نور مقدم قتل کیس: ’ملزم کے والدین نور مقدم کو بچا سکتے تھے‘

ملزم ظاہر جعفر کی والدہ اور والد کی ضمانت کی درخواست پر عدالت عظمیٰ میں پیر کو سماعت ہوئی، جہاں عدالت نے دس لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکے کے عوض عصمت جعفر کی ضمانت منظور کر لی ہے۔

ظاہر جعفر کے والد اور والدہ نے قتل کیس میں ہائی کورٹ سے ضمانت کی درخواست مسترد ہونے کے بعد سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا (فائل فوٹو:اے ایف پی )

پاکستان کی سپریم کورٹ نے نور مقدم قتل کیس کے مرکزی ملزم ظاہر جعفر کی والدہ عصمت جعفر کی درخواست ضمانت منظور جبکہ والد ذاکر جعفر کی درخواست ضمانت مسترد کر دی ہے۔

ملزم ظاہر جعفر کی والدہ اور والد کی ضمانت کی درخواست پر عدالت عظمیٰ میں پیر کو سماعت ہوئی، جہاں عدالت نے دس لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکے کے عوض عصمت جعفر کی ضمانت منظور کر لی۔

نور مقدم قتل کیس کے ملزمان ذاکر جعفر، عصمت جعفر کی ضمانتوں پر سماعت عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی۔ دونوں ملزمان کی جانب سے خواجہ حارث پیش ہوئے۔

سپریم کورٹ نے مرکزی ملزم کی والدہ عصمت جعفر کو ضابطہ فوجداری کی شق 497 کی ذیلی شق ایک کے تحت ضمانت دی۔ شق 497 کی ذیلی شق ایک کے تحت 16 سال سے کم عمر ملزم، خاتون یا بیمار ملزم کو ضمانت دی جا سکتی ہے۔

عدالت کا یہ موقف بھی تھا کہ وقوعے کے وقت عصمت آدم جی اسلام آباد میں موجود نہیں تھیں۔ سپریم کورٹ نے اپنے زبانی حکم نامے میں مزید کہا ہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے عصمت آدم جی سے متعلق کوئی ہدایات جاری نہیں کیں۔

سپریم کورٹ نے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے عبوری حکم میں مداخلت نہیں کی جائے گی اور ملزمان کو شفاف ٹرائیل کا حق دیا جائے۔

واضح رہے کہ ظاہر جعفر کے والد اور والدہ نے قتل کیس میں اسلام آباد ہائی کورٹ سے ضمانت کی درخواست مسترد ہونے کے بعد سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔

سپریم کورٹ میں پیر کو ہونے والے سماعت کے دوران جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ والد کو ضمانت دی نہیں جا سکتی، ممکن ہے وہ گواہان پر اثر انداز ہوں۔

انہوں نے کہا کہ موجودہ کیس کے معاشرتی اثرات ہیں، روزانہ کی بنیاد پر ٹرائل کر کے مکمل کریں۔ جسٹس قاضی امین نے ریمارکس دیے کہ فوجداری مقدمات میں روایات کی کوئی عمل داری نہیں ہوتی بلکہ ہر فوجداری مقدمے کی نوعیت مختلف ہوتی ہے۔

واضح رہے کہ 23 ستمبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے نور مقدم قتل کیس میں مرکزی ملزم ظاہر جعفر کے والدین کی درخواست ضمانت مسترد کر دی تھی۔ جس پر ملزمان نے ٹرائل کورٹ سے ضمانت مسترد ہونے کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ رجوع کیا تھا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ سے بھی درخواست مسترد ہونے کے بعد سپریم کورٹ میں اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ چیلنج کیا گیا تھا۔

سماعت میں مزید کیا ہوا؟

سماعت کے دوران جسٹس عمر عطا بندیال نے خواجہ حارث سے کہا کہ ’آپ ملزم اور اس کے والدین کے کال ریکارڈز اور رابطے پر دلائل دیں۔ وقوعے کے روز درخواست گزاروں کی جانب سے ملزم کو بے شمار کالز کی گئیں۔ اس موقع پر ضمانت کا فیصلہ کرنے سے مرکزی کیس متاثر ہو سکتا ہے۔ عصمت جعفر کے اس واقعے میں کردار سے متعلق دلائل دیں۔‘

خواجہ حارث نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ملزمان کو قتل چھپانے اور پولیس کو اطلاع نہ دینے کا الزام ہے قتل چھپانے کے حوالے سے ملزم کا بیان اور کالز ریکارڈ ہی شواہد ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ 6:45 سے 9 بجے تک ملزم کے والد سے رابطے میں رہا، والد کے بات ہونے کے شواہد نہیں ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جسٹس قاضی امین نے کہا کہ ضمانت کے مقدمے میں اپنی رائے دے کر ہم پراسیکوشن کے مقدمے کو تو ختم نہیں کر سکتے جبکہ جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ ممکن ہے ’کالز میں والد قتل کا کہہ رہا ہو، یہ بھی ممکن ہے روک رہا ہو‘۔ انہوں نے استفسار کیا کہ کیا ملزم کی ذہنی حالت جانچنے کے لیے میڈیکل کروایا گیا؟

شوکت مقدم کے وکیل شاہ خاور نے عدالت کو بتایا کہ ملزم کا صرف منشیات کا ٹیسٹ کروایا گیا ہے، ذہنی کیفیت جانچنے کے لیے کوئی معائئنہ نہیں ہوا۔ جس پر جسٹس قاضی امین نے کہا کہ ملزم انکار کرے تو ذہنی کیفیت نہیں دیکھی جاتی، ذہنی کیفیت کا سوال صرف اقرار جرم کی صورت میں اٹھتا ہے۔

ایڈوکیٹ جنرل اسلام آباد نے عدالت کو بتایا کہ فرد جرم عائد ہو چکی ہے اور آٹھ ہفتوں میں ٹرائل مکمل کرنے کی ہدایت بھی کی گئی ہے۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ بظاہر ماں کے جرم میں شریک ہونے کے شواہد نہیں۔ وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ملزم کی ماں نے دو کالز گارڈ کو کی تھیں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ یہ ایک سفاک قتل ہے جس کو چھپانے کی کوشش کی گئی ہے۔ اتنے سفاک قتل میں تمام پہلوؤں کو دیکھتے ہوئے ضمانت کس بنیاد پر ہونی چاہیے؟

’اگر کال ریکارڈز کو بھول بھی جائیں، تو ذاکر جعفر نے قتل سے متعلق پولیس کو اطلاع کیوں نہیں دی؟ جسٹس قاضی امین نے بھی کہا کہ وقوعے کے بعد بھی ملزمان کا رویہ دیکھا جاتا ہے۔‘

جسٹس منصور علی نے مزید کہا کہ والدین کو وقوعے سے متعلق علم تھا۔ والدین نے وقوعہ روکنے کی کوشش نہیں کی۔ ملزم کے والدین نور مقدم کو قتل ہونے سے بچا سکتے تھے۔‘

واقعے کا پس منظر

واضح رہے کہ 20 جولائی کی شام اسلام آباد کے سیکٹر ایف سیون میں سابق سفیر شوکت مقدم کی صاحبزادی نور مقدم کا بے دردی سے قتل کر دیا گیا تھا، جس کے بعد ملزم کو موقع سے حراست میں لے لیا گیا تھا۔ جبکہ  پولیس نے جرم کی اعانت اور شواہد چھپانے کے جرم میں ملزم کے والدین ذاکر جعفر اور ان کی اہلیہ عصمت آدم جی سمیت دو گھریلو ملازمین کو بھی تفتیش کے لیے حراست میں لے لیا تھا۔

بعد ازاں عدالت میں چالان پیش کیا گیا اور 14 اکتوبر کو  فرد جرم بھی عائد کر دی گئی،  ملزمان اس وقت اڈیالہ جیل میں ہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان