‎ڈالر آخر کیوں بڑھ رہا ہے؟

ڈالر کی بڑھتی قیمت کو روکنا ناگزیر ہو چکا۔ اگر بروقت اقدامات نہ کیے گئے تو کئی ایکسپورٹرز اپنے کام سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔

تین ماہ پہلے ڈالر تقریباً 159 روپے کا تھا جو اب بڑھ کر 174 روپے کا ہو گیا ہے (اے ایف پی)

‎بلال اسلم پانچ کروڑ روپے کا نقصان اٹھا چکے ہیں۔

بلال کون ہیں اور کیا کرتے ہیں یہ میں آپ کو آگے چل کر بتاؤں گا فی الحال آپ یہ جان لیں کہ انھوں نے برآمدات بند کر دی ہیں۔ وہ بینک کے مقروض ہو چکے ہیں اور ملازمین کو نوکریوں سے فارغ کر دیا ہے۔

گزر بسر کرنے کے لیے صرف مقامی مارکیٹ کے لیے سامان بنا رہے ہیں لیکن برآمدات سے توبہ کر لی ہے۔

یہ صورتحال ڈالر کی غیر یقینی صورتحال کی وجہ سے پیدا ہوئی۔ ان کی برآمدات کا انحصار درآمدات پر ہے۔ خام مال درآمد کرنے کے 90 دن بعد ادائیگی کرنا ہوتی ہے۔

تین ماہ پہلے ڈالر تقریباً 159 روپے کا تھا جو اب بڑھ کر 174 روپے کا ہو گیا ہے، یعنی کہ جو مال 159 روپے کے حساب سے خریدا تھا اس کی ادائیگی 174 روپے کے حساب سے کرنا پڑ رہی ہے۔

خام مال مہنگا پڑنے سے دیگر ممالک کی نسبت پاکستان کے ریٹ بڑھ گئے ہیں، جس کے باعث کسٹمر پاکستان سے چین اور بھارت منتقل ہو رہا ہے۔

میں مزید لکھنے سے پہلے آپ کو بتاتا چلوں کہ بلال اسلم کا تعلق گوجرانوالہ سے ہے۔ پلاسٹک پیکجنگ انڈسٹری سے وابستہ ہیں۔

اس شعبے میں نمایاں نام رکھتے ہیں لیکن حکومتی کمزور پالیسیوں کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہیں۔

‎بلال کا کہنا ہے کہ ڈالر کی قیمت میں روز بروز تبدیلی نے فیکٹری کا بجٹ بنانا مشکل کر دیا ہے۔ میرے لیے یہ جاننا ناممکن ہے کہ 90 دن بعد جب ادائیگی کا وقت آئے گا تو ڈالر کی قیمت کیا ہو گی۔

ایسی صورتحال میں فروخت کا حقیقی ریٹ نہیں نکالا جا سکتا۔ حکومت ڈالر کی قیمت چاہے کچھ بھی مقرر کر دے لیکن اسے ایک سال کے لیے فکس کر دے تاکہ کاروباری طبقے کا حقیقی بجٹ بن سکے۔

اس کے علاوہ پہلے حکومت نے ڈالر ریٹ بُک کروانے کی سہولت مہیا کر رکھی تھی۔ جس کے ذریعے ایک معینہ مدت تک ڈالر کا ریٹ سرکار کے ساتھ طے کر لیا جاتا تھا۔

اس سے ڈالر کی قیمت میں اضافے سے مخصوص مدت تک فرق نہیں پڑتا تھا لیکن اب وہ سہولت بھی مہیا نہیں۔ اگر یہ سہولت بحال کر دی جائے تو کاروبار میں آسانیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔

‎بلال اور ان جیسے لاکھوں پاکستانیوں کے ڈالر سے متعلق مسائل کی وجوہات، حل اور معیشت  پر اثرات کے حوالے سے جاننے کے لیے میں نے جب ایکسینج کمپنیز ایسوسی ایشن آف پاکستان کے جزل سیکرٹری ظفر پراچہ صاحب سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ حکومتی ذخائر 24 ارب ڈالرز سے زیادہ ہیں۔

روشن ڈیجیٹل اکاونٹس کے ذریعے دو ارب 60 کروڑ ڈالرز پاکستان آ چکے ہیں۔ برآمدات میں تقریباً 26  فیصد اضافہ ہوا ہے۔ ان حالات میں ڈالر کی قیمت 174 روپے تک پہنچ جانا حیران کن ہے۔

حکومت کی جانب سے درآمدات میں اضافے کو ذمہ دار ٹھہرایا جا رہا ہے لیکن مجھ سمیت اکثر ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ اتنی درآمدات پر ڈالر کی قیمت 174 روپے نہیں ہو سکتی۔

ڈالر کی موجودہ قیمت مارکیٹ ریٹ سے زیادہ ہے، جس سے یہ رائے تقویت اختیار کرتی جا رہی ہے کہ حکومت ڈالر کی قیمت بڑھانے کے لیے آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ کر چکی ہے۔

اس کے علاوہ پاکستان سے ڈالر کی سمگلنگ بھی بڑا مسئلہ ہے۔ افغانستان میں طالبان کی حکومت آنے کے بعد غیر قانونی تجارت میں اضافہ ہوا ہے۔

تقریباً 20 لاکھ  ڈالرز روزانہ کی بنیاد پر سمگل ہونے کی اطلاعات ہیں۔ اس کے علاوہ ایران بھی ڈالرز کی ضرورت پاکستان سے پوری کرتا دکھائی دیتا ہے۔

جب حکومت سختی کرتی ہے تو مذہبی اثرو رسوخ استعمال کر کے حکومت پر دباؤ بڑھایا جاتا ہے۔

پاکستانی سرکار کو ملکی مفاد کے لیے اس دباؤ سے نکلنا ہو گا۔ اس کے علاوہ ان حالات میں برآمدات کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔

ڈالر پر قابو پانے کے لیے طلب اور رسد کے فرق کو کم کرنا بھی ضروری ہے جو کہ برآمدات بڑھانے سے ہی ممکن ہے۔

‎جب میں نے ماہر معیشت  فرخ سلیم کی رائے جاننے کے لیے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ ڈالر کو قابو میں رکھنے کی حکومتی پالیسی غیر موثر ثابت ہو رہی ہے۔

یہاں یہ کہنا مناسب نہیں کہ آئی ایم ایف نے پاکستانی حکومت سے ڈالر کی قدر بڑھانے کا معاہدہ کر رکھا ہے۔ میں نے کئی سال ان اداروں کے ساتھ کام کیا ہے۔

 میں نے کبھی اس طرز کا کوئی معاہدہ نہیں دیکھا۔ صرف مصر میں آئی ایم ایف نے مرکزی ذخائر میں سے ڈالرز نکال کر مارکیٹ میں ڈالنے کی اجازت دی تھی لیکن اس کے لیے شرط رکھی گئی تھی کہ تین ماہ بعد ڈالرز واپس جمع کروانے ہوں گے۔

ممکن ہے کہ حکومت پاکستان آئی ایم ایف سے  اس طرز کے کسی معاہدے میں داخل ہو گئی ہو۔

‎ان کے مطابق ڈالر بڑھنے کی بڑی وجہ درآمدات میں اضافہ بھی ہے۔ دنیا میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے نے بھی اس پر اثر ڈالا ہے۔ لیکن کمزور حکمت عملی اور حکومتی ناکامی کا سارا بوجھ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں پرڈال کر سرکار بری الزماں نہیں ہو سکتی۔

یہ سینکڑوں وجوہات میں سے ایک وجہ ہے۔ باقی عوامل پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے۔

‎ٖان کا کہنا ہے کہ اخراجات کم کرنے سے ملک ترقی نہیں کرتے بلکہ آمدن بڑھانے سے ترقی کی منزلیں طے ہوتی ہیں۔ آئی ایم ایف کا مقصد ملک کی آمدن بڑھانا ہوتا ہے۔

اب یہ حکومتوں پر منحصر ہے کہ وہ اصلاحات لا کر آمدن بڑھاتی ہے یا عوام پر بوجھ ڈال کر اس حدف کو حاصل کرتی ہیں۔

درآمدات پر پابندی لگانے سے ڈالر کی قیمت کم نہیں ہو سکے گی۔ حکومتی وزرا تنقید کرتے ہیں کہ پاکستانی قوم تین ملین ڈالرز کا پنیر درآمد کرتی ہے اسے روکنا چاہیے۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ستر ارب ڈالرز کی درآمدات میں سے اگر تین ملین ڈالرز کی درآمدات روک بھی لی جائیں تو کیا فرق پڑے گا۔

اسی طرح گاڑیوں کی درآمد پر پابندی لگانے سے بھی خاص فرق نہیں پڑے گا۔ حقیقی تبدیلی اس وقت آئے گی جب برآمدات میں اضافے کے نئے راستے نکالے جائیں گے۔ صرف کپاس اور ٹیکسٹائل سیکٹر پر مہربانیاں کر دینا مناسب نہیں ہے۔

عام انڈسڑی کو بجلی کا ایک یونٹ 25 سے 30 روپے کا چارج ہوتا ہے جب کہ  ٹیکسٹائل کو صرف نو روپے فی یونٹ چارج کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ گیس کے استعمال پر سبسڈی دی جاتی ہے۔

مشینری کی درآمدات پر خصوصی سہولیات فراہم کی جاتی ہیں۔ایک اندازے کے مطابق ٹیکسٹائل سیکٹر کو تقریبا 1000 ارب روپے سبسڈی دی جارہی ہے۔

جب کہ  حقیقی معنوں میں برآمدات میں اضافہ نہیں ہوا ہے۔ 2018 کی نسبت ڈالر کی قیمت میں تقریباً 40 فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا ہے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر برآمدات 2018 کی سطح پر قائم رہتیں تو ان میں کم ازکم 40 فیصد اضافہ ضرور ہونا چاہیے تھا جب کہ  اضافہ تقریباً 23 فیصد ہوا ہے۔

یعنی کہ برآمدات بڑھی نہیں بلکہ کم ہوئی ہیں۔ 2013 میں پاکستان تقریبا 25 بلین ڈالرز کی برآمدات کرتا تھا۔ آج سے آٹھ سال بعد اس کے قریب پہنچ جانے پر بہترین کارکردگی کا شور مچانا کامیابی کا پیمانہ نہیں ہو سکتا۔

‎اس کے علاوہ یہ بات بھی اہم ہے کہ ڈالر کی غیر یقینی صورتحال کے باعث برآمدکندگان کسٹمرز سے ڈالرز نہیں منگوا رہے۔ وہ اس انتظار میں ہیں کہ ڈالر مزید بڑھے اور جب یہ بڑھنا رک جائے تو فنڈز پاکستان منگوائے جائیں۔ تاکہ زیادہ منافع کمایا جا سکے۔

 دوسری طرف درآمدکندگان اس ڈر میں ڈالرز خرید کر ادائیگیاں کرتے جارہے ہیں کہ ڈالر مزید مہنگا ہونے سے نقصان کم سے کم ہو۔ مارکیٹ کے اس رویے کی بدولت بھی ڈالر کی قیمت بڑھ رہی ہے۔

ڈاکٹر فرخ سلیم کے مطابق جب تک حکومت اپنی پالیسیز بہتر نہیں کرے گی ڈالر کی مارکیٹ اسی طرح پرفارم کرتی رہے گی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

‎حکومتی موقف جاننے کے لیے ڈاکٹر سلیمان شاہ سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ڈالر کی موجودہ صورتحال کی ذمہ دار پچھلی حکومتیں ہیں۔

تقریباً تین سال تک دنیا میں تیل کی قیمتیں نچلی سطح پر برقرار رہی ہیں۔ اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پچھلی حکومتوں کو سستی بجلی کے منصوبے لگانے چاہیے تھے لیکن انھوں نے ایک بھی ڈیم نہیں بنایا۔

جس کی وجہ سے آج بجلی تیل سے پیدا کی جارہی ہے جس کی ادائیگی ڈالر میں کرنا پڑتی ہے۔ ایک طرح سے بجلی بھی درآمد کر کے استعمال کرنا پڑ رہی ہے۔ جو ڈالر کے بڑھنے کی بڑی وجہ ہے۔

وہ اس بات پر متفق تھے کہ ڈالر کی موجودہ قیمت مارکیٹ کے مطابق زیادہ ہے۔ اسے 165 تک ہونا چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ جیسے ہی دنیا میں تیل کی قیمتیں اپنی درست سطح پر آئیں گی پاکستان میں ڈالر بھی کم ہو سکے گا۔

ان کے مطابق افغانستان ڈالر سمگلنگ کا اثر ڈالر کی قیمت پر زیادہ نہیں پڑ رہا۔لیکن اسے روکے جانا ضروری ہے۔

‎ڈالر کی قیمت کو قابو میں لانے کے لیے حکومت مستقبل میں کیا اقدامات کرتی ہے اس حوالے سے کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہے۔ لیکن حقیت یہ ہے کہ اس وقت ڈالر کی بڑھتی ہوئی قیمت کو روکنا ناگزیر ہو چکا ہے۔

اگربروقت اقدامات نہ کیے گئے تو بلال کی طرح کئی برآمد کندگان ایکسپورٹ سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے، جس کا زیادہ نقصان پاکستانی معیشت ہو گا۔

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ