عدلیہ تحریک: بلوچستان بار کی جانب سے عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ

سپریم کورٹ بار کے سابق صدر علی احمد کرد کے مطابق لائحہ عمل طے کرنے کے لیے پاکستان بار کونسل کا اجلاس 8 جون کو طلب۔

2007 کی وکلا تحریک میں احتجاج کا ایک منظر (فائل فوٹو، روئٹرز )

سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور ہائیکورٹ کے دو ججز کے خلاف حکومتی ریفرنس پر سماعت کے لیے سپریم جوڈیشل کونسل کا اجلاس 14 جون کو طلب کرلیا گیا جس کے خلاف پاکستان بھر کے وکلا نے ریفرنس واپس لینے کے لیے تحریک چلانے کا اعلان کیا ہے۔

سوموار کو اس کا آغاز بلوچستان میں نظر آیا جہاں صوبے بھر میں وکلا نے عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ کیا اور عدالتیں خالی رہیں۔

عدلیہ کے سینئر ارکان کے خلاف حکومتی ریفرنس کے فیصلے کے بارے میں ماہرین قانون کا کہنا ہے کہ جسسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس کا کوئی جواز نہیں بنتا، بلکہ یہ ’سب ایک منصوبے کے تحت کیا جارہا ہے۔‘ 

سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی بحالی کے لیے چلنے والے تحریک کے روح رواں ممتاز ماہر قانون اور سپریم کورٹ بار کے سابق صدر علی احمد کرد کے مطابق ’چونکہ قاضی فائز عیسیٰ کا تعلق بلوچستان سے ہے ہمارا حق ہے کہ ہم یہاں سے آواز بلند کریں۔‘

انہوں نے کہا کہ سپریم جوڈیشنل کونسل میں ریفرنس کی سماعت کی تاریخ 14 جون بڑی عجلت میں مقرر کی گئی ہے۔ ان کے مطابق میڈیا میں کہا جا رہا ہے کہ قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ کی سپین میں کوئی جائیداد ہے، لیکن مزید تفصیل ابھی تک انہیں موصول نہیں ہوئی۔

انہوں نے بتایا کہ ریفرنس کی سنوائی سے قبل ہی پاکستان بھر کے وکلا نے لائحہ عمل طے کرنے کے لیے 8 جون کو پاکستان بار کونسل کا اجلاس طلب کیا ہے جبکہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے بھی 14جون کو ملک بھر کے وکلا کا اجلاس طلب کیا ہے جس میں آئندہ کا لائحہ عملے طے کیا جائے گا۔ 

واضح رہے کہ ایوان بالا سینٹ نے بھی گذشتہ دنوں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے اظہار یکجہتی کی قرارداد منظور کی جس میں کہا گیا کہ ’ججز کے خلاف ریفرنسز دائر کرنے پر ایوان تشویش کا اظہار کرتا ہے، یہ ریفرنس عدلیہ کی آزادی پر براہ راست حملہ ہے، ایوان عدلیہ کے معزز ججز کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتا ہے۔‘

سینٹ میں مسلم لیگ (ن) کے رہنما راجہ ظفر الحق کی پیش کی گئی قرارداد میں مطالبہ کیا گیا کہ حکومت معزز ججز کے خلاف ریفرنس واپس لے۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں علی احمد کرد نے کہا کہ بلوچستان کے وکلا کا یہ طرہ امتیاز رہا ہے کہ انہوں نے ہمیشہ پہلے قدم بڑھایا۔ ’اس بار بھی آپ دیکھ سکتے ہیں اس معاملے پر سب سے پہلے بلوچستان کے وکلا نے آوا ز بلند کی۔‘ 

انہوں نے مزید کہا کہ عید کے بعد 8 جون کو اجلاس ہوگا۔ ’ہم اپنا رول ادا کریں گے اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف کسی بھی ٹارگٹڈ ریفرنس کو کامیاب نہیں ہونے دینگے۔ ریفرنس کی سماعت سے قبل ہی ہم نے اپنی صفیں سیدھی کرلی ہیں۔ پہلے کی طرح اس عدلیہ بچاؤ تحریک میں علی احمد کرد پہلی صف میں ہونگے۔‘

دوسری جانب سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے بھی قاضی فائز عیسیٰ سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے ریفرنس کی مخالفت کی ہے۔ 

سوموار کو ایک پریس کانفرنس میں سپریم کورٹ بار اسوسی ایشن کے صدر امان اللہ کنرانی نے کہا کہ ریفرنس امتیازی سلوک اور بدنیتی پر مبنی ہے۔

انہوں نے کہا: ’ہم  سڑکوں پر تحریک نہیں چلائیں گے، بلکہ عدالتوں کو تالے لگائیں گے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان