مقتول فوجی افسر کی والدہ ’سات دن بیٹا تلاش کرتی رہیں‘

مقتول سیکنڈ لیفٹننٹ کے والد لیاقت علی کے مطابق عثمان کی لاش ملنے سے قبل ہی ان کی والدہ ذہنی دباؤ کا شکار ہوگئی تھیں، وہ محلے میں گھر گھر جا کر ایک ایک کمرے اور الماری میں اپنے بیٹے کو تلاش کرنے لگیں۔‘

 نوجوان فوجی افسر جوائننگ کے لیے نیا یونیفارم لائے جو وہ پہن نہ سکے(تصویر: بشکریہ دوست علی)

پنجاب کے جنوبی شہر بھکر میں کلور کوٹ کے رہائشی سیکنڈ لیفٹیننٹ عثمان لیاقت کو قتل کرنے کے جرم میں گرفتار ملزم سے تفتیش جاری ہے۔

پولیس کے مطابق ملزم نے دوران تفتیش اقبال جرم کیا اور قتل کی وجہ مقتول کے چھوٹے بھائی حمزہ سے دوستی ختم کرانے پر رنج بتائی تھی۔

نوجوان فوجی افسر جوائننگ کے لیے نیا یونیفارم لائے جو وہ پہن نہ سکے اور ان کا سامان بھی آدھا پیک پڑا ہے۔

مقتول کی والدہ صدمے سے ذہنی دباؤ کا شکار ہیں اور سات دن تک بیٹے کو لوگوں کے گھروں میں جا کر ایک ایک کمرے میں تلاش کرتی رہیں۔

اہل علاقہ کا کہنا ہے کہ کلور کوٹ میں اس سے پہلے بھی اسی طرح ایک نوجوان قتل ہوا تھا لیکن اس کے قاتلوں کوعبرت ناک سزا نہیں مل سکی، عثمان کا معاملہ اس لیے زیادہ سنجیدہ ہوا کہ وہ پاکستانی فوج میں افسر بن چکے تھے۔

پوسٹ مارٹم اور ابتدائی تفتیش:

ڈسٹرکٹ پولیس افسر( ڈی پی او) بھکر رانا محمد طاہر نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ ہائی پروفائل کیس ہے، ملزم محمد تصور کو ہراست میں لے لیاگیا ہے جب کہ عثمان کا پوسٹ مارٹم بھی کرا لیا ہے جس کے مطابق انہیں سر میں گولی مار کر تھل نہر میں بہا دیاگیاتھا۔ 17اکتوبر کو انہیں نہر میں بہایاگیا اور سات دن بعد ان کی لاش برآمد ہوئی، جسم پانی کی وجہ سے پھول چکاتھا۔‘

ڈی پی او کے بقول ابتدائی تفتیش میں ملزم نے بیان دیا ہے کہ انہوں نے صرف حسد میں قتل نہیں کیا بلکہ ان کی عثمان کے چھوٹے بھائی حمزہ لیاقت سے بہت قریبی دوستی تھی لیکن عثمان اپنے بھائی کوملزم تصور سے دور رہنے پر مجبور کرتے تھے لہذا ملزم کو رنج تھا کہ وہ فوجی افسر بننے کے بعد ان کی دوستی میں مداخلت کرتے ہیں۔

’اس لیے جب وہ کٹنگ کرانے گئے تو ملزم نے بہانے سے انہیں موٹر سائیکل پر بٹھایا اور پھر اسے چلانے کا کہا۔ تھل نہرکے قریب جا کر ان کے سر میں گولی ماری اور نہر میں پھینک دیا۔ ملزم نے عثمان کا موبائل فون بھی نالے میں پھینکا گیا جو برآمد کر لیا گیا ہے۔‘

ان کے مطابق ابھی تفتیش جاری ہے، معلوم کر رہے ہیں کہ وارادت اکیلے ملزم نے کی یا کسی اور نے بھی مدد کی۔

مقتول کے والد لیاقت علی نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہاکہ ان کے بیٹے کے گھر سے جانے کےتین گھنٹے بعد انہوں نے انہیں فون کیے، فون پر بیل جارہی تھی لیکن اٹینڈ نہیں ہورہا تھا۔

’اس کے بعد تلاش شروع کی اور پولیس کو اطلاع دی اور کچھ دیر میں فوج کو بھی علم ہوگیا انہوں نے بھی فوری کچھ اہلکار بھجوائے جنہوں نے پولیس کے ساتھ تلاش میں مدد کی۔‘

لیاقت علی کے مطابق ’ملزم جس کا تھانے کے سامنے بہت بڑا ہوٹل ہے اور جس کی میرے بیٹے عثمان اور حمزہ سے کرکٹ کھیلنے کے لیے دوستی تھی، وہ بھی آیا اور ہمارے ساتھ تلاش میں شریک رہا۔ پھر بازار میں لگے سی سی ٹی وی کیمروں کی ویڈیو دیکھنے کے بعد پولیس کوپتہ چلا کہ وہ تو تصور کے ساتھ ہی موٹر سائیکل پر جاتا دکھائی دے رہا تب اسے پکڑ کر پوچھ گچھ ہوئی تو اس نے بتایاکہ عثمان کو اس نے نہر میں دھکا دیاہے۔‘

’پھر نہر بند کرائی گئی اور پولیس، فوج کے اہلکاروں سمیت اہل علاقہ نے پوری نہر چھان ماری لیکن سات دن بعد میرے بیٹے کی لاش ملی تو پورے علاقے میں کہرام مچ گیا۔‘

واقعہ کے فیملی اور اہل علاقہ پر اثرات:

لیاقت علی نے بتایاکہ ’مبینہ قتل ہونے والے فوجی افسر عثمان کی لاش ملنے سے قبل ہی ان کی والدہ ذہنی دباؤ کا شکار ہوگئی تھیں انہوں نے اپنے ہونہار بیٹے کی گمشدگی کا اتنا ذہنی اثر لیا کہ وہ محلے میں گھر گھر جا کر ایک ایک کمرے اور الماریوں میں اپنے بیٹے کو تلاش کرنے لگیں۔ چند دن پہلے تو اس نے اپنی ماں کو گھر میں پریڈ کر کے فوجی سلیوٹ مارے تھے جس کی ویڈیو بھی وائرل ہوئی، وہی بیٹا جب لاپتہ ہوا تو وہ برداشت نہیں کر سکیں ہمارے خوشیوں بھرے گھر میں اچانک افسردگی اور خوف سا چھاگیا،ہر طرف اندھیرا دکھائی دیا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

لیاقت علی نے مزید بتایا ’عثمان واقعے سے ایک دن پہلے اسلام آباد سے نیا یونیفارم لایاتھا، میرے پاس پیسے نہیں تھے، اس کا اے ٹی ایم کارڈ یہاں چل نہیں رہا تھا تو کسی سے ادھارپکڑ کر اسے پیسے دیے، اسے نیا یونیفارم پہننا بھی نصیب نہ ہوا، ہم نے تو اس کی تنخواہ بھی نہیں لی۔‘

اہل علاقہ کے برادری سربراہ رانا ارشد نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہاکہ ’لیاقت علی کی چھوٹی سی بیکری ہے، غریب آدمی ہے، انہوں نے بہت محنت مشقت سے بچوں کو پڑھایا، جب عثمان فوج میں سلیکٹ ہوا تو پورے علاقے میں ایک خوشی کی لہر دوڑی کہ ہمارے علاقے کا نوجوان بھی ملکی فوج میں وطن کی حفاظت کرے گا۔‘

انہوں نے کہا کہ اسی طرح ایک نوجوان کچھ عرصہ پہلے بھی کلور کوٹ میں قتل ہوچکاہے لیکن اس کے قاتلوں کو عبرتناک سزا نہیں ملی، یہ تصور ایک آوارہ اور انڈر میٹرک لڑکا ہے، اس طرح کے کئی اوباش یہاں مختلف قسم کی سماجی برائیوں میں بھی ملوث ہیں۔‘

انہوں نے مطالبہ کیاکہ سیکنڈ لیفٹیننٹ عثمان کے قتل میں ملوث ملزم کو عبرت ناک سزا ملنی چاہیے تاکہ پورے علاقے کو سوگوار کرنے والا انسان اپنے کیے پر پچھتا سکے۔

پاکستان فوج کے مبینہ مقتول افسر سیکنڈ لیفٹیننٹ عثمان لیاقت کے والد نے کہا ہے کہ نو اکتوبر کو عثمان پاکستان ملٹری اکیڈمی سے 144 لانگ کورس ختم ہونے پر پاس آؤٹ ہوئے تھے اور وہ یونٹ جوائننگ سے پہلے چُھٹی پر گھر آئے تھے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان