’سیوریج کا نظام درست ہونے تک پاکستان پولیو سے پاک نہیں ہو سکتا‘

کراچی کے گندے نالوں سے لیے گئے دس ماحولیاتی نمونوں میں پولیو وائرس کی تصدیق ہوئی ہے جبکہ شہر کی 403 کچی آبادیوں میں سے اکثر انہی گندے نالوں کے کنارے پر آباد ہیں۔

سندھ کچی آبادی اتھارٹی کے مطابق کراچی شہر میں 403 کچی آبادیاں ہیں جن کی اکثریت گندے نالوں کے کناروں پر واقع ہے (انڈپینڈنٹ)

ایک بڑے گندے نالے کے کنارے چند میلے کچیلے ننگے پیر بچے مٹی گوندھ کر کھلونے بنا رہے ہیں۔ نالے میں کالے رنگ کا سیوریج کا گندا پانی بہہ رہا ہے اور نالے کے کنارے پر پلاسٹک کی تھیلوں، کوڑے کرکٹ کا ڈھیر لگا ہوا ہے جبکہ نالے کے دونوں کناروں پر سیمنٹ کے بلاکوں کے گھر قطار میں بنے  ہوئے ہیں۔

یہ کراچی کی موسیٰ کالونی نامی کچی آبادی ہے جو 13 کلومیٹر لمبے گجر نالے کے کنارے پر واقع ہے۔

سندھ کچی آبادی اتھارٹی کے مطابق کراچی شہر میں 403 کچی آبادیاں ہیں جن کی اکثریت گندے نالوں کے کناروں پر واقع ہے۔

کراچی میونسپل کارپوریشن کے مطابق شہر میں دس بڑے نالے اور 38 چھوٹی نالیاں ہیں جو شہر بھر سے آ کر ان بڑے نالوں میں ملتی ہیں اور بڑے نالے سمندر میں جاتے ہیں۔ ماضی میں یہ برساتی نالے ہوا کرتے تھے شہر بھر سے بارش کا پانی سمندر لے جاتے تھے، مگر اب ان نالوں میں ملک کے سب سے بڑے شہر کے سیوریج کا پانی بہتا ہے اور بغیر کسے ٹریٹمنٹ کے سمندر میں جا گرتا ہے۔

صحت کے ماہرین کے مطابق یہ گندے نالے پولیو وائرس کے ذخائر کا کام کرتے ہیں اور ان نالوں کے آس پاس بستیوں کے ساتھ پورا شہر اور ملک پولیو وائرس کی زد میں ہے۔

انسداد پولیو سیل کی جانب سے ہفتے کے روز کو جاری کردہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کراچی میں لیے گیے ماحولیاتی نمونوں کے سروے میں دس سے زائد مقامات کے نمونوں میں پولیو وائرس کی تصدیق ہوئی ہے۔ یہ اب تک رپورٹ شدہ ماحولیاتی نمونوں میں سب سے زیادہ ہیں۔

یہ ماحولیاتی نمونے  گجر نالے جیسے نکاسی آب کے گندے پانی کے نالوں سے پولیو وائرس کی موجودگی جانچنے کے لیے حاصل کیے گئے تھے۔ رپورٹ کے مطابق کراچی کے گلشن اقبال، کورنگی، لانڈھی، بلدیہ، لیاقت آباد، سائٹ ایریا، اورنگی، صدر، گڈاپ، اور دیگر علاقوں سے لیے گیے نمونوں میں وائلڈ پولیو وائرس ٹائپ ون کی موجودگی کی تشخیص ہوئی ہے۔ یہ وہ وائرس ہے جو پاکستان میں عام ہے اور بچوں کی زندگیوں کو دیگر وائرس کے مقابلے میں زیادہ متاثر کرنے کا باعث بن رہا ہے۔

قومی ایمرجنسی آپریشنز سینٹر اسلام آباد کے مطابق اپریل میں پاکستان کے 12 بڑے شہروں، بمشمول کراچی، راولپنڈی، لاہور، پشاور، کوئٹہ، مردان، بنوں، وزیرستان، قلعہ عبداللہ، حیدر آباد، قمبر اور سکھر کے گٹر کے پانی کے نمونوں میں پولیو وائرس کی تصدیق ہوئی تھی۔

ماہرین کے مطابق کراچی کے گٹروں میں پولیو وائرس کی موجودگی کے ماحولیاتی نمونے اتنی بڑی تعداد میں سامنے آنا اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ شہر میں بچوں کی بڑی تعداد میں قوت مدافعت مطلوبہ معیار سے کم ہے، جو کسی وجہ سے پولیو قطروں سے محروم رہ گئے ہیں۔ پولیو قطروں سے محروم بچے نہ صرف اپنے لیے خطرہ ہیں بلکہ گٹر میں وائرس کے پھیلاؤ سے دوسرے بچوں کے لیے بھی خطرہ بن رہے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ادھر چند دن پہلے بین الاقوامی ادارۂ صحت نے خبردار کیا ہے کہ پاکستان کا پولیو پروگرام درست راستے پر نہیں جا رہا۔ ادارے کی ہنگامی کمیٹی نے مختلف ملکوں میں وائیلڈ پولیو وائرس ون (ڈبلیو پی وی ون) کی موجودگی کے ڈیٹا کا جائزہ لیا جس کے بعد اس کا کہنا تھا کہ کمیٹی ’کو ڈبلیو پی وی ون کے کیسوں میں اضافے پر سخت تشویش ہے، خاص طور پر پاکستان میں۔‘

کمیٹی نے مزید کہا کہ ملک کے کئی ایسے علاقوں میں بھی وائرس کی نشاندہی ہوئی ہے جو پولیو کے حوالے سے زیادہ خطرناک (ہائی رسک) علاقے نہیں ہیں۔

ایشیا پیسِفک پیڈایٹرک ایسوسی ایشن کے منتخب صدر ڈاکٹر اقبال میمن نے، جو 1975 سے بچوں کے امراض پر کام کر رہے ہیں، انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ پولیو وائرس کا گٹروں اور گندے پانے کے نالوں میں اتنی بڑی مقدار میں ملنا تشویشناک ہے۔ ’پولیو وائرس جس بچے میں موجود ہوتا ہے اس کے فضلے سے وائرس گٹر میں چلا جاتا ہے وہاں سے ہی نالوں میں آ جاتا ہے اور جب یہ نالے کچی آبادیوں سے گزرتے ہیں تب یہ وائرس پینے کی پانی میں گندے پانی ملنے سے گھروں میں پہنچتا ہے اور وہاں کے بچوں کو متاثر کرتا ہے۔ اس کے علاوہ ان کچی آبادیوں میں جب بچے نالے کے کنارے پر کھیل کھیلتے ہیں تو بھی یہ وائرس ان میں منتقل ہوجاتا ہے۔‘

ڈاکٹر اقبال میمن نے مزید کہا کہ ان کچی آبادیوں میں پینے کے پانی میں گندا پانی مل جاتا ہے تو وہاں سڑک پر جوس بیچنے والے، قلفی یا وہ چیزیں جس میں پانی کا استعمال ہوتا ہے، اور وہاں سے یہ وائرس بچوں میں پھیل سکتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ پولیو وائرس انسانی فضلے میں ہوتا ہے اور اگر پانی یا دیگر ذرائع سے انسانی فضلہ بچوں میں منہ کے ذریعے منتقل ہو جائے تو وائرس بچے کو متاثر کر سکتا ہے۔

ایک سوال کے جواب میں انھوں نے بتایا کہ خشک کوڑا کرکٹ میں وائرس نہیں ملتا مگر نمی والے کوڑے میں پولیو وائرس پایا جا سکتا ہے۔

انسداد پولیو رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نالوں اور گٹروں میں موجود پولیو وائرس کے ساتھ بچوں کو پلائی گئی پولیو ویکسین بھی ان کے پاخانے سے ان نالوں اور گٹروں میں آجاتی ہے اور وہاں موجود وائرس کو ختم کر دیتی ہے۔

ڈاکٹر اقبال میمن نے کہا کہ ایسا ہو سکتا ہے مگر گندے پانی میں موجود وائرس کی تعداد ویکسین سے کہیں زیادہ ہے جس وجہ سے ویکسین اثر نہیں کرتی اور نالوں میں موجود وائرس آس پاس کی آبادیوں کے لیے خطرہ بنا رہتا ہے۔

’ویکسین اس صورت میں نالے میں موجود وائرس کو ختم کر سکتی ہے جب پوری آبادی کے 90 فیصد بچوں نے ویکسین پی ہو مگر ہمارے یہاں تو صرف 50 فیصد بچے ویکسین لیتے ہیں۔‘

انسداد پولیو کے قومی ایمرجنسی آپریشنز سنٹر کے سابقہ کوآرڈینیٹر ڈاکٹر رانا محمد صفدر نے کہا کہ پاکستان میں اور خاص طور پر کراچی میں سیوریج کے ابتر نظام کے ٹھیک نہ ہونے تک ملک سے پولیو کا مکمل خاتمہ ممکن نہیں ہے۔ ’پاکستان میں گندے نالوں یا گٹروں میں موجود پولیو وائرس انتہائی خطرناک ہے، یہی وائرس ملک میں پولیو کے پھیلاؤ کا سبب ہے، کیوں کہ کراچی سمیت ملک کے بڑے شہروں میں پینے کے پانی کے پائپ گٹروں کے پانی سے مل جاتے ہیں جس سے پولیو وائرس ان گندے نالوں اور گٹروں سے گھروں میں پہنچ رہا ہے۔ اس لیے جب تک ہم اپنے سیوریج کے نظام کو مکمل طور پر جدید نہیں بناتے پاکستان سے پولیو کا خاتمہ ممکن نہیں ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ کراچی میں ماحولیاتی نمونوں میں وائرس کی موجودگی نہ صرف کراچی بلکہ ملک کے دیگر شہروں حتیٰ کہ دنیا بھر کے لیے خطرہ ہے کیوں کہ کراچی ایک بڑا شہر ہے جہاں نہ صرف دیگر شہروں سے بلکہ دیگر ممالک سے بھی لوگ آتے جاتے رہتے ہیں اور یہ وائرس اس طرح پوری دنیا میں پھیل رہا ہے۔ انھوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ حالیہ دنوں میں ایران کے سیستان بلوچستان صوبے میں رپورٹ ہونے والے پولیو کیس والے وائرس کا تعلق کراچی سے تھا۔

’اس کے علاوہ پاکستان میں پانچ سال سے کم عمر بچوں میں دست کی بیماری عام ہے اور جب بھی کسی بچے کو دست ہو تو پولیو ویکسین پالنے پر ویکسین ڈائریا کی وجہ سے بچے کے پیٹ میں نہیں ٹھہرتی جس وجہ سے پولیو مخالف مزاحمت نہیں رہتی اور وہ بچہ پولیو وائرس کی زد پر ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ بچوں میں خوراک کی کمی، کئی اقسام کے انفیکشن اور ویکسین سے انکار والے رجحان کے باعث پولیو کا خاتمہ ممکن نہیں۔‘

انسداد پولیو کے مطابق پاکستان میں حالیہ سال 2019 کے جنوری سے مئی تک پولیو کے 21 کیس رپورٹ ہو چکے ہیں، جن میں سندھ اور پنجاب میں تین تین کیس، خیبر پختونخوا میں نو اور فاٹا میں چھ کیس ہیں۔

پولیو کا وائرس پانچ سال کے عمر کے بچوں کو متاثر کرتا ہے جس کے باعث بچے عمر بھر کے لیے معذور ہو جاتے ہیں حتیٰ کہ بچوں کی موت بھی واقع ہو جاتی ہے۔ پانچ سال سے کم عمر بچوں کو پولیو قطرے پلا کر نہ صرف بچوں کو بلکہ ان سے دیگر بچوں میں پولیو وائرس کو پھیلانے سے بچایا جا سکتا ہے۔ بار بار پولیو قطرے پلانے سے پاکستان، افغانستان اور صومالیہ کو چھوڑ کر دنیا کے تمام ممالک پولیو سے پاک ہو چکے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی صحت