بجلی کی قیمتوں میں کمی اور گیس بحران کی اصل کہانی کیا ہے؟

حکومت کا کہنا ہے کہ سردیوں میں بجلی کا استعمال گرمیوں کی نسبت آدھے سے بھی کم رہ جاتا ہے لیکن کپیسٹی چارجز کی مد میں بھاری رقم آئی پی پیز کو ادا کرنا ہوتی ہے۔

اس وقت بجلی کے ایک یونٹ کی قیمت  تقریباً 19 سے 22 روپے کے درمیان ہے جو کہ کم کر کے 12.96 روپے کر دی گئی ہے(اے ایف پی فائل)

حکومت پاکستان نے موسم سرما میں بجلی کے استعمال پر سبسڈی دینے کا منصوبہ پیش کیا ہے جس کے مطابق یکم نومبر 2021 سے 28 فروری 2022 تک 300 یونٹس سے زیادہ بجلی استعمال کرنے پر تقریباً سات سے نو روپے فی یونٹ سبسڈی دی جائے گی۔

اس وقت بجلی کے ایک یونٹ کی قیمت  تقریباً 19 سے 22 روپے کے درمیان ہے جو کہ کم کر کے 12.96 روپے کر دی گئی ہے۔

حکومت کا کہنا ہے کہ سردیوں میں بجلی کا استعمال گرمیوں کی نسبت آدھے سے بھی کم رہ جاتا ہے لیکن کپیسٹی چارجز کی مد میں بھاری رقم آئی پی پیز کو ادا کرنا ہوتی ہے۔

نئے منصوبے سے سردیوں میں بجلی کا استعمال بڑھ سکے گا جسے نقصان کو کم کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

سرکار کا موقف درست ہے لیکن یہ مکمل تصویر نہیں ہے۔ یہ آدھا سچ ہے جس کے ذریعے مبینہ طور پر حکومتی کوتاہیوں کو چھپانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

پاور ڈیویژن کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ سردیوں میں گیس کے متوقع بحران کے باعث بجلی کے استعمال کو متبادل کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ دراصل حکومت ایک مرتبہ پھر گیس مہیا نہیں کر پا رہی ہے۔ 

اگر حالات کا جائزہ لیں تو یہ سمجھنے میں زیادہ دیر نہیں لگے گی کہ جب سے وفاق میں تحریک انصاف کی حکومت بنی ہے گیس بحران جوں کا توں قائم ہے۔

پہلے سال میں غلام سرور امیدیں دلاتے رہے۔ دوسرے سال میں ندیم بابر گیس کی کمی کا دفاع کرتے رہے اور تیسرے سال میں یہ ذمہ داری حماد اظہر کے کاندھوں پر ڈالی گئی جو ابھی تک اسی عہدے پر براجمان ہیں۔

وزرا کی جانب سے گیس بحران پر قابو پانے کے لیے دعوے کیے جاتے رہے ہیں، لیکن عملی اقدامات ہوتے دکھائی نہیں دے رہے۔

گیس بحران ختم کرنے کے لیے یا تو ملک کے اندر نئے گیس ذخائر تلاش کیے جا سکتے ہیں، یا ہمسایہ ممالک کے ساتھ گیس پائپ لائن منصوبے کارآمد ہوسکتے ہیں یا ایل این جی درآمد ٹرمینل لگا کر اور وقت پر ایل این جی منگوا کر ملکی ضرورت پوری کی جا سکتی ہے۔

بدقسمتی سے ان چاروں معاملات پر کوئی مثبت پیش رفت دکھائی نہیں دے رہی۔

ملک میں گیس کے نئے ذخائر نہ تلاش کیے جانے پر وسائل کی کمی کو بطور عذر پیش کیا جاتا ہے۔ دوست ممالک سے گیس پائپ لائن منصوبوں کے حوالے سے حکومتی موقف بھی تسلی بخش دکھائی نہیں دیتا۔

گیس پائپ لائن پر کام کرنا تحریک انصاف کے دعووں کی ترجیحات میں شامل تھا لیکن اس حوالے سے ایک بھی نیا منصوبہ پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ سکا۔ حتیٰ کہ ن لیگ کے دور میں روس کے ساتھ کیے گئے گیس منصوبوں کو بھی تبدیل کر دیا گیا ہے۔

تیسرا حل ایل این جی ہے جس سے متعلق معاملات روز بروز پیچیدہ ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ ن لیگ کے دور میں دو ایل این جی ٹرمینل لگائے گئے تھے۔

تحریک انصاف کے مطابق ان کا یومیہ کرایہ تقریباً چار کڑور روپے ہے۔ یہ انتہائی مہنگے ہیں۔ ہماری سرکار جو ٹرمینل لگانے جارہی ہے ان کا کرایہ صفر ہو گا۔

یہ دعویٰ سننے میں اچھا لگتا ہے لیکن تین سالوں میں اس پر عمل درآمد نہیں ہو سکا ہے اور اس سال بھی گیس کا بحران شدید ہونے کی پیش گوئی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اطلاعات کے مطابق نجی کمپنیاں پاکستان میں ایل این جی ٹرمینل لگانے کا ارادہ رکھتی ہیں۔ لیکن سرکاری عمل میں درپیش رکاوٹوں کے باعث منصوبے شروع نہیں کیے جا سکے۔

اس کے علاوہ حکومت ایل این جی کی خریداری میں بھی ناکام رہی ہے۔ ماہ نومبر میں 11 ایل این جی کارگو منگوائے جانے کا منصوبہ تھا، جن میں سے دو کمپنیوں نے عین موقع پر کارگو دینے سے انکار کر دیا ہے۔ مبینہ طور پر انٹرنیشنل مارکیٹ سے 200 گنا زیادہ منافع ملنے پر معاہدہ معطل کیا گیا۔

اطلاعات یہ ہیں کہ پاکستانی سرکار جانتی تھی کہ یہ کمپنیاں وعدہ خلافی کر سکتی ہیں، لیکن ان سے ہونے والے معاہدے میں اس معاملے کو بہتر انداز میں ڈیل نہیں کیا جا سکا۔

عمومی طور پر ایسی کمپنیوں کے ساتھ معاہدہ کرتے وقت خلاف ورزی کی صورت میں سخت شرائط رکھی جاتی ہیں، لیکن اس معاہدے میں صرف 30 فیصد جرمانہ رکھا گیا جو ماہرین کے مطابق کم ہے۔

ان حالات کو بہتر انداز میں ڈیل کرنے کے لیے جرمانے کی رقم اصل رقم سے 200 فیصد زیادہ رکھی جانی چاہیے۔ اس کے علاوہ ملکی نقصان کی ذمہ داری بھی وعدہ خلافی کرنے والی کمپنی پر ڈالی جانی چاہیے۔

پاکستان میں ایمرجنسی صورت حال پیدا کر کے اس سے فائدہ اٹھانا معمول کی بات ہے کیونکہ ایسا کرنے والوں کے خلاف کارروائی ہوتی دکھائی نہیں دیتی۔ آٹا، چینی، مرغی سمیت کئی مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں۔ جہاں پہلے قلت پیدا کی گئی پھر اجناس مہنگے داموں فروخت کی گئیں۔

سردیوں سے پہلے ایل این جی معاملے پر بھی ایمرجنسی صورت حال کا پیدا ہو جانا شکوک و شبہات کو جنم دیتا ہے۔ عوامی سطح پر یہ رائے تقویت اختیار کرتی جا رہی ہے کہ یہ حالات جان بوجھ کر پیدا کیے جا رہے ہیں تا کہ مخصوص طبقہ اس سے فائدہ اٹھا سکے۔

ماہرین کا خیال ہے کہ بجلی کی قیمتوں میں کمی کی پیش کش کو ان حقائق کی روشنی میں دیکھے جانا ضروری ہے، تاکہ حالات کا درست اندازہ لگایا جا سکے۔

اس کے علاوہ ان کا کہنا ہے کہ سبسڈی غریب عوام کا حق ہے، جبکہ بجلی کے زیادہ استعمال پر سبسڈی سے غریب عوام کو فائدہ ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔

عوام کی اکثریت 300 یونٹس سے کم بجلی استعمال کرتی ہے۔ سردیوں میں بجلی کا زیادہ استعمال کرنے کے لیے ہیٹر، گیزر، چولہا سمیت دیگر اشیا کا الیکٹرک ہونا ضروری ہے۔

جب سے یہ خبر آئی ہے مارکیٹ میں الیکٹرک سامان کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرتی دکھائی دے رہی ہیں۔ جو طبقہ مہنگی بجلی استعمال کر سکتا ہے اس کو عوام کے ٹیکس کے پیسوں سے ریلیف دینا مناسب نہیں ہے۔

سرکار سے گزارش ہے کہ وہ اپنا ہاتھ غریب عوام کی نبض پر رکھے تا کہ آپ کے فیصلے عوام کی خواہشات کی درست ترجمانی کر سکیں۔

نوٹ: یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے پر مبنی ہے، ادارے کا اس سے متفق ہونا لازمی نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی معیشت