سپریم جوڈیشل کونسل میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس کی سماعت کے پیش نظر آج ملک بھر میں وکلا کی جانب سے عدالتی بائیکاٹ کیا گیا۔
چیف جسٹس پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں اعلیٰ عدلیہ کے ججز کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل نے سماعت کی۔ اجلاس میں سپریم کورٹ کے جسٹس گلزار احمد اور جسٹس عظمت سعید شیخ کے علاوہ چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ علی احمد شیخ اور چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ جسٹس وقار احمد سیٹھ بھی شریک ہوئے۔ سپریم جوڈیشل کونسل کے اجلاس میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف حکومتی ریفرنس کے قابل سماعت ہونے پر سماعت ہوئی تاہم اجلاس کی کارروائی کا کوئی اعلامیہ جاری نہیں کیا گیا۔
سماعت سے قبل پاکستان بار کونسل، سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن اور چاروں صوبائی بار کونسلوں نے آج ہڑتال کا اعلان کیا تھا جبکہ وکلا احتجاج بھی جاری رہا۔
اسلام آباد میں وکلا نے سپریم کورٹ کے داخلی راستے پر کرسیاں لگا کر لوگوں کی آمد و رفت کو روکا ہوا ہے اور سپریم کورٹ بار کے صدر امان اللہ کنرانی نے سپریم کورٹ میں جسٹس قاضی فائز کے خلاف ریفرنس کو بھی نذر آتش کیا۔
وکلا برادری نے ریفرنس کی سماعت کے دن کو یوم سیاہ کا نام دیا ہے اور اسی سلسلے میں ملک بھر میں احتجاج کی کال دی ہے۔
کوئٹہ سے ایڈووکیٹ سید نذیر آغا نے احتجاج کا انوکھا انداز اپنایا اور ہتھکڑی لگا کر پہنچ گئے۔
ایک طرف وکلا برادری ریفرنس کے خلاف احتجاج کے لیے پر تول رہی ہے تو دوسری جانب مبینہ طور پر حکومتی حمایت یافتہ ’وکلا ایکشن کمیٹی‘ نے ایک کنونشن میں ریفرنس کی حمایت کا اعلان بھی کیا تھا۔
وکلا کی رجسٹرڈ تنظیمیں اس کنونشن کو مسترد کرتے ہوئے اسے حکومتی اور پس پردہ قوتوں کی سازش قرار دے چکی ہیں لہذا ریفرنس کے حق میں کوئی بھی مرکزی وکلا تنظیم دکھائی نہیں دیتی جس سے امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ وکلا تحریک حکومت کے لیے کافی مشکلات کھڑی کر سکتی ہے، کیونکہ ماضی کی طرح اس بار بھی اپوزیشن جماعتیں وکلا کے ساتھ ہیں۔
پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین امجد شاہ نے کہا ہے کہ بار کی جانب سے اختر حسین شاہ کواعلیٰ عدلیہ میں ججز کی تقرری کے لیے قائم جوڈیشل کمیشن کا رکن نامزد کیا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان بار نے متفقہ قرارداد کے ذریعے ججز کے خلاف ریفرنس کو بدنیتی پر مبنی قرار دیا ہے اور وہ حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ریفرنسز واپس لیے جائیں۔
امجد شاہ کا مزید کہنا تھا کہ سپریم جوڈیشل کونسل بغیر کسی دباؤ کے ریفرنسز پر فیصلہ کرے جبکہ حکومت نے بار کو تقسیم کرنے کی کوشش کی جس کی مذمت کرتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کے بقول پرامن احتجاج ہوگا اور غیر قانونی حرکت نہیں ہونے دی جائے گی جبکہ اس ضمن میں وکلا ایکشن کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے جس کی سربراہی پاکستان بار کرے گی۔
امجد شاہ کہتے ہیں کہ وکلا صرف اپنی منتخب باڈی کے ساتھ ہی احتجاج کریں گے کیونکہ وکلا کی قیادت تحریک چلانے اور قیادت کرنے کی اہلیت رکھتی ہے۔ امجد شاہ نے کہا کہ بار نے اٹارنی جنرل سے استعفے کا مطالبہ واپس لے لیا ہے تاہم اکثریت کی بنیاد پر وزیر قانون سے استعفی لینے کا مطالبہ کیا گیا۔
’فروغ نسیم کو رکنیت خاتمے کے لیے پاکستان بار نے شوکاز نوٹس جاری کر دیا ہے، بطور وفاقی وزیر فروغ نسیم بار کا کوئی عہدہ نہیں رکھ سکتے۔‘
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر امان اللہ کنرانی نے بھی کہا ہے کہ حکومت نے سپریم کورٹ میں بلوچستان سے واحد جج کے خلاف ریفرنس بھیجا ہے جو قابل مذمت ہے اور اس کے خلاف جمعہ کو سماعت کے موقع پر ہڑتال اور بائیکاٹ کیا جائِ گا۔
سپریم کورٹ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے امان اللہ کنرانی نے کہا کہ قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف کارروائی ہوئی تو آئندہ بلوچستان سے 20 سال تک کوئی جج نہیں آ سکے گا۔
انھوں نے کہا کہ سپریم کورٹ عمارت کی سیڑھیوں پر دھرنا ہو گا۔
’جمعے کو ہم نو بجے سپریم کورٹ کے باہر بیٹھیں گے جب تک ریفرنس کی کارروائی ختم نہیں ہوتی تب تک بیٹھیں گے۔‘
ریفرنس کے حامی وکلا کا کنونشن
دوسری جانب ریفرنس پر پنجاب بار کونسل کی ایکشن کمیٹی نے اچانک 14 جون کی ہڑتال سے لاتعلقی کا اعلان کرتے ہوئے پاکستان بار کونسل سے ہڑتال کی کال واپس لینے کا مطالبہ کیا تھا۔
پنجاب بار کونسل کے سیکریٹری ایڈووکیٹ شاہد گوندل کی سربراہی میں اسلام آباد میں وکلا ایکشن کمیٹی کا اجلاس ہوا، جس میں پنجاب بار کونسل سمیت ملک بھر کی بار ایسوسی ایشنز کے بعض نمائندے شریک ہوئے۔
اجلاس میں فیصلہ کیاگیا کہ ریفرنس کے معاملے پر شخصیت کی نہیں بلکہ ’رول آف لا‘ کی پیروی کرنی ہے۔
’ہمارا مقصد بےلاگ احتساب ہے اور ہمیں شخصیت کو نہیں بلکہ اداروں کو مضبوط دیکھنا ہے، آئین ججز کے احتساب کا فورم مہیا کرتا ہے۔‘
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سینیئر رکن رائے بشیر کھرل نے کہا کہ صدر مملکت نے ریفرنس بھیج کر اپنی آئینی ذمہ داری پوری کی اب سپریم جوڈیشل کونسل کو فیصلہ کرنے کا موقع دیا جائے۔
’ہم جج بچاؤ تحریک نہیں چلائیں گے نہ ہی کسی جج یا سیاسی جماعت کے آلہ کار بنیں گے۔‘
صدر سپریم کورٹ بار امان اللہ کنرانی سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ وہ ’2007 کی وکلا تحریک کے وقت ڈکٹیٹر پرویز مشرف کے وکیل تھے۔‘
پنجاب بار کونسل وکلا ایکشن کمیٹی کے ارکان نے کہا کہ آرٹیکل 209 کے تحت سپریم جوڈیشل کونسل میں کسی بھی جج کا احتساب ہوسکتا ہے۔ ’قانون سے کوئی بالاتر نہیں چاہے وہ جج ہی کیوں نہ ہو۔‘
ججز ریفرنس کی حمایت میں کنونشن کس نے کرایا تھا:
وائس چیئرمین پنجاب بار کونسل شاہنواز گجر کے مطابق اس کنوشن کا انعقاد پنجاب بار کونسل کے رکن ایڈووکیٹ شاہد گوندل نے کیا تھا۔
شاہد گوندل تحریک انصاف کے سرگرم رکن ہیں اور وہ پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر پنجاب اسمبلی کے حلقہ پی پی 67 سے الیکشن بھی لڑ چکے ہیں۔
شاہد گوندل کو تحریک انصاف کی حکومت نے وفاقی ترقیاتی ادارے سی ڈی اے میں قانونی مشیر بھی تعینات کیا ہوا ہے۔
شاہد گوندل کے ساتھ اس اجلاس میں رمضان چودھری نامی وکیل بھی سرگرم رہے جو بابر اعوان کے معتمد خاص ہیں۔ اجلاس کے تیسرے اہم روح رواں جمیل بھٹی ایڈووکیٹ بھی تحریک انصاف میں شامل ہیں۔
مرکزی وکلا تنظیموں کا عزم:
وائس چیئرمین پنجاب بار کونسل شاہنواز گجر نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا کہ خیبر سے کراچی تک ہر چھوٹی بڑی وکلا تنظیم عدلیہ کے ساتھ کھڑی ہے جبکہ ریفرنس کے خلاف صوبہ بھر میں ہڑتال اور احتجاج کی کال دیدی گئی ہے۔
’حکومت اور اسٹیبلشمنٹ وکلا تحریک سے خوفزدہ ہیں اور اپنے نور نظر چند وکلا کو ساتھ ملا کر اسلام آباد میں کنونشن منعقد کرایا گیا جو ناکام رہا۔‘
’ میرا کام صرف ریفرنسز کو آگے بھیجنا تھا ‘
وزیر قانون فروغ نسیم نے کہا ہے کہ ججز کے خلاف ریفرنسز سے ان کا کوئی تعلق نہیں۔
’میرے پاس ریفرنسز ایف بی آر سے آئے، دستاویزات کی تصدیقی عمل کے بعد ریفرنسز آگے بڑھائے۔‘
’میرا کام صرف ریفرنسز کو آگے بھیجنا تھا، میرا پہلا تعلق بار اور پھر اس حکومتی عہدے سے ہے، ریفرنسز پر حتمی فیصلہ سپریم جوڈیشل کونسل کو کرنا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ پر امن احتجاج وکلا کا حق ہے لیکن قانون ہاتھ میں لینے کی کسی کو اجازت نہیں دی جائے گی۔
سابق چیف جسٹس افتخار چودھری کی پیشکش:
وکلا کی جانب سے 2007 میں مشرف دور میں سابق چیف جسٹس کو معزول کیے جانے اور ان کے خلاف ریفرنس بھجوانے پر وکلا نے موثر تحریک چلائی اور انہیں ان کے عہدے پر بحال کرایا گیا تھا۔ اس تحریک کی قیادت جسٹس (ر)افتخار چودھری، وکلاء رہنما حامد خان، عاصمہ جہانگیر، اعتزاز احسن، منیر اے ملک، علی احمد کرد و دیگر نے کی تھی۔
سابق چیف جسٹس کی بحالی سے انحراف پر پیپلز پارٹی کے دور میں سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کی زیر قیادت لاہور سے اسلام آباد لانگ مارچ روانہ ہوا لیکن گجرانوالہ پہنچتے ہی اس وقت کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے معزول ججز کی بحالی کا اعلان کر دیا تھا تھا۔
اس مرتبہ جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس کو بھی وکلا حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کی عدلیہ کے خلاف سازش قراردے کر تحریک کا اعلان کر چکے ہیں، ذرائع کے مطابق سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے پاکستان بار کونسل اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے عہدیداروں سے رابطہ کر کے’عدلیہ بچاؤ تحریک‘ کی قیادت کرنے سے متعلق خواہش کا اظہار کیا ہے لیکن ابھی تک وکلا رہنماؤں نے ان کی قیادت سے متعلق کوئی فیصلہ نہیں کیا۔
دیکھیے اسی موضوع پر حامد میر اور ہارون رشید کا تجزیہ؛