وزیر اعظم عمران خان کی حکومت کے لیے راستے بظاہر تنگ ہو رہے ہیں بلکہ یوں کہیے یہ تنگی ایک بند گلی میں تبدیل ہو رہی ہے۔ کچھ جبر ان حالات کا ہے جو تین سال میں اس حکومت کے ہوتے ہوئے بنے۔ سیاست اور ذاتی ترجیحات کو علیحدہ رکھیں تو بھی ملک کی تصویر خوش نما رنگوں سے مزین نہیں ہے۔
معیشت کو ایک ایسا دیمک لگ گیا ہے جس نے اس کی جڑیں کھوکھلی کر دی ہیں۔ تمام تر قرضوں اور عوام کے خون سے لتھڑی کھاد نے سبز شاخ کو پھوٹنے کا انتظام بھی نہیں کیا۔ چھتیں بوسیدہ ہیں، نوکریاں غائب، تنخواہیں سکڑ کر مذاق بن گئیں ہیں۔ جو یہ کہتا ہے کہ پاکستانی ٹیکس نہیں دیتے اس کا سر شاید نیچے اور ٹانگیں اوپر ہیں۔
پاکستانی قوم وہ ٹیکس بھی دیتی ہے جو نہ واجب ہیں اور نہ قانونی۔ بجلی کا بل اٹھا کر دیکھ لیں، اگر اس پر یقین نہیں آتا تو یہ جان لیں کہ مہنگائی سب سے بڑا ٹیکس ہے اور خریدو فروخت پر لاگو ٹیکس سے بچنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ یہ قوم مزید ٹیکس نہیں دے سکتی مگر اس کو ٹیکس کی چکی میں مزید پیسا جائے گا، کیوں کہ حکومت اپنے اخراجات پر قابو نہیں پا سکتی اور نہ آمدن بڑھانے کا اس کے پاس کوئی پلان ہے۔ دوست مدد کر کے تھک گئے ہیں۔ مزید مدد کی گنجائش نہیں ہے۔
آئی ایم ایف ایک ایک پائی کے بدلے ناک رگڑوا رہا ہے۔ شوکت ترین اپنی تر عدم دلچسپی کے ساتھ آئی ایم ایف کے ساتھ خانہ پری والے مذاکرات کر رہے ہیں۔ آئی ایم ایف مدد دے گا تو شرائط اتنی کڑی ہوں گیں کہ قوم خون کے آنسو روئے گی۔
دہشت گردی دوبارہ سے سر اٹھا رہی ہے۔ ہر روز تین چار پاکستانی سپاہی اور محافظ اس جنگ میں جان سے جاتے ہیں۔ یہ تعداد درجنوں اور سینکڑوں میں تبدیل ہو رہی ہے۔ وزیر داخلہ ہیں کہ کرکٹ دیکھنے کے لیے پلان بناتے رہتے ہیں۔
سرمایہ کاروں کے لیے پروپیگینڈا کے ذریعے جو دلکش اندرونی فلم بنائی تھی، کالعدم ٹی ایل پی کے احتجاج نے مسخ کر دی ہے۔ جس قوم کے بچوں کو والدین ممکنہ ہنگاموں کے پیش نظر دارالخلافہ کے سکولوں سے گھنٹوں پہلے چھٹی کروا کر اپنے گھروں کو واپس لے جائیں وہاں پر بیرونی سرمایہ کار کیوں کر اور کیسے آئے گا؟ یہ سب باتیں پالیسی بنانے والوں کو بھی پتہ ہیں۔ مگر چونکہ ان کے پاس کوئی جواب نہیں ہے لہذا انہوں نے بے پر کی اڑانی شروع کر دی ہیں۔
سٹیٹ بینک کے گورنر کا بیان کہ روپے کی گرتی ہوئی ساکھ بیرون ملک پاکستانیوں کے لیے خوشخبری ہے اب ہر طرف بطور مذاق دہرایا جا رہا ہے۔ ان صاحب کو ہم نے سرحد پار سے بلا کر سٹیٹ بینک کا گورنر بنا دیا۔ یہ جاننا بھی دلچسپ ہو گا کہ ان کی تنخواہ کتنی ہے اور آئی ایم ایف میں واپس جا کر نوکری کرنے پر ان کو ڈالرز میں کتنی آمدنی ہو گی؟ بہرحال ان کا بیان ایک استعارہ ہے جو معیشت کو چلانے والوں کی بےبسی اور کمزور مہارت کو اختصار سے بیان کرتا ہے۔
خارجہ اور دفاعی محاذ بھی بنجر ہیں۔ مجال ہے کہ کہیں کوئی سبزہ اگا ہوا نظر آئے۔ سال بعد الیکشن سر پر ہوں گے۔ ترقیاتی فنڈز کا اجرا ممکن نہیں۔ جن کے خزانے خالی ہوں وہ سیاسی مجبوری کے تحت بھی پیسے نہیں لٹا سکتے۔ اب چند ماہ بعد انتخابات لڑنے والے وزیر اعظم ہاؤس کے در پر سوالی بن کر اکٹھے ہونا شروع ہوں گے تاکہ ان کو اپنے اپنے حلقوں میں کام کروانے کے لیے کچھ مدد مل سکے۔ مدد دینے سے قاصر وزیر اعظم اپنی وقعت کھو دیتا ہے۔
انتخابات لڑنے والے مقابلے کے دنوں میں بدلحاظ ہو جاتے ہیں۔ وہ اسی طرف رخ کریں گے جہاں سے ان کو انتخابی معرکے جیتنے کا امکان نظر آئے۔ ایم کیو ایم اور پاکستان مسلم لیگ ق نے مہنگائی پر جو بیانات دیے ہیں ان کو آپ نئی سیاسی فلم کا ٹریلر سمجھیں۔ اگر حکومت سے دانہ پانی نہیں ملے گا اور مرکز کی ناکامیاں مقامی سیاسی ہار جیت پر اثر انداز ہوں گیں تو ہر کوئی ہاتھ چھوڑ کر اپنی اپنی راہ لے گا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یہ تو ہوئی حالات کی مجبوری۔ مگر یہاں تک پہنچنے کے لیے حکومت نے خود سر توڑ کوشش بھی کی ہے۔ اپنے مخالفین کے خلاف جتنی توانائیاں اس حکومت نے صرف کی ہیں اگر ان کا آدھا معاشی صورت حال کو مسلسل بحال کرنے میں صرف کیا جاتا تو آج کہنے سننے کو کچھ خوشگوار باتیں موجود ہوتیں۔ باقی وقت احتساب کی پینگ پر جھولتے ہوئے ضائع کر دیا۔
خارجہ و دفاعی امور پر اجلاسوں کی تفصیل کا ایک چارٹ بنا لیں اور شہزاد اکبر کے ساتھ ملاقاتوں کی فہرست مرتب کر لیں آپ کو پتہ چل جائے گا کہ وزیر اعظم ہاؤس کا جھکاؤ کس طرف رہا۔ مگر احتساب کی پٹاری میں سے کچھ نہیں نکلا صرف شرمندگی کا سامنا ہی رہا۔
براڈ شیڈ سکینڈل ہو یا جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو گرانے کے لیے نام نہاد تحقیقات، شہباز شریف اور خاندان کے خلاف اثاثوں کے مقدمے اور برطانیہ میں تحقیقات ہوں یا اسحاق ڈار و نواز شریف کو ملک واپس لانے کے عزائم، سب کچھ ڈھیر ہو گیا۔ اربوں روپے ضائع کیے، ایک ٹکا حاصل نہ کیا۔
میری معلومات کے مطابق مقتدر حلقے تقریباً ایک سال سے عمران خان حکومت کو احتسابی معرکوں سے بچنے کا مشورہ دے رہے ہیں مگر عثمان بزدار پر دیے گئے مشوروں کی طرح یہ سب بھی ہوا میں اڑا دیے گئے۔ ہر بار یہی جواب سننے کو ملا کہ ’میں ان کو نہیں چھوڑوں گا‘۔ اب حالت یہ ہے کہ حالات سے تنگ آ کر حکومت چھوڑنے یا جلد انتخابات کرنے کی باتیں کی جا رہی ہیں۔
ڈی جی آئی ایس آئی کے نوٹیفکیشن پر تنازعے کو اصول پسندی کی مثال بنا کر عوام میں اپنی ساکھ کو بچانے کی تدابیر زیر غور ہیں۔ خود کو کچوکے لگا گر لہو لہان کیا اور اب شہادت کا رتبہ پانے کی جہدوجہد کرنا چاہ رہے ہیں۔ پچھلے تین سال اور موجودہ حالات چیخ چیخ کر گواہی دیتے ہیں کہ جب آپ تاریخ پر حاوی ہونے کی کوشش کرتے ہیں تو ناکامی مقدر بن جاتی ہے۔
کہنے کو ابھی بھی تدبیر اور اصلاح کی گنجائش موجود ہے مگر حقیقت میں اب پانی سر سے اوپر آ گیا ہے۔ سونامی الٹ پڑی ہے۔ اب دیکھتے ہیں کہ اس مرتبہ یہ کہاں گر کر تباہی مچاتی ہے۔
نوٹ: یہ مضمون مصنف کی ذاتی رائے پر مبنی ہے، ادارے کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔