اسلامی ممالک کے درمیان تعاون کی تنظیم او آئی سی کا منشور کیا ہے؟

تنظیم تعاون اسلامی اقوام متحدہ کے بعد دنیا کی دوسری بڑی بین الحکومتی تنظیم ہے جس کے آئندہ اجلاس منعقدہ پاکستان میں کل اسلامی ممالک کے وزرا خارجہ کے علاوہ، امریکہ، چین، روس، یورپی یونین، بین الاقوامی مالیاتی اور امدادی اداروں کے نمائندے شرکت کر رہے ہیں۔

او آئی سی میں 57 ممالک شامل ہیں جن کی مجموعی آبادی دو ارب کے قریب ہے (تصویر:فارن آفس پاکستان)

پاکستان کے دارلحکومت اسلام آباد میں کل آئی سی سی کی کونسل آف فارن منسٹرز کا غیر معمولی اجلاس منعقد ہو رہا ہے جہاں افغانستان میں معاشی اور انسانی بحران پر گفتگو ہو گی۔

اجلاس میں اسلامی ممالک کے وزرا خارجہ کے علاوہ، امریکہ، چین، روس، برطانیہ، فرانس، جرمنی، یورپی یونین، بین الاقوامی مالیاتی اور امدادی اداروں کے نمائندے شرکت کر رہے ہیں۔

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے مطابق کانفرنس میں شرکت کے لیے 437 ڈیلیگیٹس رجسٹریشن کروا چکے ہیں جب کہ آج اسلامی ممالک کے سینیئر حکام اتوار کو ہونے والے وزرا خارجہ کے اجلاس کا ایجنڈا طے کریں گے۔

تنظیم تعاون اسلامی کب بنی

تنظیم تعاون اسلامی (او آئی سی) اقوام متحدہ کے بعد دنیا کی دوسری سب سے بڑی بین الحکومتی تنظیم ہے۔

مسلم علما اور مدبرین کی جانب سے عالمی اسلامی تنظیم کے تصور پر دہائیوں تک جاری والے غوروخوض کے بعد اس کی بنیاد 1969 میں ایک چارٹر کے ذریعے رکھی گئی اور اس تنظیم کا صدر مقام سعودی عرب کے شہر جدہ میں قائم ہے۔

او آئی سی میں 57 ممالک شامل ہیں جن کی مجموعی آبادی دو ارب کے قریب ہے۔

او آئی سی اپنے رکن ممالک سمیت دنیا بھر کے مسلمانوں کو لاحق باعث تشویش مسائل حل کرنے کے لیے بین الاقوامی میکنزم بشمول اقوام متحدہ کا ہر خصوصی ادارہ، حکومتوں، اور سول سوسائٹی کی تنظیموں کی شراکت دار ہے۔

2005 میں او آئی سی نے دہشت گردی، اسلاموفوبیا، ناقص طرز حکمرانی، اور اقتصادی عدم مساوات سمیت مسائل سے نمٹنے کے لیے 10 سالہ منصوبے کی منظوری دی۔ او آئی سی بین الاقوامی طور پر انسانی امداد کے لیے بھی سرگرم ہے۔ تنظیم نے 2008 میں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امدادی  تنظیموں کی سرگرمیوں کو مربوط کرنے کے لیے اسلامی تعاون کے انسانی امور کا محکمہ (آئی سی ایچ اے ڈی) قائم کیا۔ بعد ازاں او آئی سی نے 2011 میں صومالیہ میں تباہ کن قحط کے جواب میں 40 سے زیادہ اسلامی امدادی اور سول سوسائٹی کی دوسری تنظیموں کے ذریعے پورے ملک میں امدادی سامان کی فراہمی کا اہتمام کیا۔

2018 میں اوآئی سی ممالک کا ترکی کے شہر استنبول میں اجلاس ہوا جس کا مقصد ہلال احمر اور ریڈ کراس کی قومی سوسائٹیوں کے درمیان  نیٹ ورک قائم کا قیام تھا تاکہ انسانی مسائل کے حل سمیت تنظیم کے رکن ممالک میں انسانی مشکلات انتہائی موثر انداز میں کم کی جا سکیں۔ مسلم ممالک کے درمیان بعض اختلافات کے باوجود او آئی سی نے طویل المدت ترقیاتی منصوبوں سے متعلق اپنی سرگرمیوں اور امداد سمیت صحت، تعلیم اور زراعت کے شعبوں میں اقدامات کے ذریعے ان ملکوں کو متاثر کیا ہے۔

او آئی سی کا پہلا سربراہی اجلاس 1969 میں مقبوضہ بیت المقدس میں مسجد اقصیٰ کو نذر آتش کرنے پر مسلمانوں کے عالمی غصے کے بعد مراکش کے دارالحکومت رباط میں ہوا تاکہ اس واقعے کے نتائج کے حوالے سے فیصلے کیے جا سکیں۔

یہ رباط سمٹ ہی تھی جس نے ثابت کیا کہ یہ صرف عرب دنیا کا مسئلہ نہیں بلکہ عالم اسلام کا بھی مسئلہ ہے۔ رباط کانفرنس نے 1967 کی عرب اسرائیل جنگ میں عربوں کی شکست کے بعد ان کے حوصلے بلند کرنے میں مدد کی۔

او آئی سی وزرائے خارجہ کا پہلا اجلاس 1970 میں جدہ میں ہوا جس میں تنظیم کے سیکرٹری جنرل کی سربراہی میں جدہ میں ایک مستقل سیکرٹریٹ قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ ڈاکٹر یوسف احمد العثیمین 11ویں سیکرٹری جنرل ہیں جنہوں نے نومبر 2016 میں عہدہ سنبھالا۔

او آئی سی کی وزرائے خارجہ کونسل کا پہلا غیر معمولی اجلاس بھی اسلام آباد میں جنوری 1980 میں منعقد ہوا تھا جس میں افغانستان کی صورت حال پر غور کیا گیا۔ پاکستان میں او آئی سی کا اس طرح کا دوسرا اجلاس 2007 میں ہوا تھا۔

او آئی سی کا چارٹر

اوآئی سی کے منشور میں رکن ممالک کے درمیان بھائی چارے اور یکجہتی کا فروغ اور استحکام دینا شامل ہے۔

 مشترکہ مفادات کا تحفظ اور رکن ممالک کے جائز مقاصد کی حمایت  اور عالم اسلام کو بالخصوص اور عالمی برادری کو درپیش چیلنجوں کے پیش نظر رکن ممالک کی کوششوں کو مربوط اور متحد کرنا بھی اس کے منشور کا حصہ ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

 او آئی سی حق خود ارادیت اور ملکی معاملات میں عدم مداخلت، ہر رکن ریاست کی خودمختاری، آزادی اور علاقائی سالمیت کا احترام  اورمشترکہ مفادات کو محفوظ بنانے کے لیے عالمی سیاسی، اقتصادی اور سماجی فیصلہ سازی کے عمل میں رکن ممالک کی فعال شرکت کو یقینی بنانا بھی تنظیم کے مقاصد میں شامل ہے۔

او آئی سی اقوام متحدہ کے چارٹر اور بین الاقوامی قانون کے مطابق انسانی حقوق کے لیے حمایت کی تصدیق، بین الاسلامی اقتصادی اور تجارتی تعاون کو مضبوط کرنا، اقتصادی انضمام کو حاصل کرنے کے لیے جس کے نتیجے میں اسلامی مشترکہ منڈی قائم ہو، رکن ممالک میں پائیدار اور جامع انسانی ترقی اور اقتصادی بہبود کے حصول کے لیے سرگرم عمل ہے۔

تنظیم تعاون اسلامی اسلام کی حقیقی تصویر کے تحفظ اور تہذیبوں اور مذاہب کے درمیان مکالمے کی حوصلہ افزائی کے لیے کوشاں ہے۔ اس کے علاوہ مسلمان ملکوں میں سائنس اور ٹیکنالوجی کے فروغ اورترقی سمیت ان شعبوں میں رکن ممالک کے درمیان تحقیق اور تعاون کی حوصلہ افزائی لیے بھی سرگرم عمل ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان