امریکہ کا ایران پر پابندیوں میں چھوٹ کا اعلان

امریکی محکمہ خارجہ کے عہدیدار نے بتایا کہ یہ چھوٹ 2015 کے تاریخی معاہدے یعنی جوائنٹ کمپری ہینسیو پلین آف ایکشن (جے سی پی او اے) میں واپسی کے لیے تکنیکی مذاکرات کی اہم ضرورت تھی۔

امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن سٹیٹ ڈپارٹمنٹ میں 3 فروری 2022 کو سلواکیا کے وزیر خارجہ کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کر رہے ہیں (تصویر: اے ایف پی)

امریکہ اور ایران کے درمیان جوہری معاہدے پر واپسی کے لیے بالواسطہ مذاکرات آخری مراحل میں داخل ہونے کے بعد بائیڈن انتظامیہ نے ایران پر پابندیوں میں چھوٹ بحال کر دی ہے۔

برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق اس اہم پیش رفت کا اعلان امریکی محکمہ خارجہ کے ایک سینیئر عہدیدار نے جمعے کو کیا ہے۔

امریکی محکمہ خارجہ کے عہدیدار نے بتایا کہ یہ چھوٹ 2015 کے تاریخی معاہدے یعنی جوائنٹ کمپری ہینسیو پلین آف ایکشن (جے سی پی او اے) میں واپسی کے لیے تکنیکی مذاکرات کی اہم ضرورت تھی۔

تاہم انہوں نے کہا کہ اس چھوٹ کو بحال کرنا اس بات کا اشارہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ واشنگٹن معاہدے پر واپس جانے کے لیے اپنے مطالبات پر کسی قسم کا سمجھوتہ کرے گا۔

عہدیدار نے کہا: ’اس پابندیوں کی چھوٹ کی غیر موجودگی میں جوہری ذخیرے کو ٹھکانے لگانے اور ایٹمی عدم پھیلاؤ کی دیگر سرگرمیوں کے بارے میں تیسرے فریق کے ساتھ تفصیلی تکنیکی بات چیت ممکن نہیں ہو سکتی تھی۔‘

اس چھوٹ میں ایران کے اراک ہیوی واٹر ریسرچ ری ایکٹر کی تبدیلی، تہران ریسرچ ری ایکٹر کے لیے افزودہ یورینیم کی فراہمی اور استعمال شدہ اور سکریپ ری ایکٹر کے ایندھن کی بیرون ملک منتقلی شامل تھی۔

تاہم سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2018 میں یک طرفہ طور ہر جوہری معاہدے سے امریکہ کو نکال کر ایران پر سخت پابندیاں عائد کر دی تھیں جس کے جواب میں ایران نے بتدریج اس معاہدے کی پابندیوں کی خلاف ورزی شروع کر دی۔

ایران پر عائد پابندیوں میں چھوٹ کو ٹرمپ انتظامیہ نے مئی 2020 میں منسوخ کر دیا تھا۔ اس چھوٹ پر تہران نے چینی، روسی اور یورپی کمپنیوں کو جوہری عدم پھیلاؤ کی روک تھام کے لیے اپنی ایٹمی تنصیبات کا معائنہ کرنے کی اجازت دی تھی۔

امریکہ اور ایران نے اس معاہدے کو بحال کرنے کے لیے اپریل سے اب تک ویانا میں بالواسطہ بات چیت کے آٹھ دور مکمل کیے ہیں۔

ایک اور امریکی عہدیدار نے پیر کو صحافیوں کو بتایا تھا کہ ویانا میں ہونے والی تازہ ترین بات چیت اب تک کے سب سے تفصیلی مذاکرات تھے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اختلافات کی فہرست کو کم کرنے میں کچھ پیش رفت ہوئی ہے اور اب سیاسی فیصلوں کا وقت آ گیا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اس چھوٹ سے دوسرے ممالک اور کمپنیوں کو ایران کے سویلین جوہری پروگرام میں امریکی پابندیوں کے خوف کے بغیر حصہ لینے کی اجازت ملے گی۔

سویلین جوہری پروگرام میں ایران میں افزودہ یورینیم کے ذخیرے میں اضافہ شامل ہے۔

جو بائیڈن ایک سال قبل صدر بننے کے بعد معاہدے کی بحالی کے لیے تیزی سے پیش رفت چاہتے تھے لیکن اس دوران ایران اتنا جوہری مواد تیار کرنے کے قریب پہنچ گیا جو ایٹمی ہتھیار میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔

ویانا  مذاکرات میں ایران، امریکہ، برطانیہ، چین، فرانس، جرمنی اور روس شامل ہیں جس کے بارے میں امریکی محکمہ خارجہ کے عہدیدار نے گذشتہ ہفتے کہا تھا کہ یہ بات چیت ایک اہم مرحلے میں ہے جہاں فریقین کو ’اہم سیاسی فیصلے‘ کرنے ہیں۔

امریکی عہدیدار نے کہا تھا کہ جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ پر بات چیت کے لیے چھوٹ اہم ہے جو پوری دنیا کے مفاد میں ہے۔

تاہم انہوں نے اصرار کیا کہ مذاکرات میں شراکت دار اہم مسائل پر ایران کے جواب کا انتظار کر رہے ہیں۔

بائیڈن انتظامیہ کے سینیئر اہلکار نے ایران پر اہم فیصلے کرنے پر زور دیتے ہوئے کہا تھا کہ تہران کے لیے وقت ختم ہو رہا ہے۔

اہلکار نے کہا: ’میرے خیال میں ہم اس مقام پر ہیں جہاں ہر فریق کو کچھ انتہائی اہم سیاسی فیصلے کرنے ہیں۔‘

عہدیدار نے واشنگٹن اور تہران کے درمیان براہ راست مذاکرات کی تجویز پیش کی تاکہ مشکل ترین مسائل پر توجہ مرکوز کی جا سکے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا