عدالتوں پر دباؤ کا تاثر درست نہیں: چیف جسٹس

چیف جسٹس گلزار احمد نے ایک کانفرنس سے خطاب میں کہا کہ پاکستان میں عدلیہ آزاد ہے، اس آزادی پر سوال اٹھانے والے بتائیں کب کسی کی ہدایت پر کون سا فیصلہ کیا گیا۔

چیف جسٹس آف پاکستان گلزار احمد نے کہا ہے وہ ایک حلف کے پابند ہیں اور انہوں نے کبھی کسی ادارے کا دباؤ قبول نہیں کیا۔

’کسی میں یہ جرات نہیں کہ ہمیں ہدایات دے سکے، کسی کے محاسبے کا مقدمہ جب بھی سامنے آیا ہم نے آزادانہ فیصلے کیے۔‘

یہ کہنا تھا چیف جسٹس کا ہفتے کو لاہور میں دو روزہ عاصمہ جہانگیر کانفرنس کی افتتاحی تقریب سے خطاب میں۔

کانفرنس میں سینیئر قانون دانوں، سیاست دانوں، صحافیوں اور سول سوسائٹی کے ارکان نے شرکت کی۔

خطاب کے دوران چیف جسٹس نے مزید کہا کہ ’پاکستان میں عدلیہ آزاد ہے۔ اس آزادی پر سوال اٹھانے والے بتائیں کب کسی کی ہدایت پر کون سا فیصلہ کیا گیا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’یہ تاثر غلط ہے کہ عدالتیں آزاد نہیں اور اداروں کے دباؤ میں کام کر رہی ہیں۔

’ہم ایک حلف کے پابند ہیں۔ ہم نے کبھی کسی ادارے کا دباؤ نہیں قبول نہیں کیا اور نہ کبھی کسی کی بات سنی۔

’مجھے نہ کسی نے گائیڈ کیا اور نہ ہی میں نے ڈکٹیشن لی کہ میں اپنا فیصلہ کیسے لکھوں۔ میں نے کبھی کسی کے کہنے پر کوئی فیصلہ نہیں کیا اور نہ ہی کسی کو آج تک مجھے کچھ کہنے کی جرات ہوئی۔‘

چیف جسٹس سے قبل سینیئر وکیل رہنما علی احمد کرد نے اپنے خطاب میں عدلیہ پر اداروں کے دباؤ میں آ کر فیصلے دینے کا الزام لگایا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی عدلیہ کی رینکنگ عالمی سطح پر گرتی جارہی ہے اور اگر ایسے ہی چلتا رہا تو ملک میں نظام عدل سے لوگ بد دل ہوجائیں گے۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ ’عدلیہ کے اندر ایک واضح اور نمایاں تقسیم موجود ہے۔ ملک میں دانشور طبقے کا خاتمہ ہو چکا ہے اور چونکہ کوئی دانشور طبقہ موجود ہی نہیں تو چھوٹے قد کے لوگ بڑے عہدوں پر براجمان ہیں۔‘

چیف جسٹس نے علی احمد کرد کی گفتگو سے اختلاف کرتے ہوئے اپنی تقریر میں کہا کہ وہ آئیں اور دیکھیں کہ ان کی عدالتوں میں کتنی آزادی سے فیصلے ہو رہے ہیں اور قانون پر عمل درآمد ہو رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’کبھی کسی نے ہمارے کام میں مداخلت نہیں کی، میں نے ہمیشہ انصاف اورضمیر کے مطابق فیصلے کیے، عدالت جو فیصلہ کرنا چاہتی ہے کرتی ہے کسی کی مرضی سے نہیں کرتی۔

’آج تک کسی کی ہمیں روکنے کی ہمت نہیں ہوئی، لوگوں میں غلط فہمیاں پیدا نہ کریں، انتشار نہ پھیلایا جائے اور اداروں پر اعتماد ختم نہ کریں، ثبوت کے ساتھ بتائیں کس کی ڈکٹیشن پر کون سا فیصلہ ہوا؟‘

جسٹس گلزار احمد نے مزید کہا ’سپریم کورٹ، ہائی کورٹس، ماتحت عدالتوں کے سارے جج محنت سے کام کرکے عوام کو انصاف فراہم کررہے ہیں۔

’ساری عدلیہ تندہی سے لوگوں کے فیصلے کررہی ہے، عدالتیں بغیر کسی دباؤ کے کام کررہی ہیں۔

’جو بدگمانی پھیلاتے ہیں انہیں عدالتوں کے فیصلے پڑھنے چاہییں۔ ہم بغیردباؤ کے کام کرتےہیں اور کرتے رہیں گے۔ 

انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان میں قانون کی حکمرانی ہے انسانوں کی نہیں، ملک میں آئین و قانون اور جمہوریت کی حمایت کرتے رہیں گے، کسی بھی غیر جمہوری سیٹ اپ کو قبول نہیں کریں گے۔ اگر دباؤ ڈالاجائے گا توہم عہدہ چھوڑ دیں گے جو پہلے بھی چھوڑا ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے چیف جسٹس سے پہلے اپنی تقریر کے دوران علی احمد کرد کی تقریر کے کچھ نکات سے اتفاق کیا۔

جسٹس من اللہ نے علی احمد کرد سے اظہار تشکر کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ جاننا ہمارے لیے بہت ضروری ہے کہ بار اور لوگ ہمارے بارے میں کیا سوچتے ہیں۔‘

انہوں نے کہا: ’میں علی احمد کرد کو یقین دلاتا ہوں کہ کوئی بھی جج جو آزاد ہے وہ کبھی یہ عذر پیش نہیں کر سکتا کہ اس پر دباؤ ڈالا یا متاثر کیا جا سکتا ہے۔ ایسا کوئی بھی عذر حلف کی خلاف ورزی ہے۔‘

کانفرنس کی افتتاحی تقریب سے جسٹس قاضی فائزعیسیٰ سمیت دیگر شخصیات نے بھی خطاب کیا۔

ہال میں وکلا نے عدلیہ کی آزادی کے حق میں نعرے بازی بھی کی۔

کانفرنس میں دنیا بھر سے 120ماہرین افغانستان کی صورتحال اور اس کے اثرات ،خواتین کے خلاف تشدد ، مذہبی آزادی ، پاکستان میں جمہوریت کو برقرار رکھنے میں درپیش مشکلات و دیگر موضوعات پر خطاب کریں گے ۔

سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے بھی تقریب میں شرکت کی لیکن انہوں نے خطاب نہیں کیا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان