افغانستان کے ہیئر ڈریسر ملک چھوڑ کر پشاور کیوں آگئے ہیں؟

افغانستان کے دیگر صوبوں سے بھی داڑھی کٹوانے پر پابندی کے حوالے سے خبریں ذرائع ابلاغ میں شائع ہوئی تھیں تاہم طالبان کا موقف ہے کہ ان کی جانب سے داڑھی کٹوانے پر کوئی پابندی عائد نہیں کی گئی ہے۔

’حالات اس نہج پر آگئے تھے کہ میں کھانے اور گھر کے کرایہ کے لیے بھی پیسے میں کما سکتا تھا۔ دکان بھی اپنی تھی لیکن بجلی کا بل تک ادا نہیں کر سکتا تھا اور اسی وجہ سے آئے روز مضروض ہوئے جا رہا تھا۔‘

یہ کہنا تھا کہ افغانستان کے صوبہ ننگرہار کے رہائشی آصف وصال کا جن کی ننگرہار میں ہیئر ڈریسر کی اپنی دکان تھی لیکن افغانستان میں حکومت تبدیل ہونے کے بعد ان کا کاروبار متاثر ہوا ہے اور اب پشاور میں ایک دوسرے شخص کے ساتھ  یومیہ اجرت پر کام کرتے ہیں۔

آصف کے والد  بھی اسی پیشے سے وابستہ تھے تاہم زائدالعمری کے سبب وہ کام کرنے سے قاصر ہیں۔ آصف نے بتایا کہ  کئی سالوں سے وہ ننگرہار میں کام کرتے تھے  اور جتنا کماتے اس سے گھر کا خرچہ پورا ہوجاتا تھا لیکن کاروبار اس وقت مندی کا شکار ہوا جب افغانستان میں طالبان نے حکومت سنبھالی۔

انہوں نے بتایا: ’طالبان حکومت سے پہلے میں روزانہ دو سے تین ہزار افغانی (تقریبا پانچ ہزار پاکستانی روپے) کماتا تھا لیکن دکان چھوڑنے کے وقت میں روزانہ کی بنیاد پر صرف تین چار سو روپے کماتا تھا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

آصف نے بتایا کہ ’جب کاروبار خراب ہونا شروع ہوگیا تو مجھے گھر کے اخراجات کی فکر شروع ہوگئی کیوں کہ ہمارے گھر میں کمانے والا صرف میں ہوں۔ والد بزرگ ہیں اور بیمار رہتے ہیں جبکہ دیگر بھائی مجھ سے چھوٹے ہیں اور ان کی کمانے کی عمر نہیں ہے۔ مجبور ہوکر میں نے اپنا وطن چھوڑ دیا اور پشاور میں کمانے کی غرض سے آگیا۔‘

آصف اب پشاور میں ہیئر ڈریسر کی دکان پر کام کرتے ہے جن کو یومیہ بنیاد پر بنیاد پر اجرت ملتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ چھ سو آٹھ سو روپے روزانہ پشاور کے استاد دیتے ہیں اور صبح سے لے کر شام تک کام کرتا ہوں۔‘

ان سے جب پوچھا گیا کہ کیا گھر والے بھی پشاور منتقل ہوگئے ہیں تو انہوں نے جواب دیا کہ گھر والے سارے افغانستان میں ہیں اور ’صرف میں یہاں ہوں اور جب بھی وہاں پر کسی چیز کی ضرورت ہوتی ہے تو یہاں سے ان کو پیسے بھیجتا ہوں۔‘

گاہک کیوں کم ہوگئے ہیں؟

آصف نے بتایا کہ ان کے پاس زیادہ تر نوجوان آکر داڑھی ترشواتے تھے یا حجامت کرتے تھے جبکہ بالوں کے ڈیزائن بھی بناتے تھے تاہم اب ایسے گاہک نہایت کم ہوگئے ہیں۔

اس کمی کی وجہ بتاتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ شروع میں جب طالبان حکومت میں آگئے تو یہ بات پھیل گئی کہ طالبان کی جانب سے داڑھی کٹوانے اور ڈیزائن والے بالوں پر پابندی ہے ’جس کی وجہ سے نوجوانوں نے ہماری دکان آنا بند کردیا۔‘

آصف نے بتایا کہ طالبان کی جانب سے ان کو کوئی ہدایت نامہ نہیں ملا ہے تاہم عام تاثر یہی تھا کہ طالبان نے داڑھی کٹوانے پر پابندی عائد کی ہے۔

افغانستان کے دیگر صوبوں سے بھی داڑھی کٹوانے پر پابندی کے حوالے سے خبریں ذرائع ابلاغ میں شائع ہوئی تھیں تاہم طالبان کا موقف ہے کہ ان کی جانب سے داڑھی کٹوانے پر کوئی پابندی عائد نہیں کی گئی ہے۔

آصف نے بھی  یہی بتایا کہ ’کم از کم مجھے دکان میں کوئی ہدایت نامہ نہیں ملا تھا لیکن لوگوں کے دلوں میں ایک خوف ضرور تھا کہ داڑھی کٹوانے یا بالوں میں ڈیزائن بنانے سے شاید طالبان ناراض ہوجائیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا