ملک فیصل اکرم: امریکہ میں یہودیوں کو یرغمال بنانے والا کون تھا؟

برطانوی قصبے بلیک برن سے تعلق رکھنے والے 44 سالہ ملک فیصل اکرم نے ہفتے کو تقریباً 10 گھنٹوں کے لیے ریاست ٹیکساس میں ایک یہودی عبادت گاہ میں چار افراد کو یرغمال بنائے رکھا اور بعدازاں مارے گئے۔

ریاست ٹیکساس میں یہودی عبادت گاہ کانگریگیشن بیتھ اسرائیل، جس میں چار لوگوں کو 10 گھنٹے تک یرغمال بنائے رکھا گیا (اے ایف پی) 

امریکی فیڈرل بیورو آف انویسٹی گیشن (ایف بی آئی) نے اعلان کیا ہے کہ ریاست ٹیکساس میں ایک یہودی عبادت گاہ میں چار افراد کو یرغمال بنانے والے ملزم ملک فیصل اکرم کا تعلق برطانیہ سے ہے، جس کے بعد برطانوی اور امریکی حکام یہ پتہ لگانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ یہ سب انہوں نے کیسے کیا۔

برطانوی قصبے بلیک برن سے تعلق رکھنے 44 سالہ ملک فیصل اکرم نے ہفتے کو تقریباً 10 گھنٹوں کے لیے ریاست ٹیکساس کے شہر فورٹ ورتھ کے مضافاتی علاقے کولیویل میں یہودی عبادت گاہ کانگریگیشن بیتھ اسرائیل میں عبادت کرنے والوں کو یرغمال بنائے رکھا۔

اس موقع پر فیس بک پر عبادت کی لائیو سٹریم آن رہ گئی تھی، جس میں ملک فیصل اکرم کو پولیس کے ساتھ مذاکرات کرتے سنا جا سکتا تھا۔

آخرکار ایک ریسکیو ٹیم نے یرغمالیوں کو ریسکیو کیا اور فیصل اکرم مارے گئے، تاہم ابھی یہ واضح نہیں کہ ایسا کیسے ہوا۔ جائے وقوعہ پر موجود صحافیوں کے مطابق انہوں نے گولیوں اور دھماکوں کی آواز سنی جبکہ خود کو ملک فیصل اکرم کے بھائی کہنے والے ایک شخص نے کہا کہ وہ فائرنگ میں ’مارے گئے‘ ہیں۔

اکرم اور اس حملے کے مقصد کے بارے میں ہم اب تک کیا جانتے ہیں؟

لنکا شائر سے ٹیکساس تک کا سفر

’میں انہیں نقصان نہیں پہنچانا چاہتا، ہاں؟ آپ سن رہے ہیں؟‘

فیس بک سے لائیوسٹریم ہٹائے جانے سے پہلے یہ وہ فقرے ہیں جنہیں سنا گیا۔ انہیں بولنے والا نظر نہیں آ رہا لیکن عین ممکن یہی ہے کہ یہ یرغمال بنانے والے کی آواز ہے جو فون پر پولیس سے بات کر رہا ہے۔

ان کے بات کرنے کے انداز سے وہ امریکی نہیں لگے۔ ان کے جملوں میں (yeah) ’ہاں؟‘، ’ برو‘ (Bro) اور ’مین‘ (man) کے الفاظ استعمال کرنے سے ان کا انداز گفتگو برطانوی معلوم ہوا۔ ایک موقع پر انہوں نے پولیس کو ’کوپرز‘ (coppers) کہا، جو برطانیہ میں پولیس کو کہا جاتا ہے۔

اتوار کو ہمیں معلوم ہوگیا کہ ایسا کیوں تھا۔ ایف بی آئی نے ایک بلیٹن جاری کیا جس میں حملہ آور کا نام ملک فیصل اکرم بتایا گیا۔ بلیک برن، لنکاشائر سے تعلق رکھنے والے ایک برطانوی شہری۔ مزید کہا گیا: ’فی الحال ایسا کوئی اشارہ نہیں کہ اور بھی افراد ملوث تھے۔‘

برطانیہ کے دفتر خارجہ اور دولت مشترکہ نے تصدیق کی کہ انہیں ’ٹیکساس میں ایک برطانوی شہری کی موت کا علم ہے اور وہ مقامی حکام کے ساتھ رابطے میں ہیں۔‘

برطانیہ میں دہشت گردی کے کیسز سے نمٹنے والی لندن کی میٹروپولیٹن پولیس نے کہا کہ وہ ’ٹکساس میں ہونے والے واقعے کے حوالے سے امریکہ میں حکام سے رابطے میں ہے۔‘

سی بی ایس نیوز کے مطابق اکرم امریکی شہری نہیں اور دو ہفتے قبل نیو یارک شہر کے جے ایف کینیڈی انٹرنیشنل ایئرپورٹ کے ذریعے ملک میں داخل ہوئے۔ وفاقی عدالتوں میں ان کا کوئی مجرمانہ ریکارڈ نہیں۔

تحقیقات کرنے والوں نے تجزیہ کیا کہ یرغمال بنانے والا ’جذباتی طور پر غیر مستحکم تھا۔‘

لائیو سٹریم میں وہ کافی مشتعل لگے، مذاکرات کار پر برہم ہوتے رہے، خود کو دہراتے رہے اور اکثر خود پر قابو کھوتے رہے۔

ہم فیصل اکرم کے بارے میں مزید نہیں جانتے کہ، جیسے کہ وہ کس پیشے سے وابستہ تھے، شادی شدہ تھے یا وہ امریکہ کیوں آئے۔

اکرم ذہنی صحت کے مسائل کے شکار تھے: بھائی

اتوار کی صبح بلیک برن مسلم کمیونٹی نامی برطانوی فیس بک پیج نے ایک بیان پوسٹ کیا، جس کا تعلق اکرم کے بھائی گلبر سے بتایا گیا ہے۔ 

بعد میں اسے ہٹا دیا گیا لیکن دی انڈپینڈنٹ کے حاصل کردہ سکرین شاٹس میں گلبر بتاتے ہیں کہ انہوں نے کیسے گرین بینک پولیس سٹیشن میں رات گزاری اور اس دوران وہ ایف بی آئی اور مذاکرات کاروں کی مدد کرتے رہے۔ 

مذکورہ پوسٹ جس میں اکرم کا حوالہ ان کے درمیانی نام فیصل سے دیا گیا ہے، میں کہا گیا کہ ’اگرچہ میرا بھائی ذہنی صحت کے مسائل کا شکار تھا لیکن ہمیں یقین تھا کہ وہ یرغمالیوں کو نقصان نہیں پہنچائے گا۔‘ 

صبح تین بجے کے قریب پہلے شخص کو رہا کر دیا گیا، پھر ایک گھنٹے بعد اس نے باقی تین افراد کو بغیر کسی نقصان کے فائر سکیپ  کے راستے رہا کر دیا۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ٹی وی سٹیشن ڈبلیو ایف اے اے کی فوٹیج میں ایسا ہوتا دیکھا گیا۔ دو افراد کو جلدی سے باہر آتے ہوئے دیکھا گیا، جن کے پیچھے ایک شخص نے اسلحہ تھام رکھا ہے اور چہرے پر ماسک پہنا ہوا ہے۔

ویڈیو میں اس شخص کو باہر جھانکتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے اور پھر جلدی سے وہ واپس اندر غائب ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد مسلح پولیس دیواروں کے ارد گرد پوزیشن سنبھال لیتی ہے۔ 

گلبر کی حذف شدہ پوسٹ میں مزید کہا گیا: ’چند منٹ بعد فائرنگ ہوئی اور اسے گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔ ہم اسے ہتھیار ڈالنے پر قائل کرنے کے لیے کچھ نہیں کہہ سکتے تھے، نہ کر سکتے تھے۔‘

’ظاہر ہے کہ ہماری ترجیح انہیں ان کی نماز جنازہ کے لیے برطانیہ واپس لے جانا ہوگا، حالانکہ ہمیں خبردار کیا گیا ہے کہ اس میں ہفتے لگ سکتے ہیں۔‘

اس پوسٹ میں ’محض تین ماہ پہلے‘ ایک چھوٹے بہن یا بھائی کی موت کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ اس میں کہا گیا کہ ایف بی آئی کے ایجنٹ اتوار کو برطانیہ جائیں گے تاکہ اکرم کے اہل خانہ سے تحقیقات کر سکیں۔ پوسٹ کا آغاز اور اختتام یہ کہہ کر ہوا کہ ان کا پورا خاندان یرغمال بنانے والے کے اقدامات کی مذمت کرتا ہے۔ 

لائیو سٹریم میں ایک موقع پر کیے گئے تبصرے سے بھی ملک اکرم کی زندگی کے بارے میں ایک اضافی تفصیل معلوم ہوتی ہے۔

وہ شخص مذاکرات کار سے ایک موقع پر کہتا ہے: ’مجھ پر رونا نہیں، ٹھیک ہے؟ میں نے چھ پیارے بچے چھوڑے، میں رویا نہیں۔۔۔ میرا دل پتھر کا بن گیا ہے۔‘

اکرم نے کہا کہ کاش وہ 9/11 کے دہشت گردانہ حملوں میں مر جاتا

پیر کو یہ انکشاف ہوا کہ اکرم نے مبینہ طور پر عدالتی عملے کے ایک رکن کو بتایا کہ اس کی خواہش ہے کہ وہ 9/11 کے دہشت گردانہ حملوں میں مر جاتا۔

اس پر 2001 میں بلیک برن میجسٹریٹ کی عدالت نے متعدد مواقع پر عملے کو دھمکیاں دینے اور بدسلوکی کرنے پر پابندی لگائی گئی تھی۔

عدالت کی طرف سے ایک خط میں جسے لنکاشائر ٹیلی گراف نے شائع کیا تھا ایک واقعہ کا ذکر ہے جس میں 12 ستمبر 2001 کو ٹوئن ٹاورز کے حملے کے ایک دن بعد کے حادثات کا جائزہ لیا گیا ہے۔

خط میں کہا گیا ہے کہ ’گذشتہ روز نیویارک میں ہونے والے دہشت گردانہ حملے کے واضح حوالے سے آپ نے ایک سے زیادہ موقعوں پر میری عدالت کو بتایا کہ ’آپ کو جہاز پر ہونا چاہیے تھا۔‘

’اس سے ایک ایسے فرد کو بہت تکلیف ہوئی جو محض اپنا کام کر رہا تھا اور اسے آپ کی بدسلوکی کا نشانہ نہیں بنایا جانا چاہیے۔‘

’فوری طور پر یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ عملے کی صحت اور حفاظت کو یقینی بنانے اور اس کو یقینی بنانے کے لیے آپ کو عدالت کی عمارت میں داخل ہونے سے ہر وقت روکا جائے سوائے اس وقت کہ جب کسی سمن کا جواب دینے یا سرنڈر کرنے کے لیے عدالت میں حاضر ہونے کی ضرورت ہو یا ضمانت دینے یا آپ پر واجب الادا مالی جرمانے کے سلسلے میں ادائیگی کرنی ہو۔‘

کس وقت اکرم نے مقامی میڈیا کو بتایا کہ وہ بے قصور ہیں اور ان پر ریمارکس کا جھوٹا الزام لگایا گیا ہے کیوں کہ ’عدالت میں موجود لوگوں کو صرف میرے خلاف پیش کیا گیا ہے۔‘

پولیس نے اکرم کی طرف سے کسی سابقہ ​​جرم کی تفصیلات کی تصدیق نہیں کی ہے۔ ان کے اہل خانہ نے کہا کہ وہ مقامی پولیس کو جانتے تھے اور اس کا مجرمانہ ریکارڈ تھا۔

فیصل اکرم کا مقصد کیا تھا؟

ابتدائی اطلاعات میں بتایا گیا ہے کہ وہ پاکستانی نیورو سائنسدان عافیہ صدیقی کی رہائی کا مطالبہ کر رہے تھے، جو افغانستان میں امریکی فوجیوں کو گولی مارنے کی کوشش کے الزام میں فورٹ ورتھ کی جیل میں 86 سال قید کی سزا کاٹ رہی ہیں۔ 

وہ اپنے آپ کو بے گناہ کہتے ہیں۔ امریکہ اور پاکستان میں ٹیکساس میں قائم ’فری ڈاکٹر عافیہ‘ مہم سمیت متعدد حامیوں کا خیال ہے کہ انہیں پھنسایا گیا تھا۔

لائیو سٹریم سے یہ واضح ہے کہ ملک فیصل اکرم ایک مخصوص قیدی سے بات کرنا چاہتے تھے، جسے وہ اپنی’بہن‘ کہہ رہے تھے۔

یہ ممکنہ طور پر ایک اعزازی لفظ تھا، جو ایک جھوٹی ابتدائی رپورٹ کا ذریعہ بنا کہ وہ عافیہ  صدیقی کے حقیقی بھائی محمد ہیں، تاہم محمد کی وکیل نے بعد میں وضاحت کی کہ وہ 300 میل دور ہیوسٹن میں ہیں۔ 

عافیہ صدیقی کی وکیل نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ فیصل اکرم کا ان کے موکل یا ان کے اہل خانہ سے ’بالکل‘ کوئی تعلق نہیں ہے اور ان کی موکل نے ہمیشہ یہ کہا ہے کہ ان کے نام پر کوئی تشدد نہیں کیا جانا چاہیے۔ 

لائیو سٹریم میں فیصل اکرم یہ کہتے نظر آتے ہیں: ’یہ صورت حال ہے، ہاں؟ یہ داؤ پر ہے۔ آپ کے پاس ایک عبادت گاہ میں یرغمالی ہیں۔ اس نے ایک قیدی کو رہا کرنے کا مطالبہ کیا ہے اور وہ مرنے جا رہا ہے۔ ٹھیک ہے؟‘

بعد میں وہ مذاکرات کار سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ان کی ’بہن‘ کو فون پر لایا جائے اور کہتے ہیں کہ ’ایک بار جب آپ میری بہن لے آئیں گے تو حالات‘ بدل جائیں گے یا مڑ جائیں گے (یہ آڈیو میں واضح نہیں ہے)۔ 

ایک اور موقع پر ان کے مقاصد کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے دو بار دہرایا: ’میں ان (بہن) کی پرواہ کرتا ہوں، اسی لیے میں یہ کر رہا ہوں۔‘

ایف بی آئی کے خصوصی ایجنٹ انچارج میٹ ڈیسرنو نے کہا کہ ان کا خیال ہے کہ ’اس شخص کی توجہ صرف ایک مسئلے پر مرکوز تھی  اور اس کا خاص طور پر یہودی برادری سے کوئی تعلق نہیں تھا۔‘ انہوں نے مزید کہا کہ وہ ’مقصد جاننے کے لیے کام جاری رکھیں گے۔‘

یہودی رہنماؤں نے مبینہ طور پر ایف بی آئی کی اس واضح تجویز کی مذمت کی ہے کہ عبادت گاہ پر حملے کا یہود دشمنی سے کوئی تعلق نہیں ہوسکتا، خاص طور پرعافیہ صدیقی سے ممکنہ تعلق کو مدنظر رکھتے ہوئے۔ اپنے مقدمے کے دوران عافیہ نے یہود دشمنی پر مبنی کئی بیانات دیے اور ایک موقع پر مطالبہ کیا کہ جیوری کی جینیاتی جانچ کی جائے تاکہ یہودیوں کو نکالا جاسکے۔

ایف بی آئی اور گلبر اکرم دونوں نے یرغمال بنانے والے فیصل اکرم سے متعلق بیانات میں ’ذہنی صحت کے مسائل‘ کا حوالہ دیا۔

انہیں بندوق کیسے ملی اور کیا ان کے پاس دھماکہ خیز مواد تھا؟

بندوق خریدنے کے متعلق کھلے قوانین کے باوجود، ٹیکساس میں غیر ملکیوں، جو امریکی رہائشی نہیں ہیں، کو قانونی طور پر بندوق خریدنے کی اجازت نہیں۔ فیصل اکرم مبینہ طور پر دو ہفتے قبل امریکہ پہنچے تھے، تو یہ واضح نہیں ہے کہ انہوں نے ہتھیار کیسے حاصل کیا۔

ہفتے کے آخر میں فلاڈیلفیا میں ایک فوڈ بینک کے دورے کے دوران صدر جو بائیڈن نے کہا تھا کہ حکام کے پاس ابھی تک مکمل حقائق نہیں ہیں، تاہم ایک نظریہ ضرور پیش کیا۔ 

جو بائیڈن نے کہا کہ ’یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ انہیں گلی سے (غیر قانونی طریقے سے)  ہتھیار ملے۔ جب وہ امریکہ پہنچے تو انہوں نے ہتھیار خریدا۔ پتہ چلا ہے کہ ان کے پاس کوئی بم نہیں تھا، جس کے بارے میں ہم جانتے ہیں۔‘

سی بی ایس کے مطابق عبادت گاہ سے کوئی دھماکہ خیز مواد نہیں ملا تھا (اتوار کی رات 12 بجکر 17 منٹ تک)۔ فیصل اکرم نے مبینہ طور پر نامعلوم مقامات پر بم نصب کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔

ایک عہدیدار نے سی بی ایس کو بتایا کہ فیصل اکرم ہفتے کو ایک بے گھر شخص ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے عبادت گاہ کی سروس میں داخل ہوئے۔  

جو بائیڈن نے یہ بھی کہا کہ انہیں بتایا گیا ہے کہ یرغمال بنانے والے نے اپنی پہلی رات امریکہ میں بے گھر افراد کے لیے بنائی گئی ایک پناہ گاہ میں گزاری۔

امریکی صدر جو بائیڈن نے اکرم کے اقدامات کو ’دہشت گردی کی کارروائی‘ قرار دیا ہے۔

مانچسٹر کے دو نوجوانوں کا نامعلوم ربط

اتوار کی رات، مانچسٹر میں پولیس نے اکرم کے حملے کے سلسلے میں دو نوجوانوں کی گرفتاری کا اعلان کیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ ’نوجوان، جن کی عمر اور جنس کی انہوں نے فوری طور پر تصدیق نہیں کی، پوچھ گچھ کے لیے زیر حراست ہیں۔‘

یہ ابھی تک واضح نہیں ہے کہ نوعمروں کا اس کیس سے یا اکرم سے کیسے تعلق تھا۔

© The Independent

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا