعد ان کا خاندان تقریباً ایک ماہ قبل پاکستان کے شہر پشاور منتقل ہوگیا۔ 

انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے سبحان نے بتایا: ’طالبان کی حکومت کے بعد ہمارا موسیقی سیکھنے کا خواب ادھورا رہ گیا۔ ہم کابل میں موسیقی کی ٹریننگ جاری نہیں رکھ سکتے تھے کیونکہ ہمیں پتہ تھا کہ وہاں اب یہ کام نہیں ہو سکتا۔‘

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق طالبان کے کنٹرول میں آنے کے بعد سے اب تک تقریباً ایک سو کے قریب افغان موسیقار طالبان کی ڈر سے افغانستان چھوڑ کر بیرون ملک پناہ لے چکے ہیں۔

ان موسیقاروں میں کچھ ایسے بھی ہیں جو اب پشاور اور کوئٹہ شہر میں مقیم ہیں کیونکہ ان کے مطابق اب وہ افغانستان میں موسیقی جاری نہیں رکھ سکتے۔

افغانستان سے دیگر ممالک میں منتقل ہونے والے موسیقاروں میں افغانستان کی خواتین پر مبنی واحد آرکیسٹرا ٹیم بھی اب بیرون ملک پناہ لے چکی ہے۔

افغانستان کے مشہور انسٹی ٹیوٹ آف میوزک کے ڈائریکٹر احمد سرمست کے مطابق طالبان کی جانب سے موسیقاروں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ فی الحال اپنے گھروں میں محدود رہیں۔

سرمست نے اے ایف پی کو ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ طالبان نے ان کے ادارے کو بند کر دیا اور اب ان کی کوشش ہے کہ بچے ہوئے موسیقاروں کو باحفاظت ملک سے نکال لیا جائے۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سبحان اور ان کے خاندان کے لیے سب کچھ معمول سے چل رہا تھا لیکن طالبان کے حکومت میں آنے کے بعد وہ پشاور منتقل ہوگئے۔

سجان نے بتایا کہ دونوں بھائی سکول اور ٹیوشن جاتے تھے اور اس کے بعد مدرسے اور واپسی پر موسیقی کا ریاض کرتے تھے۔ سبحان بچپن سے سکول میں نعتیں بھی پڑھتے اور یہی وجہ ہے کہ ان کی اچھی آواز کی وجہ سے ان کو افغانستان کے ٹی وی چینلز پر موسیقی کے پروگراموں کے لیے مدعو کیا جاتا تھا۔

سبحان کی ایک گانے کی ویڈیو، جو طلوع نیوز کے ایک پروگرام میں گا چکے ہیں، کو یوٹیوب پر تقریباً دس لاکھ لوگ اب تک دیکھ چکے ہیں۔ اسی گانے میں ان کے بھائی ہارمونیم اور طبلہ بجاتے نظر آتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ خاندان نے جلدی میں کابل سے نکلنے کا فیصلہ کیا اور ان کے موسیقی کے سارے آلات، جیسے ہارمونیم، گٹار اور طبلہ، سب کابل میں رہ گئے ہیں۔ 

سہراب نے بتایا کہ انہیں طالبان کی جانب سے دھمکی تو نہیں ملی تھی لیکن  ہمسائے شکایتیں کرتے تھے کہ اتنی کم عمر میں یہ بچے موسیقی سیکھ رہے ہیں اور مدرسے میں نہیں پڑھ رہے۔ ’اسی ڈر کی وجہ سے کہ کوئی نا خوشگوار واقعہ پیش نہ آئے، ہم نے پشاور آنے کا فیصلہ کیا اور اب یہاں رہ رہے ہیں لیکن ہم چاہتے  ہے کہ ہماری مدد کی جائے اور ہمیں کسی بیرونی ملک بھیجا جائے۔‘

سبحان اور سہراب کے والد نذیر لطیف بھی موسیقار ہیں اور افغانستان کے سرکاری چینل ریڈیو ٹیلی وژن نیٹ ورک کے ساتھ بطور موسیقار وابستہ تھے۔ نذیر لطیف نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ خاندان پہلے قندہار گیا، وہاں سے سپین بولدک بارڈر کے ذریعے کوئٹہ منتقل ہوگیا اور پھر پشاور۔ 

انہوں نے بتایا: ’یہ نہایت کٹھن مرحلہ تھا۔ ایک تو ہم اپنا گھر، گاڑی، موسیقی کے آلات کابل میں چھوڑ کر آگئے۔ اوپر سے حالات ایسے تھے کہ ہمارے پاس نماز پڑھنے کے لیے جائے نماز بھی نہیں تھی لیکن پھر پشاور کے ایک دوست نے ایک قالین دے دیا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ اب پریشانی اس بات کی ہے کہ بچوں کی تعلیم بھی رہ گئی اور ساتھ میں موسیقی بھی متاثر ہوئی۔ ’میرے بچوں کو زبان کا مسئلہ بھی ہے کیونکہ پشاور میں دری بولنے والے نہ ہونے کے برابر ہیں تو بچے جب بھی باہر نکلتے ہیں میں بھی ساتھ میں جاتا ہوں کیونکہ صرف میں پشتو بول سکتا ہوں۔‘

نذیر لطیف اب پشاور میں کرائے کے ایک فلیٹ میں اپنے بچوں کے ساتھ رہ رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ مکان کا کرایہ تقریباً 37 ہزار روپے ہے جس کو ادا کرنے کے لیے ان کے پاس کوئی وسائل نہیں۔ 

زیادہ پڑھی جانے والی ملٹی میڈیا