عدالتی نظام نے 32 سال سے علاقہ بدر قبائلی کو گھر لوٹا دیا

پشاور سے چند کلو میٹر دور سب ڈویژن حسن خیل کے بیس سالہ ایک نوجوان جلال خان کو1989میں جرگے نے محض ‘غلط فہمی’ کی بنیاد پر تاعمر علاقہ بدر کیا تھا۔

پاکستانی قبائلی عمائدین 24 اکتوبر 2007 کو افغانستان کی سرحد سے متصل ایک قصبے مہمند ایجنسی میں جرگہ یا 'قبائلی اسمبلی' میں شرکت کے لیے جمع دکھائی دے رہے ہیں (تصویر: اے ایف پی)

سابقہ فاٹا کے خیبر پختونخوا میں انضمام کو جہاں اکثر ناقدین ایک غلط فیصلہ قرار دیتے ہوئے اس کو تنقید کا نشانہ بناتے رہتے ہیں، وہیں  ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اب ان علاقوں میں عدالتی نظام قائم ہونے سے دہائیوں سے چلنے والے تنازعات اور قبائلیوں کے مسائل بھی فوری اور احسن طریقے سے حل ہونے لگے ہیں۔

ایسا ہی ایک مقدمہ پشاور ہائی کورٹ نے آج  12 جنوری کو چیف جسٹس قیصر رشید کی سربراہی میں نمٹا دیا، جو پچھلے بتیس سال سے چلا آرہا تھا، اور جس کے راضی نامے کے عوض حال ہی میں ایک  فریق نے دوسرے فریق سے آٹھ کنال زمین اور ‘سوارہ’ نامی رسم میں ایک لڑکی کا مطالبہ کیا۔

تفصیلات کے مطابق، پشاور سے چند کلو میٹر دور سب ڈویژن حسن خیل، جس کی سرحدیں، متنو، چراٹ، اور درہ آدم خیل سے ملتی ہیں، کے بیس سالہ ایک نوجوان جلال خان کو1989میں جرگے نے محض ‘غلط فہمی’ کی بنیاد پر تاعمر علاقہ بدر کیا تھا۔

32 سال بعد جب جلال خان 50 سال سے زائد عمر تک پہنچ گئے اور نوکری سے ریٹائرمنٹ بھی لے لی تو انہوں نے باقی ماندہ زندگی حسن خیل میں مقیم اپنے بھائیوں اور والدین کے ساتھ گزارنے کا فیصلہ کیا۔

تاہم، جلال کے مخالفین کے دلوں میں دشمنی کی چنگاریاں اب بھی سلگ رہی تھیں، لہذا انہوں نے راضی نامہ کے لیے ایک سوارہ اور آٹھ کنال زمین کی شرط رکھی۔

جلال خان کے بھتیجے محمد اسرار نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ان کے چچا کو صرف اس غلط فہمی کی بنیاد پر سزا دی گئی تھی کہ ان کا نام کسی نے چچا کی بیٹی کے ساتھ بدنام کرنے کی کوشش کی تھی۔

‘حالانکہ جلال چچا اس وقت شادی شدہ اور ایک بیٹی کے باپ تھے۔ لیکن قبائلی نہایت سخت مزاج لوگ ہوتے ہیں۔ کسی نے جلال خان کی ایک نہیں مانی اور انہیں علاقہ بدر کیا گیا۔ اور ان کی ماں جوان بیٹے سے جدائی کے غم میں روتی تڑپتی رہی۔’

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

محمد اسرار کے مطابق، تین دہائیوں کی اس مدت میں جرگے میں فیصلہ کرنے والے اہم ارکان حیات نہیں رہے تھے، اور ان کے مخالفین نے بھی بعد ازاں اعتراف کرتے ہوئے متعدد مواقع پر کہا تھا کہ یہ ایک غلط فہمی تھی۔ لہذا جلال کے خاندان نے فیصلہ کیا کہ اب ان کے گاؤں واپس لوٹنے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں ہونا چاہیے۔

جلال خان جو کہ ایک لمبی مدت سزا کاٹنے اور زندگی کے نامساعد حالات کی وجہ سے بیمار رہنے لگے ہیں۔

ان کی نمائندگی کرتے ہوئے ان کے بھائی گلستان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ جب مخالفین نے ان کے بھائی کے سامنے واپس لوٹنے کے لیے شرائط رکھے تو انہوں نے سب سے پہلے مقامی تھانے کے سٹیشن ہاؤس آفیسر ایس ایچ او سے رابطہ کیا، لیکن جب وہاں سے کوئی عمل درآمد نہیں ہو اتو انہوں نے پشاور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی۔

حسن خیل کے ایک رہائشی راحت شیر نے متعلقہ موضوع کے ضمن میں بتایا کہ انضمام سے قبل جلال خان کی طرح کئی قبائلیوں کو چھوٹی بڑی غلطیوں اور جرائم کی پاداش میں تاعمر علاقہ بدر کروایا جاتا رہا ہے،جس کے خلاف قبائلیوں نے اس مدت کی ایک حد مقرر کرنے کی التجا کی تھی۔ البتہ راحت شیر کے مطابق، نہ تو جرگے کا اختیار رکھنے والے اور نہ پولیٹیکل ایجنٹ اس مد میں کوئی ریلیف دے سکا تھا۔

دوسری جانب، اس مقدمے کے وکیل طارق افغان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ آج پشاور ہائی کورٹ میں ایس ایچ او اور اسسٹنٹ کمشنر عدالت کے حکم پر پیش ہوئے اور سی سی پی او، انسپکٹر جنرل پولیس کے ذریعے نہ صرف دونوں فریقین کے درمیان بغیر کسی معاوضہ کے صلح کروایا گیا، بلکہ قبائلی اضلاع کے تھانوں کو ہدایت بھی کی گئی کہ آئندہ اگر ایسے غیر قانونی کاموں کی اطلاع ملے تو ان کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جائے۔

‘سوارہ ایک غیر اسلامی اور غیر شرعی رسم ہے۔ لیکن آج بھی جرگوں میں اس قسم کے مطالبات کیے جاتے ہیں اور فریقین سے یہ قول لیا جاتا ہے کہ وہ اس کو خفیہ رکھیں گے۔ متذکرہ معاملہ نہ صرف آزادئ حرکت بلکہ بنیادی انسانی حقوق کی خلافٖ ورزی میں بھی شمار ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ چیف جسٹس نے کیس پڑھتے ہی اس کو اگلے ہی روز نمٹانے کا حکم دیا۔’

طارق افغان نے بتایا کہ دونوں فریقین کے درمیان صلح آج حسن خیل کے ایک مقامی حجرے میں ہوئی۔

جلال خان کے بھائی گلستان نے اس حوالے سے اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے کہا کہ ان کے مخالفین ان کے اپنے سگے چچا کی اولاد ہیں، جنہوں نے حکومتی مداخلت کے بعد بغیر کسی مطالبے کے راضی نامہ کر لیا ہے۔

انہوں نے کہا:‘ہمیں خوشی ہے کہ دونوں خاندان پھر سے ایک ہوئے ہیں، اور دونوں میں کوئی ناراضگی اور کوئی غلط فہمی باقی نہیں رہی ہے۔’

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان