آپ کی پیدائش کے روز کائنات میں کیا ہوا؟ ناسا کے پاس تصویر موجود

امریکہ کا سرکاری خلائی تحقیق کا ادارے ناسا، ہبل دوربین کے ذریعے لی گئی تصاویر کے مجموعے کی مدد سے صارفین کو یہ بتانے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے کہ ان کی پیدائش کے روز ہبل دوربین نے کیا دیکھا تھا۔

  • یورپی خلائی ایجنسی کی جانب سے 19 اپریل 2018 کو جاری کی جانے والی تصویر ہبل ٹیلی سکوپ کے ذریعے لی گئی جس میں لگون نیبولا دکھائی دے رہا ہے۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

امریکہ کی سرکاری خلائی ایجنسی ناسا کے پاس ہبل دوربین کی ذریعے لی گئی تصاویر کے مجموعے کی مدد سے صارفین کو یہ بتانے کی صلاحیت ہے کہ ان کی پیدائش کی روز ہبل دوربین نے کائنات کی وسعتوں میں کیا دیکھا تھا۔

ناسا اور مشی گن ٹیکنالوجیکل یونیورسٹی کے تعاون سے ایسٹرونمی پکچر آف دی ڈے (اے پی او ڈی) نامی ویب سائٹ 1995 سے مصنوعی خلائی سیارچے کے ساتھ تصاویر لے رہی ہے۔

ناسا کا تخمینہ ہے کہ یہ ویب سائٹ اپنے آغاز سے اب تک صرف 17 برسوں میں ایک ارب سے زیادہ تصاویر جمع کر چکی ہے۔

ویب سائٹ کا کہنا ہے کہ ’ہبل دوربین 24 گھنٹے اور ہفتے کے ساتوں دن کائنات میں دیکھتی رہتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دوربین نے آپ کے یوم پیدائش سمیت سال کے ہر دن کسی نہ کسی دلچسپ کائناتی عجوبے کا مشاہدہ کیا ہے۔‘

یہ دیکھنے کے لیے کہ ان کی سالگرہ کے موقع پر خلا میں کون سا واقعہ پیش آیا۔ صارفین کو سرچ  باکس میں اپنی پیدائش کا مہینہ اور تاریخ لکھنی ہو گی۔ اس کے بعد ہبل خلائی دوربین اس تاریخ کو لی گئی تصویر سامنے لے آئے گی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مثال کے طور پر 25 دسمبر کو ہبل خلائی دوربین نے سرخ اور نیلے رنگ کی داغ دار چھوٹی کہکشاں این جی سی 4214 کی تصاویر لیں جو ’نومولود ستاروں اور گیس کے بادلوں سے بھڑک اٹھی تھی۔

ہبل دوربین کو 1990 میں خلا میں بھیجا گیا۔ جلد ہی اسے جیمز ویب دوربین کی مدد بھی حاصل ہو جائے گی جو گذشتہ سال کرسمس کی شام خلا میں روانہ کی گئی تھی۔

گزشتہ ماہ اس سیٹلائٹ نے اپنا بہت بڑا آئینہ یعنی ہبل سے کہیں بڑا اور 100 گنا زیادہ طاقتور آئینہ کھولنے کا عمل شروع کیا تھا تا کہ ماہرین فلکیات بگ بینگ کے بعد کائنات کے ابتدائی مراحل میں جھانک سکیں۔

توقع ہے کہ زمین پر موجود انسان اس کی بھیجی گئی پہلی تصویر مئی 2022 تک دیکھ سکیں گے۔ توقع کی جا رہی ہے کہ یہ دوربین کے دو دہائیوں تک فعال رہے گی۔

© The Independent

زیادہ پڑھی جانے والی سائنس