کبھی انتہائی مہنگا بکنے والا چلغوزہ آج سستا کیسے ہو گیا؟

پاکستان میں مہنگائی کی شدید لہر جاری ہے لیکن ماضی کے برعکس اس مرتبہ موسم سرما کی بیش قیمت سوغات چلغوزے کی قیمتیں آسمان سے باتیں نہیں کریں گی۔

چلغوزوں کا میوہ صنوبر کے درخت میں ایک کون(  cone) میں پیدا ہوتا ہے۔ یہ کون اس قدر سخت ہوتا ہے کہ اس کو کھولنا اور اس سے میوہ نکال کر خوراک کے قابل بنانا مشقت بھرا اور مہارت کا کام ہے(  اے ایف پی/ فائل فوٹو)

پاکستان میں مہنگائی کی شدید لہر جاری ہے لیکن ماضی کے برعکس اس مرتبہ موسم سرما کی بیش قیمت سوغات چلغوزے کی قیمتیں آسمان سے باتیں نہیں کریں گی۔

اس سال چلغوزے کی قیمتیں زیادہ متوقع ہونے کے باوجود کاروباری طبقے کا کہنا ہے کہ قیمتیں 50 فیصد سے بھی نیچے گر گئی ہیں، جس سے ان کا کروڑوں روپے کا نقصان ہوا ہے اور کئی تاجر دیوالیہ ہو گئے ہیں۔

چلغوزوں کی قیمتوں میں کمی کی وجہ سے جہاں تاجر طبقہ متاثر ہوا ہے وہیں عوام میں خوشی کی ایک لہر دوڑ گئی ہے۔

لیکن کچھ ایسے عوامل موجود ہیں جن کی وجہ سے وثوق سے نہیں کہا جاسکتا کہ چلغوزے اس سال بھی مارکیٹ میں کم قیمت پر دستیاب ہوں گے۔

اس وقت سبزی اور پھلوں کی قیمت بہت اوپر چلی گئی ہیں، ایسے میں چلغوزے جیسا مہنگا میوہ کیوں کر سستا ہوگیا، عوام کے لیے یہ ایک اچنبھے والی بات ضرور ہے۔

چلغوزہ ہر سال موسم سرما میں پاکستان اور افغانستان سے ملکی و عالمی مارکیٹوں میں جاتا ہے۔ پاکستان میں چلغوزوں کا گڑھ چترال، شمالی وزیرستان اور سلسلہ کوہ سلیمان ہے، جہاں سے ملک کا 75 فیصد چلغوزہ مارکیٹوں تک جاتا ہے۔

افغانستان میں شمالی وسطی صوبے جیسے پکتیا، پکتیکا، کنڑ، خوست، لغمان اور نورستان چلغوزوں کی پیداوار کے لیے مشہور ہیں۔

چلغوزوں کی کھیپ پاکستان میں تین منڈیوں سے گزر کر عالمی منڈی تک جاتی ہے۔

شروع میں یہ میوہ بنوں میں واقع ایک منڈی تک جاتا ہے، جس کو’آزاد منڈی’ کہا جاتا ہے۔ آزاد منڈی سے یہ مال راولپنڈی کی منڈی تک جاتا ہے اور وہاں سے چین پہنچ جاتا ہے جہاں اس خطے میں چلغوزوں کی سب سے زیادہ مانگ ہے۔

تیسری منڈی چلاس کی ہے، جہاں سے صرف بلتستان اور ملحقہ علاقوں کے چلغوزے چین کو برآمد کیے جاتے ہیں۔

چلغوزے کی قیمتوں میں کمی کا سبب

قیمتوں میں 50 فیصد سے زائد کمی کی وجہ جاننے کے لیے انڈپینڈنٹ اردو نے افغانستان اور پاکستان میں چلغوزوں کے بیوپاریوں سے بات کی تو معلوم ہوا کہ اس سال تین عوامل نےانہیں نقصان پہنچایا، جس میں افغانستان میں مبینہ طور پر طالبان حکومت کی چین سے براہ راست چلغوزوں کی تجارت پاکستانی تاجروں کے لیے سب سے زیادہ نقصان دہ ثابت ہوا۔

چلغوزوں کا کاروبار کرنے والے وزیرستان کے رہائشی مطیع اللہ نے کہا کہ وہ اور ان کے کئی دیگر کاروباری دوست چلغوزوں کے کاروبار میں کروڑوں کا نقصان اٹھا چکے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پچھلے سال فی من چلغوزہ دو سے ڈھائی لاکھ میں بکتا تھا جب کہ اس سال اس کی فی من قیمت 65 ہزار سے ایک لاکھ تک ہے، اسی طرح فی کلو آٹھ ہزار سے کم ہوکر تین سے چار ہزار ہو گیا ہے۔

مطیع اللہ کے مطابق قیمتیں گرنے کی سب سے بڑی وجہ چین اور طالبان حکومت کے درمیان براہ راست چلغوزوں کی تجارت ہے۔

’طالبان حکومت نے چین کو براہ راست 45 ٹن چلغوزے پہنچائے جس کی وجہ سے ہمیں 80 فیصد تک نقصان ہوا۔ پاکستانی ڈیلرز اپنا سٹاک پورا نہ کر سکے۔‘

چونکہ چین میں چلغوزے براہِ راست پہنچ گئے اس لیے پاکستانی تاجروں کے پاس چلغوزوں کا زیادہ سٹاک پڑا رہ گیا، اور اسی وجہ سے طلب و رسد کے اصول کے تحت ان کی قیمت کم ہو گئی۔

مطیع اللہ نے مزید بتایا، ’چلغوزوں کے ڈیلرز مال لیتے وقت مرطوب یعنی نمی والے چلغوزے لیتے ہیں اور اسی وزن کے حساب سے پیسے دیتے ہیں لیکن جب مقررہ وقت میں تاخیر ہوتی ہے تو وہ راستے میں ہی خشک ہو جاتے ہیں، جس سے چلغوزوں کا وزن کم ہو جاتا ہے اور تاجروں کا نقصان ہوتا ہے۔‘

چلغوزہ ڈپلومیسی

حالیہ دنوں میں چین اور افغانستان کے وزرائے خارجہ کے درمیان ملاقات میں افغانستان نے چین کو باہمی تجارت کی پیشکش کی تھی اور افغانستان نے درخواست کی تھی کہ چین ان کے ساتھ خشک میوے خصوصاً چلغوزے کو چینی مارکیٹ تک رسائی دے۔

عالمی تجزیاتی رپورٹوں کے مطابق چین اور روس دونوں ایسے ممالک ہیں جو اپنے علاقوں میں اسلامک موومنٹ آف ازبکستان (آئی ایم یو) اور داعش کے خلاف جنگ میں کامیابی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔

اس حوالے سے انہیں کابل میں موجودہ حکمران طالبان کی حمایت درکار ہو گی۔ یہی وجہ ہے کہ چین تجارتی معاہدوں کے ذریعے طالبان کو دوستی کا پیغام دینا چاہتے ہیں۔

اور اسی حالیہ تجارتی معاہدے کے تحت چین افغانستان سے چلغوزے برآمد کرے گا اور چلغوزہ ڈپلومیسی کو فروغ دے گا۔

تاہم اس براہ راست تجارتی معاہدے سے پاکستان کے تاجروں کو نقصان ہوا ہے کیونکہ پاکستان کو سب سے زیادہ چلغوزے افغانستان سے آتت تھے اور ملک کے بڑے صارفین بین الاقوامی سطح پر تھے، جن میں سب سے بڑا خریدار چین تھا، جس کو اب اپنی مارکیٹ براہ راست مل گئی ہے۔

چلغوزے مہنگے کیوں ہوتے ہیں؟

چلغوزے کی قیمتوں میں کمی 90 کی دہائی کے بعد دیکھنے میں آئی ہے۔

2001 کے بعد اس کی قیمتیں اس وقت بڑھ گئیں جب دنیا کے بعض ممالک جیسے کہ چین، جرمنی، عرب ممالک اور بعض دیگر یورپی ممالک نے چلغوزوں کو ادویات میں استعمال کرنا شروع کیا۔

بیرونی سطح پر چلغوزوں کی مانگ میں اضافہ ہوا تو پاکستان اور افغانستان میں اس کی قیمتیں اس قدر بڑھ گئیں کہ عوام نے اس کو طنز کے طور پر محاوروں میں استعال کرنا شروع کیا۔

چلغوزے مہنگے ہونے کی دوسری بڑی وجہ یہ ہے کہ یہ درخت پاکستان کے دوردراز پہاڑی سطح پر اُگتے ہیں۔

تقریباً تین دہائی پہلے تک زیادہ تر کسان اس میوے کے حوالے سے زیادہ معلومات نہیں رکھتے تھے اور نہ ان کے پاس اس کو منڈی تک لے جانے کے وسائل تھے۔

تاہم جب انہیں اس میں کروڑوں اور اربوں روپے کا فائدہ نظر آیا، تو نہ صرف ’پائن نٹس‘ کی کھوج لگنا شروع ہوئی بلکہ اس کی چنائی کا کام بھی شروع ہوا۔

چلغوزوں کا میوہ صنوبر کے درخت میں ایک کون (cone) میں پیدا ہوتا ہے۔ یہ کون اس قدر سخت ہوتا ہے کہ اس کو کھولنا اور اس سے میوہ نکال کر خوراک کے قابل بنانا مشقت بھرا اور مہارت کا کام ہے۔

پہاڑی علاقوں کے کسان اور تاجر دو ماہ کے لیے پہاڑوں میں کیمپ لگا کر درختوں سے چلغوزوں کے کون اتارتے ہیں اور پھر ایک ڈنڈی جس کے اوپر درانتی نما آلہ لگا ہوتا ہے اس کے ذریعے ایک ایک کون کھولتے ہیں۔

کہا جارہا ہے کہ افغانستان کے پاس چلغوزے کون سے نکالنے کے لیے جدید مشینری ہے، یہی وجہ ہے کہ انہوں نے چین کو زیادہ مقدار میں چلغوزے فراہم کیے۔

چلغوزوں کے ایک پرانے بیوپاری عظمت علی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا، ’بنوں کی منڈی میں پاکستان اور افغانستان سے پہنچنے والے چلغوزوں سے الگ الگ حصے بنائے جاتے تھے۔

عالمی منڈی کے لیے سپریم کوالٹی کے چلغوزے الگ کیے جاتے ہیں۔ بہترین چلغوزہ افغانستان کا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بنوں منڈی میں ملکی مارکیٹ تک پہنچانے والے چلغوزوں کے مزید الگ حصے بنائے جاتے ہیں، جن میں خراب اوراچھی کوالٹی کو ملایا جاتا ہے۔

بعض اوقات زیادہ منافعے کے لیے چلغوزے کی گری میں خاص رنگ کی مٹی بھی ملائی جاتی ہے تاکہ اس کا وزن زیادہ ہو۔‘

عظمت علی نے کہا کہ اس سال قیمتیں کم ہونے کی ایک وجہ یہ ہے کہ چلغوزے کا کون، جس کے اندر چلغوزے ہوتے ہیں، کو پکنے میں دو سال کا عرصہ لگتا ہے، اور اسی حساب سے ایک سال قیمتیں زیادہ اور دوسرے سال کم رہتی ہیں۔

’صنوبر کے درخت میں ایک سال کون زیادہ اگتے ہیں جب کہ اگلے سال درخت کے دیگر حصوں پر کم کون اُگتے ہیں، جس کی وجہ سے پیداوار میں بھی کمی آ جاتی ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان