کیا وراٹ کوہلی اور روہت شرما میں واقعی اختلافات ہیں؟

وراٹ کوہلی نے ایک پریس کانفرنس میں روہت شرما کے ساتھ اختلاف کی رپورٹس کو ’ذہنی اختراع‘ قرار دیا ہے، ساتھ ہی ساتھ انہوں نے بتایا کہ انہیں صرف ڈیڑھ گھنٹہ پہلے ون ڈے ٹیم کی کپتانی سے ہٹائے جانے کے بارے میں بتایا گیا۔

چھ جولائی 2019 کو  انگلینڈ کے لیڈز  کرکٹ گراؤنڈ میں  سری لنکا اور بھارت کے درمیان  کرکٹ ورلڈ کپ کے گروپ مرحلے کے میچ میں  بھارت کی جیت کے بعد  کپتان ویرات کوہلی (بائیں)  اور روہت شرما (دائیں) کا ایک انداز (فائل فوٹو: اے ایف پی)

بھارتی کرکٹ ٹیم میں کپتانی کا مسئلہ اتنا ہی پرانا ہے جتنی بھارتی کرکٹ۔ ہر دور میں کپتان بنائے جانے اور ہٹائے جانے کا عمل پسند نا پسند سے مشروط رہا ہے۔

اب وراٹ کوہلی بھی اس تاریخ کا حصہ بن گئے ہیں۔ کبھی وہ بھارت کے ہر فارمیٹ کے کپتان اور مطلق العنان قائد تھے۔ وہ اپنی مرضی کے کھلاڑیوں کے ساتھ کوچ بھی تبدیل کرلیتے تھے۔

بھارتی کرکٹ کی تاریخ میں من مانی کرنے والے کپتان سوراو گنگولی کو سمجھا جاتا ہے، جن کی مرضی سے بورڈ قدم اٹھاتا تھا لیکن جب کوہلی کو کپتانی ملی تو وہ ان سے زیادہ بااختیار ہوگئے۔

اب شومئی قسمت دو ایسے لوگ آمنے سامنے ہیں جن کو اپنی بات منوانے کی عادت ہے۔

کوہلی کو دھچکہ

کوہلی ایک کامیاب بلے باز اور متعدد ریکارڈز کے حامل ہیں۔ ان کی بہت ساری ایسی اننگز ہیں جو بھارت کی جیت کا سبب بنی ہیں، لیکن اب وہ وقت بھی آگیا ہے کہ کوہلی سے گذشتہ دو سال میں کوئی سنچری نہیں بن سکی ہے۔

ٹیسٹ کرکٹ میں بہترین اعدادوشمار کے حامل کوہلی نے ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میں ناکامیوں کے بعد کپتانی چھوڑنے کا اعلان کیا تھا، جس نے شائقین کو حیران نہیں کیا تھا کیونکہ معمولی کارکردگی کے ساتھ وہ زیادہ دن ساتھ نہیں چل سکتے تھے لیکن کوہلی کو دھچکہ اس وقت لگا جب انہیں ون ڈے کی کپتانی سے اچانک فارغ کردیا گیا۔

وہ جنوبی افریقہ کے دورے پر جانے کے لیے تیار تھے اور ٹیسٹ ٹیم کا اعلان کیا جانا تھا کہ انہیں مطلع کیا گیا کہ وہ ون ڈے کی کپتانی سے ہٹا دیا گیا ہے۔ یہ ایک ایسا فیصلہ تھا کہ جس کے لیے کوئی رائے نہیں لی گئی اور نہ ہی مشورہ کیا گیا، بلکہ ان کی جگہ روہت شرما کو کپتان مقرر کردیا گیا۔

بھارت جنوبی افریقہ میں تین ٹیسٹ میچوں پر مشتمل سیریز کھیلے گا، جس کا آغاز 26 دسمبر سے ہوگا جبکہ 19 اور 23 جنوری کے درمیان تین ون ڈے میچز کھیلے جائیں گے۔

کوہلی اور روہت شرما میں اختلافات

دونوں کھلاڑیوں میں اختلافات کی خبریں گذشتہ دو سال سے ہیں۔ ان کے اختلافات کو تقویت گذشتہ ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ میں پاکستان سے میچ کے بعد ایک سوال کے جواب پر بھی ملی تھی جب راقم الحروف نے روہت شرما کو ڈراپ کرنے کے بارے میں پوچھا تھا اور کوہلی نے اس سوال پر سخت ردعمل دیا تھا۔

روہت شرما نے جنوبی افریقہ کے خلاف ٹیسٹ ٹیم میں شمولیت سے جب معذرت کرلی تو کوہلی سے اختلاف کی خبروں میں جان پڑ گئی کہ وہ اب کوہلی کی کپتانی میں نہیں کھیلیں گے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دوسری طرف بھارتی بورڈ کے خزانچی نے بیان دیا کہ کوہلی ایک روزہ میچوں کی سیریز سے بریک لینا چاہتے ہیں، جس کے کپتان روہت شرما ہیں۔ اس خبر سے بھارتی میڈیا میں دونوں کے اختلافات کی خبروں نے مزید زور پکڑ لی۔

ان خبروں کے بعد گذشتہ روز وراٹ کوہلی نے ایک پریس کانفرنس میں تردید کی کہ وہ ون ڈے سیریز کے لیے دستیاب نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ دستیاب بھی ہیں اور کسی کی بھی کپتانی میں کھیل سکتے ہیں۔ بھارت کے لیے کھیلنا ان کے لیے اعزاز ہے۔

انہوں نے اپنے اور روہت شرما کے درمیان کسی بھی اختلاف کو ’ذہنی اختراع‘ قرار دیا اور ساتھ ہی کہا کہ ’ٹیسٹ ٹیم میں ان کی کمی محسوس ہوگی۔‘

روہت شرما نے خود کو زخمی ڈیکلئیر کیا ہوا ہے، لیکن 19 جنوری سے شروع ہونے والی ون ڈے سیریز تک اگر شرما ٹھیک ہوجاتے ہیں تو پھر یقینی طور پر دال میں کالا ہے۔ شاید روہت کوہلی کی کپتانی میں نہیں کھیلنا چاہتے ہیں۔

’مجھے ڈیڑھ گھنٹے پہلے بتایا گیا‘

کپتانی سے ہٹائے جانے کے بارے میں کوہلی نے کہا کہ ’چیف سلیکٹر چیتن شرما نے ٹیسٹ ٹیم کا اعلان کرنے سے ڈیڑھ گھنٹے قبل مجھ سے رابطہ کیا اور ٹیم ڈسکس کرنے کے بعد کال ختم کرنے سے پہلے ون ڈے کی کپتانی سے ہٹانے کی اطلاع دی، جس پر میں نے کہا کہ مجھے اس پر کوئی مسئلہ نہیں ہے۔‘

کیا کوہلی کو کپتانی جانے کی اطلاع تھی؟

وراٹ کوہلی کو شاید ان افواہوں پر یقین نہ ہو جو کئی ماہ سے گردش کررہی تھیں کہ بورڈ اب ان کو ہٹانا چاہتا ہے لیکن اس طرح ہٹانے پر وہ ششدر رہ گئے۔

وہ جانتے ہیں کہ بورڈ کے صدر گنگولی محدود دورانیے کی کرکٹ میں ایک کپتان چاہتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ٹی ٹوئنٹی کے بعد ون ڈے کی کپتانی سے بھی ہاتھ دھونا پڑگئے، لیکن اصل بات یہ ہے کہ کوہلی کے اختیارات اب بہت محدود ہوگئے ہیں۔ وہ صرف ٹیسٹ ٹیم کے کپتان ہیں جس کا مستقبل بھی مخدوش نظر آرہا ہے۔ اگرچہ ٹیم کا مجموعی ریکارڈ اچھا ہے لیکن کوہلی خود رنز نہیں کر پا رہے ہیں۔

بھارتی ٹیم میں کپتانی کرنا فخر کی بات ہے لیکن یہ کانٹوں کی سیج ہے جس میں بڑے مہان کھلاڑی بھی ناکام ہوجاتے ہیں۔

کیا کوہلی اپنی کپتانی ٹیسٹ ٹیم میں بچا سکیں گے یا پھر وہاں سے بھی قسمت کی دیوی روٹھ گئی ہے۔ اس کا فیصلہ تو آنے والا وقت کرے گا لیکن دو بڑے کھلاڑیوں کے درمیان اختلافات اب حقیقت بن کر سامنے آگئے ہیں اور یہی بھارتی ٹیم کی ناکامیوں کا آغاز بھی ہوسکتا ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی کرکٹ