ٹرانس جینڈر باعزت روزگار سے مستقل وابستہ کیوں نہیں ہوتے؟

تعلیم یافتہ اورروزگار سے وابستہ خواجہ سراؤں کے حوالے سے اکثر خوشگوار خبریں ملتی ہیں لیکن کیا وجہ ہے کہ خواجہ سرا ’مستقل طور پر‘ باعزت روزگار سے وابستہ نہیں رہتے؟

مایا زمان نے گھر سے لے کر گروجی بننے تک تمام نشیب و فراز دیکھے ہوئے ہیں (تصویر: مایا زمان)

’ہائے اللہ، چندا اپنے حسن کا صدقہ ہی دیتی جاؤ۔ ارے گڑیا دیکھو انکار نہ کرنا ۔ دس بیس نہیں لیتی سو پچاس کا نوٹ تو دو۔۔‘

اٹھلا اٹھلا کر یہ جملے بولتےسجے سنورے کئی ناموں سے پہچانے جانے والے خواجہ سرا ہمیں تقریباً ہر روز ہی کسی نہ کسی سڑک کنارے دکھائی دیتے ہیں یا  نجی تقریبات میں ناچنے گانے والے خواجہ سراؤں کی تصویریں اور ویڈیوز بھی کہیں دیکھنے کو مل ہی جاتی ہیں۔ اور ساتھ ہی ان کے قتل اور تشدد کی خبریں آئے روز آنکھوں اور کانوں سے گزرتی  ہیں۔

انتہائی افسوسناک امر یہ ہے کہ قتل اور تشدد کی کچھ وارداتیں تو انتہا کی بہیمانہ ہوتی ہیں لیکن اس کے باوجود وہ اپنا تاثر نہیں قائم کر پاتیں۔

ان وارداتوں کا درد نہ پڑھنے والے کو ہوتا ہے، نہ ہی خواجہ سرا کے متعلقین کو اور نہ ہی قانون کے ٹھیکیداروں کو۔ ’خس کم جہاں پاک‘ کہہ کر سب ہاتھ جھاڑتے پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔

دوسروں کے یہ رویے کئی طرح کے سوال اٹھاتے ہیں، لیکن کچھ سوالات ان خواجہ سراؤں کی اپنی ذات سے جڑی سوچ سے  متعلق بھی ہیں۔

ہمارے معاشرے میں ٹرانس جینڈرز کی پہچان صرف سیکس ورکرز اور بھکاری کی ہی کیوں ہے؟ خواجہ سرا کسی باعزت روزگار یا ہنر سے مستقل طور پر وابستہ کیوں نہیں ہوتے ان سوالات پر غور کرنا لازمی ہے۔

ٹرانس جینڈر کمیونٹی کے لئے اب تک کیے گئے اقدامات:

گذشتہ دس بارہ برسوں میں خواجہ سراؤں کے حقوق کے حوالے سے مختلف پلیٹ فارمز پر بہت کام کیا گیا۔ سرکاری اداروں میں خواجہ سراؤں کے لیے ایک فی صد نشستیں مختص کی گئیں جب کہ بعض نجی اداروں نے بھی خواجہ سراؤں کے لیے مناسب روزگارکا انتظام کیا۔

نادرا سمیت بہت سے دیگر نجی اور سرکاری اداروں میں  پڑھے لکھے خواجہ سرا باعزت روزگار سے وابستہ بھی ہوئے ہیں۔ جنہیں ایک مثال کے طور پر معاشرے میں پیش کیا گیا لیکن ایک تلخ حقیقت اپنی جگہ ہے کہ صرف چند ماہ یا سال دو سال کے عرصے میں ایک بڑی تعداد وہ سرکاری یا نجی ملازمتیں ترک کرکے اپنی کمیونٹی اوراس سے جڑی مصروفیات کی طرف لوٹ گئے۔

اس حوالے سے ایک نمایاں مثال مارویہ ملک اعوان کی ہے۔ جنہیں پاکستان کی پہلی خواجہ سرا نیوز اینکر کا اعزاز حاصل ہے۔ ایک نجی نیوز چینل نے انہیں باقاعدہ ٹریننگ دے کربطور نیوز اینکر موقع دیا۔ اس عمل کو ملکی اور بین الاقوامی  سطح پر بہت سراہا گیا۔ چینل کو بھی خوب پذیرائی حاصل ہوئی اور چھوٹا سا نیوز چینل لوگوں کی نظروں میں آگیا۔

مارویہ کے مطابق میٹرک تک تعلیم انھوں نے اپنے گھر پر رہ کر حاصل کی جس کے بعد وہ ٹرانس کمیونٹی میں دیگر خواجہ سراؤں کے ساتھ رہنے لگیں۔ سڑکوں پر ہاتھ پھیلا کر اورناچ گانے کی محفلوں کا حصہ بن کر انھوں نے پیسے کمائے اور اپنے خرچے پر تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا۔

جامعہ پنجاب سے گریجویشن کرنے والی باہمت مارویہ نے ماڈلنگ کا آغاز کیا۔ رفتہ رفتہ ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے نیوز اینکر کی ایک نئی پہچان لے کر وہ نہ صرف خواجہ سراؤں کے لیے بلکہ عام لوگوں کے لیے بھی ایک رول ماڈل کی حیثیت اختیار کرنے لگیں کہ اگر انسان چاہے تو حالات چاہے کچھ بھی ہوں وہ اپنی شناخت، اپنی پہچان خود بنا سکتا ہے۔ مگر یہ پہچان زیادہ عرصے تک قائم نہیں رہ سکی۔ صرف سال ڈیڑھ سال بعد وہ مارویہ ہی تھیں جنہوں نے مبینہ طور پر انتظامیہ کے رویے سے تنگ آ کر ملازمت چھوڑ دی اور واپس اپنی کمیونٹی کا حصہ بن گئیں۔ اپنی کمیونٹی سمیت کچلے ہوئے طبقے کے لیے رول ماڈل بن جانے والی مارویہ نے ایسا کیوں کیا؟

اس سوال کا جواب جاننے کے لیے  ہم نے مارویہ سے بات کی تو ان کا کہنا تھا: ’ٹرانس جینڈر کیونکہ دنیا بھر میں ایک ہاٹ ایشو ہے تو آرگنائزیشنز خواجہ سراؤں کی ملازمت کو اپنے ادارے کی پبلسٹی کے لیے ایک ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کرتی ہیں تاکہ دنیا میں ان کی واہ واہ ہو۔

’عوامی مقبولیت اور پذیرائی کے چکر میں وقتی طور پر خواجہ سراؤں کو ملازمت دے تو دیتے ہیں لیکن جیسے ہی ان کا مقصد پورا ہوتا ہے تو خاموشی سے یا تو اس شخص کو ملازمت سے فارغ کردیا جاتا ہے یا انہیں اتنا پریشان  کرتے ہیں کہ تنگ آکر خواجہ سرا خود ہی ملازمت چھوڑ دیتا ہے ۔ان کی تنخواہ کاٹ لیتے ہیں، 40، 50 ہزار تنخواہ ہو تو 20 ہزار کردیتے ہیں۔ میرے ساتھ بھی ایسی ہی نا انصافیاں ہوئیں۔ اس لیے میں نے ملازمت چھوڑ دی۔’ 

مارویہ کے جواب سے پھر ایک نکتہ اٹھا کہ گذشتہ تین برسوں میں  پاکستانی میڈیا بدترین دور سے گزرا ہے ایک مارویہ ہی نہیں بلکہ میڈیا سے وابستہ ہزاروں لوگوں کو ملازمتوں سے نکال دیا گیا۔ لوگ سڑکوں پر آگئے  لیکن جینے کی کوئی نہ کوئی راہ نکال ہی لی۔ مارویہ بھی اگر چاہتیں تو میڈیا کے بجائے کسی بھی دوسرے شعبے میں باعزت روزگار سے وابستہ ہوسکتی تھیں لیکن ان کی آخر ایسی کون سی مجبوریاں تھیں کہ انہوں نے اپنی کمیونٹی اور کمیونٹی سے منسلک پیشوں میں واپس جانا بہتر سمجھا؟

یہی سوال جب ہم نے مارویہ سے کیا تو انہوں نے اس  کا ذمے دار معاشرے کو قرار دیا۔ ان کا کہنا ہے کہ: ’معاشرے نےخواجہ سراؤں کو بتا دیا ہے کہ تمہاری جگہ دفتر نہیں بلکہ سڑک ہی ہے تو وہ اپنے لیے اسی کو بہتر سمجھتے ہیں۔ ان کو بچپن میں اپنے گھر سے ہی امتیازی سلوک کا سامنا ہوتا ہے۔ معاشرے میں ہر جگہ چاہے وہ گھر ہو تعلیمی ادارہ یا ملازمت کا معاملہ ان  کی تذلیل کی جاتی ہے۔ اگر خوش قسمتی سے خواجہ سرا پڑھ لکھ گیا ہے تو اول تو اسے ملازمت ملے گی نہیں اگر ملازمت مل گئی تو یہ امتیازی سلوک جاری رہے گا۔

’اسے اپنا آپ بہت سنبھال کر ڈھانپ کر رہنا ہوگا آزادی کا احساس نہیں ہوگا۔ تو ظاہر ہے ٹرانس تو یہی سوچیں گے کہ جو تذلیل مجھے اس ادارے میں رہ کر سہنی پڑ رہی ہے اس سے بہتر تو سڑک پر بھیک مانگنا ہے۔ تذلیل تو دونوں جگہ ہے لیکن ناچنے گانے میں آمدنی کا واضح فرق ہے۔ یہ کمائی کا آسان اور خود مختار پیشہ ہے تو کیوں نہ میں ٹرانس جینڈر اشخاص کا روایتی کام بغیر منافقت کے شروع کرلوں جس میں مجھے پیسہ بھی زیادہ ملے۔’

 مارویہ کے خیالات سن کر اندازہ تو یہ ہوا کہ یہ معاملہ عزت سے زیادہ کچھ اور ہے۔ جو ہم اکثر سنتے ہیں کہ ’ٹرانس جینڈر اپنی بقا کے لیے جسم فروشی پر مجبور ہیں۔’ اس تصور میں حقیقت بھی ہے کہ نہیں؟

پروفیشل ٹرانس جینڈر ایکٹوسٹ مایا زمان کیا کہتی ہیں؟

ٹرانس جینڈر کمیونٹی کی ایک بڑی تعداد مارویہ کی ہم خیال ہے۔ لیکن کچھ خواجہ سرا بالکل مختلف خیالات بھی رکھتے ہیں ایسی ہی ایک  ٹرانس جینڈر ایکٹوسٹ مایا زمان بھی ہیں جنہوں نے گھر سے لے کر گروجی بننے تک تمام نشیب و فراز دیکھے ہوئے ہیں۔ یونیورسٹی سے ماسٹرز ڈگری مکمل کرنے والی مایا نے کچھ عرصے کے لیے اپنی کمیونٹی میں شمولیت اختیار کی لیکن جلد ہی وہ واپس لوٹ گئی۔ ڈگری مکمل کی اور اب ایک ایکٹوسٹ کی حیثیت سے نجی ادارے میں باعزت روزگار سے وابستہ ہیں۔

مایا کا کہنا ہے کہ یہ بات سٹیریو ٹائپ سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتی کہ خواجہ سراؤں کا کام صرف بھیک مانگنا، ناچ گانا یا سیکس ورک ہی ہے گذشتہ کچھ برسوں میں اس کچلی ہوئی کمیونٹی کے حقوق کے لیے کافی کام ہوا ہے، قوانین بنے ہیں۔ معیارِ زندگی بہتر بنانے۔ تعلیم اور روزگار کے حوالے سے جدوجہد رنگ لا رہی ہے اور صورتحال میں رفتہ رفتہ بہتری آرہی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے مزید کہا کہ ایک اچھے پروفیشنل کی حیثیت سے ٹرانس جینڈر مختلف شعبوں میں کافی کام کررہے ہیں۔ جاب مارکیٹ میں پڑھے لکھے ٹرانس جینڈر کی ڈیمانڈ بہت زیادہ ہے لیکن سپلائی نہ ہونے کے برابر ہے۔

تعلیم یافتہ اورروزگار سے وابستہ  خواجہ سراؤں کے حوالے سے اکثر خوشگوار خبریں ملتی ہیں لیکن کیا وجہ ہے کہ خواجہ سرا مستقل طور پر باعزت روزگار سے وابستہ نہیں رہتے۔

اس پر مایا کہتی ہیں: ’ایک ٹرانس پرسن جو صبح صبح اٹھ کر دفتر جاتے ہیں۔ وہاں انہیں عام لوگوں کی طرح محنت سے ذمے داریاں پوری کرنی ہوتی ہیں، دفتر میں مقام بنانا ہوتا ہے، باس کی جھڑکیاں بھی سننی ہوتی ہیں۔ مقابلے بازی کی فضا میں اپنی جگہ بنانی ہوتی ہے۔ مہینے کے آخر میں اسے ابتدا میں 30 سے 40 ہزار روپے ملتے ہیں اور دوسری خواجہ سرا کو جو اپنی مرضی سے اپنے وقت کے حساب سے سڑک پر نکلتے ہیں اور بھیک یا رقص کی الگ کمائی کرتے ہیں تو وہاں آمدنی کا واضح فرق ہے۔’

انہوں نے کہا کہ باعزت روزگار والی ٹرانس کو سخت محنت کے بعد ایک محدود آمدنی ملے گی جبکہ سڑک پر نکلنے والی ٹرانس  کی آمدنی باعزت روزگار کے مقابلے میں کم از کم دگنی ہوگی ساتھ ہی خودمختاری کا احساس بھی۔ تو ظاہر ہے کمائی کا یہ آسان طریقہ خواجہ سراؤں کے لیے پرکشش ہے۔ وہ اس میں عزت اور بے عزتی کے بجائے بہتر آمدنی اور خودمختاری کو ترجیح دیتے ہوئے ان پیشوں سے وابستہ ہونا بہتر سمجھتے ہیں۔ اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ باعزت روزگار سے وابستہ ہونے والے زیادہ تر خواجہ سرا کچھ ہی عرصے میں  اپنی کمیونٹی اور ان سے وابستہ پیشوں میں واپس چلے جاتے ہیں ۔ 

ان کے مطابق اس کے علاوہ ایک بہت بڑی وجہ ٹرانس کمیونٹی یا ’گروجی کلچر‘ ہے۔ یہ گرو جی اتنے مضبوط ہیں کہ آپ ان کے خلاف آواز نہیں اٹھا سکتے۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ گرو جی خود خواجہ سراؤں کا استحصال کرتے ہیں۔ پہلے خواجہ سراؤں کے پاس کمیونٹی کے ساتھ رہنے کے سوا آپشن نہیں تھے لیکن اب ان کے پاس بہت سے آپشن ہیں۔

اس تمام صورتحال کی جہاں دوسری بہت سی وجوہات ہیں وہیں مایا کے خیال میں اس کی ایک بڑی وجہ لوگوں کا رویہ بھی ہے۔ وہ کہتی ہیں ’سب سے پہلےآپ خواجہ سراؤں کو بھیک دینا بند کریں۔ انہیں محنت کی عادت ڈالیں۔‘

ان کا کہنا تھا: ’خواجہ سرا کمیونٹی کے افراد کو تعلیم دلائیں، باعزت روزگار کی راہ ہموار کریں۔ مچھلی مت دیں بلکہ مچھلی پکڑنا سکھائیں۔ مچھلی دے دے کر آپ ان کی عادتیں خراب کررہے ہیں۔ جب تک بھیک، محفلوں میں بلا کر ناچ گانا، مجرا کرانا اور جسم فروشی بند نہیں کی جائے گی، اس وقت تک خواجہ سرا بھی اپنے آپ میں تبدیلی لانے کی شعوری کوشش نہیں کریں گے۔ وقت آگیا ہے کہ معاشرہ اس معاملے میں اپنی ذمے داری کو سمجھے۔‘

کیا  سوچ میں تبدیلی آئے گی؟

کیا واقعی ٹرانس جینڈر ملازمت کے بجائے خود مختار رہنا زیادہ پسند کرتے ہیں؟ مایا کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ یہ الزام نہیں بلکہ حقیقت ہے کہ ٹرانس ایک خودمختار زندگی گزارنا زیادہ پسند کرتے ہیں۔ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ ان کا طرز زندگی ایسا ہو کہ کسی کی جواب دہی کا خوف نہ ہو۔ لیکن خواجہ سراؤں کو یہ بات جلد از جلد سمجھنی ہوگی کہ جہاں آپ اپنے حق کی بات کررہے ہیں۔ برابری مانگ رہے ہیں وہاں آپ کو ذمے داریوں میں بھی برابری دکھانی ہوگی۔

وہ کہتی ہیں: ’میں ایک طویل عرصے سے ٹرانس ایکٹوسٹ کے طور پر کام کررہی ہوں تو مجھے پوری امید ہے کہ آئندہ 10، 15 برسوں میں صورتحال بہت تبدیل ہوچکی ہوگی۔ ڈیمانڈ کے مطابق پڑھے لکھے ٹرانس جینڈرز باعزت روزگار سے وابستہ ہونے کو ترجیح دیں گے۔

ماضی کے مقابلے میں آج ٹرانس جینڈر کو اپنی زندگی بنانے کے لیے بہت سے مواقع دستیاب ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹر سارہ گل سے لے کر مارویہ اور مایا زمان تک ہمیں بہت سے اچھی مثالیں نظر آتی ہیں لیکن اب وقت آگیا ہے کہ معاشرے کو ذمہ داریوں کا احساس دلانے اور حقوق کی بات کرنے والے خواجہ سرا اپنی ذمہ داریوں کو بھی محسوس کریں۔ ثابت کریں کہ اگر انہیں مواقع ملیں گے تو وہ کسی سے کم نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ