کیپیٹل ہل میں ہنگامہ آرائی: ٹرمپ کا تحقیقاتی کمیٹی کے خلاف مقدمہ

چھ جنوری کے واقعے کی تحقیقات کرنے والی کمیٹی نے گواہی کے لیے ٹرمپ کے مشیروں کو بھی طلبی کے نوٹس جاری کر دیے ہیں۔

حملے سے ایک دن پہلے ریلی سے خطاب میں اشتعال انگیز تقریر کرنے پر ڈیموکریٹ ارکان کی اکثریت والے ایوان نے ٹرمپ کا مواخذہ کیا، مگر سینیٹ نے بعد میں انہیں بری کیا (اے ایف پی/ فائل فوٹو)

سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے رواں سال چھ جنوری کو کیپٹل ہل میں ہنگامہ آرائی کی تحقیقات کرنے والی کانگریس کمیٹی کے خلاف مقدمہ دائر کر دیا ہے۔ سابق صدر کا دعویٰ ہے کہ کمیٹی کے ارکان نے ان کے وائٹ ہاؤس ریکارڈ تک رسائی کی غیرقانونی درخواست کی ہے۔

سابق صدر ٹرمپ کی طرف سے کولمبیا ڈسٹرکٹ کورٹ میں دائر کیے جانے والے مقدمے میں کہا گیا ہے کہ ایوان نمائندگان کی کمیٹی نے جو ریکارڈ مانگا ہے اسے قانونی تحفظ حاصل ہے، جسے انتظامی استحقاق بھی کہا جاتا ہے، جو وائٹ ہاؤس کے بعض رابطوں کو خفیہ رکھنے کے حوالے سے تحفظ فراہم کرتا ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ کے وکیل جیسی بنال نے درخواست میں لکھا ہے کہ ’کمیٹی نے جو درخواستیں کی ہیں ان کی وسعت اور دائرہ کار کے اعتبار سے کوئی مثال نہیں ملتی اور ان کا قانون سازی کے جائز مقصد کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔‘

ریاست وائیومنگ سے کمیٹی کی رپبلکن رکن لزچینی اور مسیسپی سے ڈیموکریٹ رکن بینی تھامپسن نے ٹرمپ کے مقدمے کے جواب میں جاری کیے گئے ایک تحریری بیان میں کہا ہے کہ سابق صدر ان کی تحقیقات میں ’تاخیر اور رکاوٹ‘ کی کوشش کر رہے ہیں۔

بیان کے مطابق: ’ہماری جمہوریت پر حملے اور انتخابی نتائج کو بدلنے کی کوشش سے زیادہ بڑا عوامی مفاد کا تصور کرنا مشکل ہے۔‘

قانون سازوں کی طرف سے ڈیموکریٹک صدر جوبائیڈن کی انتخاب میں کامیابی کی تصدیق روکنے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے ٹرمپ کے سینکڑوں حامیوں نے چھ جنوری کو کانگریس کی عمارت پر دھاوا بول دیا تھا۔ اس واقعے کے نتیجے میں چھ سو افراد مجرمانہ الزامات کا سامنا کر رہے ہیں۔

حملے سے ایک دن پہلے ریلی سے خطاب میں اشتعال انگیز تقریر کرنے پر ڈیموکریٹ ارکان کی اکثریت والے ایوان نے ٹرمپ کا مواخذہ کیا، مگر سینیٹ نے بعد میں انہیں بری کیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

رواں ماہ کے اوائل میں بائیڈن نے سلیکٹ کمیٹی کی درخواست پر ابتدائی دستاویزات کا ایک حصہ نیشنل آرکائیوز کی طرف سے کمیٹی کو فراہم کرنے کی منظوری دی تھی۔ ٹرمپ کے دعوے کے مطابق نیشنل آرکائیوز کا کہنا ہے کہ وہ مانگی گئی دستاویزات اگلے مہینے کمیٹی کے حوالے کر دے گی۔ ٹرمپ کے دعوے میں دستاویزات کی فراہمی روکنے کی استدعا کی گئی ہے۔

کانگریس کے سابق وکیل مائیکل سٹرن نے کہا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ ٹرمپ کی حکمت عملی مقدمہ بازی کے ذریعے سلیکٹ کمیٹی کے کام میں تاخیر کرنا ہو۔ سٹرن کے بقول: ’اگر وہ وکلا کی فیس ادا کرنے کے لیے تیار ہیں تو ٹرمپ ریکارڈ کی فراہمی میں کچھ وقت کی تاخیر کروا سکتے ہیں۔‘

دوسری جانب چھ جنوری کے واقعے کی تحقیقات کرنے والی کمیٹی نے گواہی کے لیے ٹرمپ کے مشیروں کو بھی طلبی کے نوٹس جاری کر دیے ہیں جن میں ان کے سیاسی حکمت عملی کے ذمہ دار سٹیوبینن بھی شامل ہیں۔

سٹیوبینن نے ٹرمپ کے انتظامی استحقاق کے دعوے کے عدالت یا کمیٹی کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے فیصلے تک گواہی دینے سے انکار کر دیا ہے۔ کمیٹی نے گذشتہ ہفتے کہا تھا کہ وہ امریکی محکمہ انصاف کو باضابطہ ہدایت دے گی کہ بینن پر جرم کا مرتکب ہونے کا الزام عائد کیا جائے کیونکہ انہوں نے طلبی کے نوٹس کی خلاف ورزی کی ہے۔

ایوان کی کمیٹی نے دوسرے حکام کو بھی طلب کر رکھا ہے جن میں محکمہ انصاف کے سابق عہدے دار جیفری کلارک، ٹرمپ کے سابق چیف آف سٹاف مارک میڈوز، ڈپٹی چیف آف سٹاف ڈان سکیوینو اور محکمہ دفاع کے سابق افسر کاش پٹیل شامل ہیں

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا