’ملک کی بقا کو خطرہ ہے:‘ سوڈان کے وزیراعظم مستعفی

اکتوبر میں فوجی بغاوت کے بعد جمہوریت کے حق میں مظاہرے جاری ہیں جبکہ سیاسی اور فوجی حلقوں میں اتفاق رائے نہ حاصل کر پانے پر وزیراعظم عبداللہ حمدوک نے استعفیٰ دے دیا ہے۔

اکتوبر میں فوجی بغاوت کے بعد فوج سے معاہدہ کرکے نومبر میں دوبارہ بحال ہونے والے سوڈانی وزیراعظم عبداللہ حمدوک نے استعفیٰ دے دیا ہے، جس کے بعد ملک کا مکمل کنٹرول فوج کے پاس چلا گیا ہے۔ 

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق 2019 میں آمر عمر البشیر کے اقتدار کے خاتمے کے بعد سے سوڈان غیر استحکامی کی صورت حال سے گزر رہا تھا لیکن جب فوجی رہنما جنرل عبدالفتاح البرہان نے 25 اکتوبر کو بغاوت شروع کی اور حمدوک کو حراست میں لیا تو وہاں ہنگامے شروع ہوگئے۔

عبداللہ حمدوک کو21 نومبر کو اس معاہدے کے تحت بحال کیا گیا تھا جس میں جولائی 2023 میں انتخابات کا وعدہ شامل تھا، لیکن مقامی ذرائع ابلاغ نے خبر دی تھی کہ وہ کئی دنوں سے اپنے دفتر سے غیر حاضر تھے اور ان کے ممکنہ استعفے کی افواہیں گردش کر رہی تھیں۔

حمدوک نے اتوار کی شام سرکاری ٹیلی ویژن پر قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا: ’سوڈان ایک خطرناک موڑ سے گزر رہا ہے، جس سے اس کی پوری بقا کو خطرہ ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ سویلین اور فوجی فریقین کے درمیان اتفاق رائے کے لیے انہوں نے کوشش کی مگر کامیاب نہیں ہوئے۔ 

نومبر میں حمدوک کی بحالی کے بعد بھی فوجی بغاوت کے خلاف بڑے پیمانے پر مظاہرے جاری رہے ہیں۔ شہریوں کو جنرل برہان کے ملک کو مکمل جمہوریت کی طرف لے جانے کے وعدے پر مکمل اعتماد نہیں۔

مظاہرین نے یہ بھی الزام لگایا ہے کہ حمدوک کی بحالی کے معاہدے کا مقصد صرف جرنیلوں کو قانونی حیثیت دینا ہے، جن پر وہ عمر البشیر کی قائم کردہ حکومت کو جاری رکھنے کی کوشش کا الزام لگاتے ہیں۔

’فوجی حکومت سے انکار‘

اتوار کو ہزاروں مظاہرین نے آنسو گیس، بھاری فوجی تعیناتی اور ٹیلی کمیونیکیشن بلیک آؤٹ کا مقابلہ کرتے ہوئے سویلین حکومت کا مطالبہ کیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے دارالحکومت خرطوم میں صدارتی محل کے قریب اور اس کے جڑواں شہر ام درمان میں ہونے والے مظاہروں میں بغاوت کی مذمت کی اور ’عوام کو طاقت‘ کا نعرہ لگایا اور فوج کی بیرکوں میں واپسی کا مطالبہ کیا۔

جمہوریت نواز ڈاکٹرز کمیٹی نے کہا ہے کہ سیکورٹی فورسز نے تین مظاہرین کو ہلاک کیا جن میں سے ایک کے سینے میں گولی لگی۔

جمہوریت کے حامی طبی عملے کے مطابق بغاوت کے بعد اب کم از کم 57 مظاہرین ہلاک ہو چکے ہیں۔

جب سیکورٹی فورسز نے ایمبولینسوں کو زخمیوں تک پہنچنے سے روک دیا تو موٹر سائیکلوں پر سوار نوجوان کو زخمی مظاہرین کو ہسپتالوں میں لے جاتے ہوئے دیکھا گیا۔

ویب مانیٹرنگ گروپ نیٹ بلاکس نے کہا ہے کہ سال کے پہلے احتجاج کے موقع پر مظاہروں سے قبل صبح سے موبائل انٹرنیٹ معطل کر دیا گیا تھا اور شام کو بحال کر دیا گیا تھا۔

کارکن مظاہروں کے انعقاد اور ریلیوں کی براہ راست فوٹیج نشر کرنے کے لیے انٹرنیٹ کا استعمال کرتے ہیں۔

فوج کے کنٹرول میں آنے کے بعد سے ہونے والے مظاہروں کے خلاف سیکورٹی فورسز کی جانب سے آنسو گیس اور پولیس کی جانب سے لاٹھی چارج کیا جاتا رہا ہے۔

’مزاحمت کا سال‘

سوڈان میں فوجی قبضے کی ایک طویل تاریخ ہے لیکن جنرل عبدالفتاح البرہان کا اصرار ہے کہ فوج کا یہ اقدام ’بغاوت نہیں تھی‘ بلکہ ’اقتدار کی منتقلی کے راستے کو درست کرنے‘ پر زور دیا گیا تھا۔

جمعے کو ایک مشیر نے خبردار کیا کہ ’مظاہرے صرف توانائی اور وقت کا ضیاع ہیں‘ جو ’کوئی سیاسی حل‘ پیدا نہیں کریں گے۔

سوشل میڈیا پر کارکنوں کا کہنا ہے کہ 2022 ’مزاحمت کے تسلسل کا سال‘ ہوگا۔

مظاہرین بغاوت کے بعد اور سابق حکمراں عمرالبشیر کی حکومت گرانے کے لیے کیے گئے مظاہروں میں ہلاک ہونے والے 250 افراد کے لیے انصاف کا مطالبہ کرتے ہیں۔

کارکنوں نے 19 دسمبر کو ہونے والے مظاہروں کے دوران جنسی حملوں کی مذمت کی ہے جس میں اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ کم از کم 13 خواتین اور لڑکیوں کو ریپ یا گینگ ریپ کا نشانہ بنایا گیا ہے۔

امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن نے ہفتے کو ایک بیان میں خبردار کیا کہ واشنگٹن ان لوگوں کو جواب دینے کے لیے تیار ہے جو سوڈانی عوام کی سویلین قیادت والی جمہوری حکومت کی خواہشات کو روکنا چاہتے ہیں اور جو احتساب، انصاف اور امن کی راہ میں رکاوٹ ہوں گے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی افریقہ