کراچی بحران: سوئی گیس کمپنی نے ایل پی جی سلینڈر بیچنا شروع کر دیے؟

کراچی کے متعدد علاقوں میں گیس کی طویل لوڈشیڈنگ اور کم پریشر کے باعث جہاں لوگ چولہا جلانے کے لیے لکڑیاں اور اُپلے جلانے پر مجبور ہیں، وہیں سوئی سدرن گیس کمپنی کے ایک ترجمان نے اس کا ذمہ دار گیس کمپریسرز کو قرار دیا ہے۔

ایک ترجمان نے بتایا کہ ایل پی جی سلینڈر سوئی سدرن گیس کمپنی نہیں بلکہ ذیلی کمپنی ایس ایس جی سی ایل پی جی فروخت کر رہی ہے (تصویر: امر گرڑو)

پاکستان کے سب سے بڑے شہر اور تجارتی مرکز کراچی میں گیس کا بحران شدت اختیار کرگیا ہے اور شہر کے متعدد علاقوں میں گیس کی طویل لوڈشیڈنگ اور کم پریشر کے خلاف احتجاج معمول بن گیا ہے۔ 

ایک طرف جہاں لوگ گھر کا چولہا جلانے کے لیے گیس کے متبادل ذرائع ڈھونڈ رہے ہیں، وہیں سوئی سدرن گیس کمپنی نے اپنی ایک ذیلی ویب سائٹ کے ذریعے گھریلو صارفین کو ایل پی جی سلینڈرز فروخت کرنے شروع کردیے ہیں۔

نورا بلوچ بھی کراچی کے ان ہی باسیوں میں شامل ہیں، جو گیس بحران سے متاثر ہیں اور حکومت سے شکوہ کناں ہیں۔

لیاری کے علاقے سینگولین کی رہائشی اور چار بچوں کی والدہ نورا بلوچ نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا: ’حکومت کہتی ہے کہ سردی کے باعث گیس کے استعمال میں اضافہ ہوتا ہے، تو لوگوں کو گیس نہیں ملتی، مگر لیاری میں سردیوں سے کئی مہینے پہلے سے ہی گیس کی لوڈشڈنگ ہورہی ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’تمام لیاری میں گذشتہ پانچ مہینے سے دن کے اوقات میں گیس نہیں ملتی۔ رات کو 12 بجے سے صبح چھ بجے گیس آتی ہے، مگر اس کا پریشر بھی کم ہوتا ہے۔ لیاری کے لوگ رات کو جاگ کر دوسرے دن کا کھانا پکاکر رکھتے ہیں۔‘

نورا بلوچ نے بتایا کہ وہ گیس کا متبادل ایل پی جی (مائع پیٹرولیم گیس) نہیں خرید سکتیں، اس لیے چولہا جلانے کے لیے لکڑیاں خریدنے پر مجبور ہیں۔ تاہم انہوں نے بتایا کہ گیس نہ ہونے کی وجہ سے جہاں ایل پی جی سلینڈر مہنگا ہوگیا ہے، وہیں لکڑی کی قیمت میں بھی اضافہ ہوگیا ہے۔ ’لکڑی بیچنے والے وزن بڑھانے کے لیےگیلی لکڑیاں دے دیتے ہیں، جو ایک الگ عذاب ہے۔‘

لیاری میں گیس لوڈشیڈنگ کے خلاف گذشتہ کئی ماہ سے احتجاجی تحریک چلانے والی سماجی تنظیم ’لیاری عوامی محاذ‘ کے رہنما زاہد بارکزئی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ گیس کی طویل لوڈشیڈنگ کے بعد لوگ ایل پی جی کے سلینڈر مہنگے داموں خریدنے پر مجبور ہیں۔ ’صرف تین دن میں ایل پی جی کی قیمت 210 روپے فی کلوگرام سے 220 روپے ہوگئی ہے۔ میرے گھر میں صرف چار افراد ہیں، مگر میں نے ایک مہینے میں 1800 روپے کی ایل پی جی خریدی ہے۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ گیس لوڈشیڈنگ صرف سردیوں میں نہیں، بلکہ لیاری میں گذشتہ کئی ماہ سے جاری ہے۔ صرف رات کو 12 بجے سے صبح چھ بجے تک گیس آتی ہے، جس کا پریشر بھی کم ہوتا ہے۔‘

لیاری سمیت کیماڑی، ناظم آباد، گلشن اقبال، اورنگی اور کورنگی سمیت متعدد علاقوں میں بھی گھریلو صارفین کو گیس کی لوڈشیڈنگ اور کم پریشر کا سامنا ہے۔

 گھریلو صارفین کے مطابق فیڈرل بی ایریا، بفرزون، شیر شاہ، میں گیس رات 12 سے صبح چھ بجے تک آتی ہے اور اس کا پریشر بھی کم ہوتا ہے۔ حتیٰ کہ شہر کے پوش ترین علاقے ڈیفینس میں بھی صارفین کو گیس لوڈشیڈنگ اور کم پریشر کا سامنا ہے۔  

کراچی میں قومی اسمبلی کے حلقے این اے 247 سے منتخب ہونے والے حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف  کے رکن قومی اسمبلی آفتاب صدیقی نے گیس کی قلت پر وفاقی وزیر حماد اظہر کو خط لکھ کر کہا ہے کہ ان کے حلقےکے عوام بنیادی انسانی حقوق سے محروم ہیں۔ 

آفتاب صدیقی نے خط لکھا کہ ان کے حلقے میں گیس سپلائی میں کمی کے علاوہ گیس کم پریشر بھی کم ہے اور پائپ لائن سے مسلسل گیس کی لیکج ہو رہی ہے، جو رہائشیوں کے لیے ایک خطرہ ہے۔

انہوں نے مزید لکھا کہ سوئی سدرن گیس کمپنی نے پائپ لائن ٹھیک کرنے کے وعدے کیے مگر اس کے باوجود ان پرانی اور زنگ آلود پائپ لائنوں کو تبدیل نہیں کیا گیا۔

 آفتاب صدیقی نے حماد اظہر کو مخاطب کرکے خط میں لکھا: ’میرا حلقہ ملک کے سب سے پرانے اور نمایاں کاروباری مراکز بشمول صدر، کھارادر، جوڑیا بازار اور گارڈن پر مشتمل ہے۔میں کئی دنوں سے آپ کو آپ کے نمبر پر کال اور پیغامات بھیج رہا ہوں لیکن آپ کی طرف سے کوئی جواب نہیں ملا۔ آپ میرے قابل احترام ہیں مگر آپ کا یہ رویہ افسوس ناک ہے اور اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو پاکستان تحریک انصاف کو اس کے باعث بلدیاتی انتخابات میں بھاری نقصان اٹھانا پڑے گا جیسا کہ خیبرپختونخوا کے حالیہ بلدیاتی انتخابات میں دیکھا گیا تھا۔‘ 

کراچی میں گیس کی شدید قلت کے بعد جہاں ایل پی جی سلینڈر اور لکڑیوں کو ایندھن کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے، وہاں کئی کم آمدنی والے علاقوں بشمول شیرشاہ کے علاقے جہان آباد، مچھر کالونی اور ابراہیم حیدری میں گوبر کے اُپلوں کو ایندھن کے طور پر استعمال کرنے کا رجحان بڑھ رہا ہے۔  

جہان آباد کے رہائشی حاجی امان اللہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ان کے علاقے میں رہنے والے زیادہ تر لوگ گیس، ایل پی جی یا لکڑیاں نہیں خرید سکتے اس لیے گوبر کے اُپلوں کو ایندھن کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ بقول حاجی امان اللہ: ’شہر میں گیس کی لوڈشیڈنگ کے بعد اُپلوں کے استعمال میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے اور ان کی قیمت میں بھی اضافہ دیکھا گیا ہے۔ کچھ دن پہلے اُپلوں کی ایک بوری 50 روپے کی تھی، جو گیس کی کمی اور کم پریشر کے باعث بڑھ کر 120 روپے تک پہنچ گئی ہے۔‘

وفاقی وزارت توانائی کی کراچی کے صارفین سے معذرت

دوسری جانب پاکستان کی وفاقی وزارت برائے توانائی نے کراچی میں گیس کی لوڈشیڈنگ پر صارفین سے معذرت کی ہے۔ اپنے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ پر وزارت کی جانب سے کہا گیا: ’ہر سال سردیوں میں سوئی گیس کمپنیاں چند صنعتی شعبوں میں گیس کی لوڈشیڈنگ کرکے ترجیحی سیکٹرز (بشمول گھریلو صارفین) کو گیس فراہم کرتی ہیں۔ اس سال سندھ ہائی کورٹ نے سوئی گیس کمپنی کو صنعتی صارفین کی لوڈشیڈنگ پر حکم امتناعی جاری کر رکھا ہے، جس کی وجہ سے کراچی کو گیس کی فراہمی میں مشکل کا سامنا ہے۔ ہم صارفین سے اس تکلیف کے لیے معذرت خواہ ہیں اور معزز عدالت عظمیٰ میں اپنا موقف اگلی تاریخ پر بھرپور انداز میں پیش کریں گے۔‘

کراچی کے شہریوں کا کہنا ہے کہ گیس کی لوڈشیڈنگ کے بعد اکثر لوگ روٹیاں گھر پر نہیں پکا سکتے اس لیے وہ تندور سے روٹی لینے پر مجبور ہیں، جبکہ گیس کی قلت کے باعث تندور والے بھی ایندھن کے طور پر لکڑی کا استعمال کرتے ہیں تو انھوں نے روٹی کی قیمت بھی بڑھا دی ہے۔  

صدر ٹاؤن کے ایک صارف سلمان احمد نے سوئی سدرن گیس کمپنی پر الزام عائد کرتے کہا کہ کمپنی جان بوجھ کر گیس کی لوڈشیڈنگ کرتی ہے۔ ان کے مطابق: ’حال ہی میں سوئی سدرن گیس کمپنی نے گھریلو صارفین کو ایل پی جی سلینڈر بیچنا شروع کیا ہے، جس کے اخبارات میں بڑے بڑے اشتہارات دیے جارہے ہیں۔ ایل پی جی سلینڈر کی بھاری قیمت رکھی گئی ہے اور سلینڈر کی فروخت بڑھانے کے لیے جان بوجھ کر گیس کو بند کیا جارہا ہے۔‘

واضح رہے کہ سوئی سدرن گیس کمپنی اپنے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ پر کراچی کے شہریوں کو کمپنی کے سلینڈر خریدنے کے لیے تشہیر کر رہی ہے۔ اس مقصد کے لیے ایس ایس جی سی ایل پی جی ڈاٹ کام کی ویب سائٹ بھی بنائی گئی ہے، جس پر مختلف اخبارات میں چھپے اشتہارات کی نقول کے مطابق اپریل 2021 میں کراچی شہر میں 11 اعشاریہ آٹھ کلوگرام کے ایل پی جی سلینڈر کو بھرنے کی قیمت 1572 تھی، جو دسمبر میں 2000 تک بڑھ گئی ہے۔

تاہم شہریوں کو ایس ایس جی سی سے سلینڈر خریدنے کے لیے ہزاروں روپے ڈپازٹ کرانے پڑیں گے۔ کمپنی کے مطابق 11 اعشاریہ آٹھ کلوگرام کے ایل پی جی سلینڈر کے لیے پانچ ہزار روپے ایڈوانس دینا ہوگا، کیوں کہ کمپنی اپنے سلینڈر کے علاوہ کسی اور کمپنی کے سلینڈر میں گیس فل نہیں کرتی۔  

اس حوالے سے رابطہ کرنے پر سوئی سدرن گیس کمپنی کے ایک ترجمان نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انڈپینڈنٹ اردو کو کراچی میں ایل پی جی سلینڈر گھریلو صارفین کو بیچنے کی تصدیق کی۔

ان کا کہنا تھا: ’ایل پی جی سلینڈر سوئی سدرن کمپنی نہیں بلکہ ذیلی کمپنی ایس ایس جی سی ایل پی جی فروخت کر رہی ہے۔ اس کمپنی نے سوئی سدرن سے درخواست کی تھی کہ انہیں ایل پی جی سلینڈر بیچنے کی اجازت دی جائے۔ چوں کہ وہ سائنسی طور پر محفوظ سلینڈر بیچ رہے ہیں، اس لیے ہم نے انہیں اپنی کمپنی کا نام استعمال کرنے کی اجازت دی ہے۔‘

انہوں نے سلینڈر کی فروخت کے لیے جان بوجھ کر گیس کی لوڈشڈنگ کرنے کے الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ گیس کی کمی اور کم پریشر کی دیگر وجوہات ہیں۔

’کراچی میں گیس کی قلت، کم پریشر کا ذمہ دار گیس کمپریسر‘

ترجمان ایس ایس جی سی نے بتایا کہ کراچی شہر میں اس وقت گیس کی ڈیمانڈ 1225 ایم ایم سی ایف ڈی ہے، جو ایس ایس جی سی پورا کر رہی ہے۔ صرف 220 ایم ایم سی ایف ڈی کا شارٹ فال ہے۔ 

ترجمان کے مطابق: ’ایس ایس جی سی کی جانب سے کراچی میں گھریلو صارفین کے لیے زیرو لوڈشڈنگ ہے، مگر گیس کی طلب میں اضافے کے بعد لوگوں کی جانب سے بڑے پیمانے پر گیس کمپریسر یا سکشن پمپس کے استعمال سے کئی علاقوں میں یا تو گیس مکمل طور پر نہیں آتی یا پھر کم پریشر ہوتا ہے۔‘

انہوں نے وضاحت کی کہ ’گیس کمپریسر ایک بجلی کا آلہ ہے جو صارفین گیس کے پائپ میں لگاتے ہیں، جس سے وہ گیس کو اپنی طرف کھینچ لیتا ہے۔ اس سے گیس کمریسر والے گھر میں تو گیس پوری آنے لگتی ہے، مگر اس پائپ لائن کے دیگر کنیکشنز کو گیس کی فراہمی نہیں ہو پاتی اور لوگ سمجھتے ہیں کہ ان کے علاقے میں گیس کی لوڈ شیڈنگ ہورہی ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

 گیس کمپریسر کی قیمت اس سے قبل آٹھ سو سے ایک ہزار روپے تھی، مگر اس کی مانگ میں اضافے کے بعد اب اس کی قیمت دو ہزار روپے ہوگئی ہے۔  

ترجمان کے مطابق: ’گیس کمپریسر انتہائی خطرناک ہے، جس سے رات کو گھروں میں گیس بھر جاتی ہے اور اہل خانہ دم گھٹنے سے ہلاک ہوسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ گھر میں آگ لگنے اور دھماکوں جیسے واقعات بھی ہوسکتے ہیں۔‘

صرف کراچی شہر میں گذشتہ ایک ماہ میں گیس کمپریسر کے باعث چار دھماکے ہوئے۔ ان دھماکوں کے بعد وہاں سے گیس کمپریسر کے ٹکڑے ملے۔  

ترجمان کے مطابق گیس پریشر بڑھانے والے گیس کمپریسر یا سکشن پمپس کا استعمال غیر قانونی اور انتہائی خطرناک ہے اور ان پمپس کو استعمال کرنے والے گھریلو صارفین پر گیس تھیفٹ کنٹرول اینڈ ریکوری ایکٹ کے تحت ایک لاکھ جرمانہ اور چھ ماہ قید کی سزا عائد کی جائے گی۔ 

دوسری جانب سوئی سدرن گیس کمپنی کی جانب سے سی این جی سٹیشنز کو گیس کی فراہمی معطل کرنے کے خلاف آل پاکستان سی این جی ایسوسی ایشن نے بدھ کو کراچی میں کمپنی کے دفتر کے باہر دھرنا شروع کردیا ہے۔

آل پاکستان سی این جی ایسوسی ایشن سندھ زون کے کوآرڈی نیٹر سمیر نجمل حسین نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’سندھ کے سی این جی سٹیشنز کو آر ایل این جی پر منتقل کیے جانے کے باوجود آر ایل این جی بھی فراہم نہیں کی جارہی، سوئی سدرن گیس کمپنی نے سی این جی سیکٹر اور لاکھوں صارفین کو دھوکا دیا ہے، جس کی وجہ سے سی این جی سٹیشنز اور صارفین کی اربوں روپے کی سرمایہ کاری ضائع ہو رہی ہے۔‘

انہوں نے اعلان کیا کہ یہ احتجاجی دھرنا غیرمعینہ مدت تک جاری رہے گا۔  

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان