گیم چینجر یا گیم اوور۔۔۔؟

بائیس سالہ جدوجہد والوں کے لیے عددِ 22 کا سال عبور کرنا انتہائی دشوار ثابت ہو سکتا ہے۔ فی الحال تو ساری گیم 2022 تک کے لیے ہے جو اہم تبدیلیوں کا سال ہو سکتا ہے۔

عمران خان 19 نومبر 2020 کو کابل میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے (اے ایف پی)

مزاج جارحانہ اور ضدی۔ جو چاہا وہی پایا۔ جو من میں آیا وہی منوایا۔ 21 سالہ کرکٹ کیریئر میں عمران خان کی اِس سرشت نے انہیں بے شمار فائدے پہنچائے اور پوری دنیا میں سب سے زیادہ کامیاب اور چاہے جانے والے اتھلیٹس کی فہرست میں لاکھڑا کیا۔

لیکن سیاست۔۔۔؟ اور وہ بھی پاکستان کی ۔۔۔!

یہاں ایسی اکھڑ مزاجی کام نہیں آتی۔ سیاست تو نام ہے لچک کا۔ کبھی اپنی منوانے کا۔ کبھی دوجے کی ماننے کا۔ سیاست میں کبھی بھی دو اور دو حتمی طور پر چار نہیں ہوتے۔ کبھی پانچ بنانے پڑتے ہیں، کبھی 22 تسلیم کرنے پڑتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ سوالات جنم لے رہے ہیں کہ کیا 22 سالہ پارٹی تاریخ محض 38 ماہ کی حکومت کے سامنے ڈانواں ڈول ہو کر اپنے منطقی انجام کی طرف بڑھتی نظر آنے لگی ہے۔۔؟

صرف تین سال پہلے تک عمران خان کا کیسا طوطی بولتا تھا۔ عوام کا کثیر طبقہ، اسٹیبلشمنٹ کا طاقت ور حلقہ خان کو آخری مسیحا کے طور پر پاکستان کی واحد امید گردانتا تھا۔

جو عمران کہتا وہ حرفِ آخر، جس بات پر عمران یقین رکھتا وہ کامل۔۔۔ کپتان کی صورت میں ایک ایسا بھرپور بت تراشا گیا جس کی مٹھی میں جیتے جاگتے انسانوں کی جان تھی، جس کے پاس لوگوں کی ہر مصیبت ہر پریشانی کا حل موجود تھا، اس تراشیدہ بت کے پجاریوں نے اپنے دن رات، مال اسباب، اہل و عیال، دوست احباب، عزت، آبرو، ساکھ سب کچھ خفیہ و اعلانیہ چڑھاوے میں اس طور نچھاور کر دیا کہ ایک روز ان کی امید بَر آوے گی۔۔۔

نتیجہ کیا نکلا۔۔۔؟ آہستہ آہستہ دعائیں رائیگاں جانے لگیں۔ چڑھاوے سوکھنے لگے۔ سب آس امیدیں ٹوٹنے لگیں۔ مسیحا اتائی کی صورت نظر آنے لگا۔ پرائے تو پہلے ہی نالاں تھے، اپنے بھی اب بظاہر خفا ہیں۔

یقین کامل متزلزل کی منزل تک آن پہنچا ہے۔ خان کا کہا اب حرف آخر نہیں بلکہ سوالیہ نشان کی جگہ چھوڑتا جارہا ہے۔ لیکن حیران کن کہ کپتان کا مزاج آج بھی جارحانہ اور ضدی۔ جو ٹھان لی تو اب ٹھَن گئی ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ واقفان حال کے مطابق ایچی سن کالج میں داخلے سے قبل تک عمران خان کرکٹ میں کوئی خاص دلچسپی نہیں رکھتےتھے اور ان کا بیٹنگ اور باولنگ سٹائل کچھ خاص متاثر کن بھی نہیں تھا۔

گیم میں اپنے اوّلین تعمیری دنوں اور سالوں میں عمران خان کی کارکردگی مایوس کن تھی تاوقتیکہ انہیں اچھے اساتذہ میسر آئے جنہوں نے خان کی گیم میں نِکھار پیدا کیا۔

مگر اس کے باوجود کرکٹ میں عمران کے اوّلین سال خوب محنت کرنے میں گزرے کیونکہ ان کی پرفارمنس مسلسل نشیب و فراز کا شکار رہتی تھی۔

کرکٹ میں 16 سال کی عمر میں اپنے فرسٹ کلاس ڈیبیو کے دوران بیٹنگ کے شعبے میں عمران خان کے کارکردگی بالکل خراب رہی۔

بولنگ کے شعبے میں البتہ قدرے بہتر پرفارمنس دکھانے پر عمران کو دورۂ انگلستان کے لیے منتخب کر لیا گیا تھا لیکن اس دورے میں بھی ایک ٹیسٹ میچ میں انتہائی بری کارکردگی کی بنا پر شکوک و شبہات جنم لینے لگے کہ شاید خان آئندہ کبھی ٹیم پاکستان کے لیے منتخب نہ ہو سکیں۔

دورۂ انگلینڈ میں اس ٹیسٹ میچ میں عمران خان صرف پانچ رنز بنا سکے تھے اور کوئی وکٹ بھی حاصل نہیں کی تھی۔

نوبت تو یہاں تک پہنچ گئی کہ انگلستان میں ووسٹر گرامر سکول میں کرکٹ کھیلنے کے دوران عمران خان گیم سے الگ ہو جانے اور کرکٹ کو خیرباد کہہ دینے کا بھی سوچنے لگے۔

یہ وہ دن تھے جب خان اپنے بولنگ ایکشن کو میڈیم سے فاسٹ پیس کرنے کی تگ و دو میں لگے ہوئے تھے۔

خوش قسمتی سے کچھ رہنمائی اچھی مل گئی اور کچھ کردار مسلسل محنت نے ادا کیا کہ اولین سالوں کے نشیب و فراز اور غیرمتاثر کن کارکردگی کے بعد آخرِکار عمران خان کی پرفارمنس میں ٹھہراؤ آیا اور اس کے بعد گیم میں خان کےایک نئے دور کا آغاز ہوا۔

کیا کرکٹ کی طرح حکومت میں بھی کپتان کا ماضی اپنے آپ کو دہرا رہا ہے۔۔۔؟

کیا پہلی بار مرکزی حکومت حاصل کرنے کے اولین نشیب و فراز سے کپتان سنبھل پائیں گے یا گیم کو خیرباد کہہ دیں گے (یا کہہ دیے جانے پر مجبور ہو جائیں گے یا کر دیے جائیں گے) ۔۔۔؟

سیاست بھی آخر گیم تو ہے مگر کرکٹ کی طرز کی نہیں۔ اس گیم کے نہ تو کوئی اصول ہیں نہ ضابطے نہ قوانین نہ اخلاقیات۔ اس گیم میں نہ کوئی ایک سائیڈ کا کھلاڑی ہے نہ کوئی نیوٹرل تھرڈ امپائر۔ نہ کوئی پِچ ہے نہ مطلوبہ لائن اور لینتھ۔ یہاں فاسٹ بولنگ اکثر کامیاب نہیں ہوتی اور میڈیم پیس سے کام چلانا پڑتا ہے۔

یہ گیم صرف اور صرف ایک آفاقی اصول کے تحت کام کرتی ہے اور وہ ہے طاقت۔ طاقت کس کی ہو گی، کتنی ہو گی، اور اس کا استعمال کیسے ہو گا، اس کا فیصلہ کبھی بھی گیم کے کپتان کے ہاتھ میں نہیں رہتا۔

کپتان تو محض اسی زعم کے بل بوتے پر گیم کا حصّہ بنا رہتا ہے کہ کھیل اس کے گرد گھوم رہا ہے اور وہ اس کامرکزی کردار ہے جبکہ اصل کردار میدان سے کہیں دور گیم کے ضابطے طے اور تبدیل کرتے رہتے ہیں۔ گیم تبدیل ہو رہی ہے۔

نئے ضابطے نئے قوانین تشکیل پا رہے ہیں لیکن کپتان کی خوش فہمی ہے کہ گیم اب بھی اس کے ہاتھ میں ہے اور وہی اس کا مرکزی کردار ہے۔

سیاسی اصطلاح میں اصل تبدیلی تو، ایسے محسوس ہوتا ہے، جیسے بظاہر اب آنے والی ہے۔ موسم بدل چکا ہے۔ ہوائیں نئے رخ پر نئے پیامات ادھر سے ادھر روانہ کر رہی ہیں۔

مہنگائی کے خلاف اپوزیشن کی حکومت مخالف تحریک کا پنجاب سے آغاز اور پنجاب میں بھی راولپنڈی سے نقطۂ آغاز۔۔۔ کالعدم جماعت تحریکِ لبیک کا لاہور سے دھرنے مارچ کا آغاز اور سنگین، نازک حالات میں وزیر داخلہ شیخ رشید کا ملک سے باہر چلے جانا حتی کہ وزیراعظم عمران خان کا وزیر داخلہ کو چھٹی پر جانے کی اجازت بھی دے دینا(اب سنا ہے واپس طلب کر لیا گیا ہے)۔۔۔۔پنجاب اور مرکز میں تحریکِ عدم اعتماد کی بازگشت دوبارہ سے جاری ہونا۔۔۔ حتی کہ اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیہ رکھنے والے پیپلز پارٹی کے کٹر نظریاتی رضا ربانی جیسے لوگ جب عمران خان پر حالیہ حسّاس تقرری میں غیرضروری تاخیر پر تنقید کریں اور اسے ادارے میں بےجا مداخلت اور ادارے کو کمزور کرنے کی طریقت قرار دیں تو جان لیں کہ تبدیلی آ نہیں رہی؛ تبدیلی آ چکی ہے۔۔۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یہ سب واقعات پس پردہ ہونے والی تبدیلیوں، گیم کے نئے سیٹ ہونے والے اصولوں اور طاقتی مراکز کی کشا کش کی پیش منظر پر ہلکی سی جھلک کے عکاس ہیں۔

کیا عمران خان ملک کے پہلے وزیراعظم بن سکیں گے جو اپنی مدت پوری کریں؟ فی الحال تو موجودہ حالات کے تناظر میں اس سوال کا جواب ہاں میں دینا مشکل نظر آتا ہے۔ لیکن دوسری صورت میں مستقبل کے آپشن کیا ہیں۔۔؟

ان آپشنز کے خدوخال ممکنہ طور پر آئندہ چند ماہ خاص کر دسمبر سے عیاں ہونا شروع ہو سکتے ہیں۔ عین ممکن ہے وقت کی چرخی الٹی سمت میں دوبارہ بھی گھوم سکتی ہے۔ بائیس سالہ جدوجہد والوں کے لیے عددِ 22 کا سال عبور کرنا انتہائی دشوار بھی ثابت ہو سکتا ہے۔

فی الحال تو ساری گیم 2022 تک کے لیے ہے جو اہم تبدیلیوں کا سال ہے لیکن اسلام آباد کی سرد فضائیں دبی دبی سرگوشیوں میں سوال پوچھتی نظر آتی ہیں کہ اس بار موسمِ سرما کی برف پگھلنے میں کتنا عرصہ لگے گا؟ کیا اب کی بار موسمِ بہار کا انتظارکیا جا سکتا ہے؟

گیم اوور یا اوورز ابھی باقی ہیں دوست۔۔۔؟


نوٹ: یہ تحریر مصنفہ کی ذاتی رائے پر مبنی ہے اور ادارے کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ