برطانوی شہریت کے قانون میں تبدیلی کا پاکستانیوں پر کیا اثر ہوگا؟

مجوزہ بل کی منظوری سے برطانوی وزیر داخلہ کو اختیار حاصل ہو جائے گا کہ وہ کبھی بھی کسی بھی شہری کو پیشگی اطلاع کے بغیر، حتیٰ کہ ان کی غیر موجودگی میں بھی، ان کی شہریت منسوخ کر دیں۔

برطانوی پارلیمان کے ایوان بالا میں کمیٹی کی سطح پر شہریت کے بنیادی قانون میں تبدیلی کا بل زیر بحث ہے جس کے خلاف لندن اور برطانیہ بھر میں احتجاج اور مظاہرے ہو رہے ہیں۔

گذشتہ روز سینٹرل لندن کی ایک سڑک پر ایشیا اور افریقہ سے تعلق رکھنے والے افراد نے احتجاج کیا، جن کا تعلق ایشیا کی مسلم، سکھ، مسیحی اور یہودی آبادیوں سے تھا۔

احتجاج میں شریک سکھ کمیونٹی کے ایک رکن نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’ہاؤس آف لارڈز ترامیم کے ساتھ اسے واپس بھیج سکتا ہے۔ اس لیے ہم ہاؤس آف لارڈز کے اراکین سے التجا کرتے ہیں کہ ٹھیک طرح سے اس کی جانچ پڑتال کریں اور درست ترامیم تجویز کریں۔ ہر شق کی تفصیل کو دیکھیں کیوں کہ وزیر داخلہ کو بہت غیر جمہوری اختیار دے دیا جائے گا کہ وہ بغیر نوٹس اور بغیر طریقہ کار کسی کی شہریت منسوخ کر دے۔‘

مجوزہ بل اگر منظور ہو گیا تو برطانوی وزیر داخلہ کو اختیار حاصل ہو جائے گا کہ وہ کبھی بھی کسی بھی شہری کو پیشگی اطلاع کے بغیر، حتیٰ کہ اس کی غیر موجودگی میں بھی، ان کی شہریت منسوخ کر دیں۔

احتجاج میں شریک کچھ مظاہرین کا خیال تھا کہ اس بل کا اطلاق صرف ان برطانوی شہریوں پر ہوگا جن کی پیدائش کے وقت ان کے والدین کے باس برطانوی شہریت نہیں تھی۔ قانون میں الفاظ کے ہیر پھیر سے اس تبدیلی کا سب سے زیادہ اثر برطانیہ کے مسلمان شہریوں پر پڑے گا۔

اسی لیے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کئی مظاہرین نے اس مجوزہ قانون کو ’نسل پرستانہ‘ اور ’کالا قانون‘ کہہ کر پکارا۔

ایک افریقی خاتون نے جو احتجاج میں شریک تھیں، انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’میں اپنے پاکستانی بہن بھائیوں سے اظہار یکجہتی کرنے یہاں آئی ہوں۔ نیشنیلٹی اینڈ بارڈرز بل میں ترمیم ظالمانہ ہے۔ یہ ہمیں کئی طرح سے کم تر بناتا ہے۔ ہم برطانوی کالونیاں رہے۔ انہوں نے افریقہ اور ایشیا میں ہمارے ملک تباہ کر دیے۔ اب ہمیں برطانوی شہریت مل گئی ہے لیکن پھر بھی ہمیں کم تر سمجھا جاتا ہے۔ ہمیں جلا وطن کیا جا سکتا ہے۔ اس ملک سے نکالا جا سکتا ہے۔‘

یاد رہے کہ یہ بل ہاؤس آف کامن (برطانیہ کے ایوان زیریں) سے منظوری کے بعد ہاؤس آف لارڈز (ایوان بالا) پہنچا جہاں پہلے دو مراحل سے گزرنے کے بعد اب اسے کمیٹی کی سطح پر جائزے کے لیے بھجوایا گیا ہے۔ کمیٹی کی سطح پر اس مجوزہ ترمیم کا شق وار جائزہ لیا جائے گا۔

نیشنیلٹی اینڈ بارڈرز بل میں مجوزہ بل کی متنازع شقیں

اس مجوزہ ترمیم کی سب سے متنازع شق بغیر پیشگی اطلاع کے شہریت منسوخ کرنے کا اختیار ہے جو وزیر داخلہ کو حاصل ہو جائے گا۔

اسی طرح اس شق کا اطلاق صرف ایسے افراد پر کرنا جن کی پیدائش کے وقت ان کے والدین برطانوی شہری نہیں تھے، اسے چند مخصوص نسلوں کے لیے خاص بناتا ہے۔

دی انڈپینڈنٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق اس مجوزہ ترمیم میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ برطانیہ میں سیاسی پناہ کے خواہش مند افراد کو صرف عارضی پناہ دی جائے گی، جس کے دوران انہیں اپنے خاندان سے ملنے کا حق حاصل نہیں ہوگا۔

اس خاص شق کے اثرات پر برطانیہ کی ایک غیر سرکاری تنظیم ریفیوجی کونسل کے سربراہ اینور سولومن نے دی انڈپینڈنٹ کو بیان دیا کہ ’یہ اقدام وزیر داخلہ کے دعوے کے بالکل مخالف ہے جس میں انہوں نے برطانیہ آنے والے غیر قانونی راستوں کی روک تھام کا اعادہ کیا تھا۔ پناہ گزینوں کو اپنے خاندان سے ملنے کا حق نہ دینا پہلے سے کمزور افراد کو خطرناک راستوں پر دھکیلنے کے مترادف ہے جہاں انسانی سمگلر ان کا فائدہ اٹھائیں گے۔‘

شہریت کے قانون میں ترمیم کی ضرورت کیوں پیش آئی؟

فروری 2009 میں شمیمہ بیگم نامی 15 سالہ برطانوی لڑکی ممکنہ طور پر داعش کے پروپیگنڈے سے متاثر ہو کر شام پہنچ گئی تھیں، جہاں انہوں نے داعش کے ایک ہینڈلر سے شادی بھی کی تھی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بعد ازاں وہ داعش کے اثر و رسوخ سے آزاد ہوئیں اور بالآخر ایک ٹی وی انٹریو کے ذریعے منظر عام پر آئیں جس میں انہوں نے برطانیہ واپس آ کر دہشت گردی کے خلاف حکومت کا ہاتھ بٹانے کا عندیہ دیا۔

اسی دوران برطانیہ کی کورٹ آف اپیل میں ایک کیس زیر بحث رہا جس میں ایک برطانوی خاتون کو بغیر پیشگی اطلاع کے ان کی برطانوی شہریت سے محروم کر دیا گیا تھا اور وہ برطانیہ واپس لوٹنے کی خواہش مند تھیں۔

دی انڈپینڈنٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق مذکورہ خاتون کی شناخت صرف ’ڈی فور‘ کے دو الفاظ سے کی گئی۔ لیکن ان خاتون کی موجودگی کے بارے میں کہا گیا کہ وہ شام کے اسی پناہ گرین کیمپ میں موجود ہیں جہاں شمیمہ بیگم تھیں۔

دی انڈپینڈنٹ نے رپورٹ کیا کہ برطانیہ کی وزارت داخلہ یہ مقدمہ ہار گئی، جس میں خاتون جج جسٹس وہیپل نے ریمارکس میں کہا: ’ہو سکتا ہے وزیر داخلہ کے پاس پالیسی کو لے کر اچھے جواز موجود ہوں کہ بغیر کسی پیشگی اطلاع کے کسی شہری کی شہریت منسوخ کر دی جائے مگر موجودہ قانون کے تحت یہ غیر قانونی ہے۔‘

جسٹس وہیپل نے ریمارکس میں مزید کہا کہ ’اگر حکومت خواہش رکھتی ہے کہ وزیر داخلہ کو شہریت منسوخ کرنے کا اختیار دے دیا جائے تو اسے پارلیمان کو راضی کرنا چاہیے کہ بنیادی قانون میں ترمیم کر دیں، جیسا کہ وہ اب بھی نیشنل اینڈ بارڈر بل کے ذریعے کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس کا فیصلہ پارلیمان نے کرنا ہے۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا