’پشاور زلمی کا گھر‘: ارباب نیاز سٹیڈیم کا تعمیراتی کام کہاں تک پہنچا؟

جب بھی پاکستان سپر لیگ کا میلہ سجتا ہے تو پشاور کے ارباب نیاز کرکٹ سٹیڈیم کا ذکر ضرور آتا ہے اور پشاور میں کرکٹ شائقین اس سٹیڈیم کے تعمیراتی کام پر بات کرنے لگتے ہیں۔

جب بھی پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کا میلہ سجتا ہے تو پشاور کے ارباب نیاز کرکٹ سٹیڈیم کا ذکر ضرور آتا ہے اور پشاور میں کرکٹ شائقین اس سٹیڈیم کے تعمیراتی کام پر بات کرنے لگتے ہیں۔

رواں سال پی ایس ایل کے میچز کراچی اور لاہور میں کھیلے جا رہے ہیں جس کی وجہ سے پشاور اور کوئٹہ کے شائقین اس مرتبہ بھی گراؤنڈ میں جا کر میچز دیکھنے سے محروم رہیں گے۔

ارباب نیاز کرکٹ سٹڈیم پشاور کا واحد بین الاقوامی معیار کا سٹیڈیم تھا تاہم 2006 میں انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) نے سٹیڈیم میں موجود سہولیات پر اعتراض کرتے ہوئے پاکستان کرکٹ بورڈ سے کہا تھا کہ وہ وہاں سہولیات کو یقینی بنائے۔

واضح رہے کہ پشاور زلمی اور کوئٹہ گلیڈی ایٹرز پی ایس ایل کی دو ایسی ٹیمیں ہیں، جن کا کوئی سٹیڈیم نہیں تھا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق پاکستان کرکٹ بورڈ نے ارباب نیاز سٹیڈیم کی تعمیر نو مکمل ہونے کے بعد اسے ’پشاور زلمی کا گھر‘ قرار دینے کا اعلان کیا تھا۔

پشاور خصوصا زلمی کے مداحوں کو اس میدان کے سجنے کا بیتابی سے انتظار ہے۔ ایک مداح کا کہنا تھا کہ کرکٹ کی پشاور زلمی کے ساتھ شہر میں واپسی ایک بڑا واقع ہوگا۔

پشاور کے اس سٹیڈیم پر 2018 میں کام شروع ہوا تھا لیکن تقریباً تین سال مکمل ہونے کے باجود تاحال یہ سٹیڈیم تیار نہیں ہو سکا ہے، جس کی ایک وجہ منتظمین کے مطابق کرونا کی وبا ہے۔

صوبائی محکمہ کھیل کے سابق ڈائریکٹر اسفندیار خٹک نے گذشتہ سال سٹیڈیم کے تعمیراتی کام کے حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا تھا کہ سٹیڈیم کی تعمیر پر تقریباً ڈیڑھ ارب روپے کا خرچ آئے گا۔

انہوں نے بتایا تھا کہ سٹیڈیم پر کام جاری ہے اور کنسلٹنٹ کے مطابق اکتوبر 2021 میں کام مکمل ہو جائے گا، لیکن تاحال ایسا نہیں ہو سکا ہے اور شائقین اب بھی منتظر ہیں۔

سٹیڈیم کا گرے سٹرکچر تقریباً مکمل ہے لیکن ابھی بھی فنشنگ کا کام باقی ہے۔

ارباب نیاز سٹیڈیم میں تماشائیوں کے داخلے کے لیے چار گیٹ بنائے گئے ہیں جبکہ ایک گیٹ خصوصی مہمانوں کے لیے ہوگا۔

اسی طرح سٹیڈیم سے متصل ایک ہاسٹل تعمیر کیا گیا ہے جہاں قومی کھلاڑیوں کے رہنے کا بندوبست کیا گیا ہے جبکہ بین الاقوامی کھلاڑی سٹیڈیم سے تقریباً ایک کلومیٹر کے فاصلے پر موجود پرل کانٹیننٹل ہوٹل میں رہیں گے۔

سٹیڈیم میں موجود ایک منتظم سے جب کھلاڑیوں کی سکیورٹی کے حوالے سے پوچھا گیا تو انہوں نے بتایا کہ یہ صوبائی اور وفاقی حکومت کا معاملہ ہے کہ وہ کس طرح کھلاڑیوں کی سکیورٹی یقینی بنائیں گے۔

انہوں نے بتایا کہ ’یہاں سٹیڈیم میں بین الاقوامی کھلاڑیوں کے لیے رہنے کا کوئی بندوبست نہیں ہے اور صرف قریبی فائیو سٹار ہوٹل ہی ہے جہاں سے کھلاڑیوں کو یہاں منتقل کیا جائے گا۔‘

سٹیڈیم میں کام کرنے والے ایک انجینیئر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ امید ہے رواں سال جون تک اس پر کام مکمل ہو جائے تاہم اس کے بعد بھی گھاس وغیرہ لگنے میں وقت لگے گا جس کے بعد ہی یہ سٹیڈیم میچز کے لیے تیار ہوگا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے بتایا کہ ’ابھی اس موسم میں گراؤنڈ پر گھاس نہیں اگائی جاسکتی اور اس کے لیے ہم انتظار کریں گے۔ گھاس اگنے میں بھی تین سے چار ماہ لگتے ہیں۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’سٹیڈیم پر کام کی طوالت کی بڑی وجہ کرونا وبا ہے کیونکہ کچھ چیزیں ہم نے باہر سے منگوائی ہیں اور کرونا کی وجہ سے باہر سے مواد منگوانے میں پہلے سے زیادہ وقت لگتا ہے۔‘

عام تاثر ہے کہ ارباب نیاز پاکستان کا سب سے بڑا سٹیڈیم ہوگا اور یہ بات انڈپینڈنٹ اردو کو  پچھلے سال محکمہ کھیل کے سابق ڈائریکٹر نے بھی بتائی تھی، جن کا کہنا تھا کہ ’سٹیڈیم میں جمنازیم، سوئمنگ پول، کیفے ٹیریا اور دیگر سہولیات بھی فراہم کی جائیں گی جو کسی بھی بین الاقوامی معیار کے ایک سٹیڈیم کے لیے ضروری ہوتی ہیں۔‘

کرکٹ ویب سائٹ کرک انفو کے مطابق ارباب نیاز سٹیڈیم میں پہلا ایک روزہ کرکٹ میچ دو نومبر 1984 میں پاکستان اور بھارت کے درمیان ہونا تھا، تاہم یہ میچ بھارتی ٹیم کا دورہ منسوخ ہونے کی وجہ سے نہیں ہوسکا کیونکہ میچ سے دو دن قبل بھارت کی اُس وقت کی وزیراعظم اندرا گاندھی کو قتل کر دیا گیا تھا۔

اسی سٹیڈیم میں انہی دونوں ٹیموں کے درمیان آخری ایک روزہ میچ 2006 میں کھیلا گیا تھا جس میں پاکستان نے سات رنز سے فتح حاصل کی تھی۔

سٹیڈیم میں پہلا ٹیسٹ میچ پاکستان اور سری لنکا کے درمیان 1995 جبکہ آخری ٹیسٹ میچ 2003 میں پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان کھیلا گیا تھا۔

زیادہ پڑھی جانے والی کرکٹ