پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنما منظور پشتین کا کہنا ہے کہ پی ٹی ایم رہنما علی وزیر کو سپریم کورٹ کی جانب سے ضمانت منظور کیے جانے کے باوجود سندھ حکومت رہا نہیں کر رہی ہے۔
کراچی کے پشتون اکثریت والے علاقے سہراب گوٹھ میں اتوار کی شام پشتون تحفظ مومنٹ (پی ٹی ایم) کی جانب سے منعقد جلسے سے خطاب کرتے ہوئے منظور پشتین کا کہنا تھا کہ ’پی ٹی ایم 19 جنوری کو سندھ اسمبلی کے سامنے احتجاجی دھرنا دے گی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ہوسکتا ہے کہ یہ دھرنا جلد کر دیا جائے، اس دھرنے کی حتمیٰ تاریخ کا فیصلہ پی ٹی ایم کی مرکزی قیادت کے پانچ دن بعد ہونے والے اجلاس میں کیا جائے گا۔‘
منظور پشتین نے ایک مرتبہ پھر الزام لگایا کہ ’وزیرستان اور دیگر جگہوں پر لوگوں کو جھوٹے مقدموں میں گرفتار کیا گیا ہے۔ ان گرفتاریوں اور پی ٹی ایم کے دیگر مطالبات کے لیے جلد اسلام آباد کی جانب مارچ کیا جائے گا۔‘
’لوگ کہتے ہیں کہ پی ٹی ایم گرفتاریوں کے خلاف احتجاج میں اپنے پرانے مطالبات بھول گئی ہے۔ ایسا نہیں ہے، اسلام آباد مارچ میں تمام مطالبات رکھیں جائیں گے۔‘
پشتون تحفظ موومنٹ کے جلسے میں بلوچ، سندھی اور پشتون مسنگ پرسنز کے لواحقین نے جبری طور پر گمشدہ افراد کی تصاویر کے ہمراہ شرکت کی۔
واضح رہے کہ قومی اسمبلی کے رکن اور پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنما علی وزیر کے خلاف چھ دسمبر 2020 کو کراچی کے علاقے سہراب گوٹھ میں پی ٹی ایم کی ایک ریلی سے خطاب کے دوران عوام کو ریاست کے خلاف اکسانے اور سکیورٹی اداروں کے خلاف تقاریر کرنے کے الزام میں پولیس نے انسداد دہشتگردی ایکٹ کے تحت غداری کا ایک مقدمہ درج کیا تھا۔
مقدمے میں علی وزیر، پی ٹی ایم کے سربراہ منظور پشتین، رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ، محمد شفیع اور ہدایت اللہ پشتین سمیت کئی ارکان کو نامزد کیا گیا تھا۔
مقدمہ درج ہونے کے بعد سندھ پولیس اور محکمہ داخلہ سندھ نے خیبرپختونخوا حکومت سے پشاور میں موجود علی وزیر کی گرفتاری اور حوالگی میں مدد طلب کی تھی، جس کے بعد خیبرپختونخوا پولیس نے رکن قومی اسمبلی علی وزیر کو 54 سی آر پی سی کے تحت گرفتار کیا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بعد میں انہیں پشاور سے خصوصی پرواز کے ذریعے پولیس ٹیم کے ہمراہ کراچی منتقل کیا گیا۔
علی وزیر کے وکیل ایڈوکیٹ قادر خان کے مطابق علی وزیر اس وقت کراچی سینٹرل جیل میں قید ہیں۔
ضمانت منطور ہونے کے ایک ماہ بعد بھی علی وزیر قید میں کیوں؟
علی وزیر کے وکیل ایڈوکیٹ قادر خان نے انڈپینڈنٹ اردوسے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’سپریم کورٹ سے ان کی ضمانت کی منظوری کو ایک ماہ ہو گیا ہے، مگر تاحال کورٹ آرڈر کی تصدیق نہیں ہوئی ہے اس لیے ہم نے ابھی تک ضمانت کے کاغذات بھی جمع نہیں کرائے ہیں۔‘
ایڈوکیٹ قادر خان کہتے ہیں کہ اگر اس کیس میں علی وزیر کی ضمانت ہو بھی جائے تو بھی انہیں رہا نہیں کیا جائے گا۔
’اس کیس کے علاوہ ان پر پہلے کا بھی ایک اور کیس کراچی کے شاہ لطیف تھانے میں درج ہے، جس میں ان پر پاکستان اور حساس اداروں کے خلاف تقاریر کرنے کا مقدمہ درج ہے۔ پولیس نے علی وزیر کی گرفتاری کے چھ، سات ماہ بعد ان کی اس کیس میں گرفتاری ظاہر کی تھی۔‘
ایڈوکیٹ قادر خان ’اس کیس میں ضمانت ہونے کے بعد ہی وہ جیل سے باہر آسکتے ہیں۔ ان پر مقدمے میں ویسے تو جو دفعات لگی ہیں، ان تحت سزا عمر قید ہے۔ مگر کیوں کہ سپریم کورٹ سے اسی نوعیت کے کیس سے ضمانت ہوگئی ہے تو جلد ہی دوسرے کیس میں بھی ضمانت ہو جائے گی۔‘
علی وزیر کی ضمانت کے باوجود جیل سے باہر آنے میں تاخیر سے متعلق منظور پشتین کے الزامات پر سندھ حکومت کا موقف جاننے کے لیے ترجمان سندھ حکومت اور صوبائی وزیر سعید غنی سے رابطہ کیا گیا تاہم خبر کے شائع ہونے تک ان کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا تھا۔