سندھ بلدیاتی نظام: کیا واقعی سپریم کورٹ کے فیصلے میں وضاحت نہیں؟

سپریم کورٹ نے ایم کیو ایم کی سندھ بلدیاتی قانون 2013 پر دائر کی گئی پٹیشن پر فیصلہ سناتے ہوئے آئین کے آرٹیکل 41 اے پر عمل درآمد اور اختیارات کو مقامی حکومتوں تک منتقل کرنے کا حکم دیا تھا، تاہم سندھ حکومت نے اس فیصلے پر ریویو دائر کرنے کا عندیہ دیا ہے۔

سندھ میں بلدیاتی نظام کے حوالے سے سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کے بعد جماعت اسلامی کا کہنا ہے کہ اس پر عمل درآمد کے لیے واضح ٹائم لائن موجود نہ ہونے کے باعث سندھ حکومت تاخیری حربے استعمال کرے گی، جبکہ صوبائی حکومت کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر نظرثانی کی اپیل کی جائے گی۔

شہر قائد میں آج کل سیاسی سرگرمیاں اپنےعروج پر ہیں۔ سندھ میں اپوزیشن جماعتیں ایم کیو ایم اور جماعت اسلامی سندھ حکومت کے صوبائی بلدیاتی ترمیمی قانون کی سختی سے مذمت  کر رہی ہیں۔ 

جنوری میں ایم کیو کیو ایم کے احتجاج پر ہونے والے پولیس تشدد کے بعد سے سندھ حکومت شدید تنقید کا نشانہ بنی ہوئی ہے۔ دوسری جانب جماعت اسلامی کے سندھ اسمبلی کے باہر دھرنے کے بعد مذاکرات سے معاملات کو افہام و تفہیم سے حل کرنے کی کوشش کی گئی مگر ان پر بھی عمل درآمد ہونا باقی ہے۔ 

سپریم کورٹ آف پاکستان نے ایم کیو ایم کی سندھ بلدیاتی قانون 2013 پر دائر کی گئی پٹیشن پر اپنا فیصلہ سناتے ہوئے آئین کے آرٹیکل 41 اے پر عمل درآمد اور اختیارات کو مقامی حکومتوں تک منتقل کرنے کا حکم دیا تھا۔ تاہم امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن کے مطابق اس فیصلے میں واضح ٹائم لائن موجود نہ ہونے کا فائدہ سندھ حکومت اٹھائے گی اور تاخیری حربے استمال کرے گی۔ 

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’یہ فیصلہ بہت دیر سے آیا ہے۔ اکتوبر 2020 میں محفوظ ہونے والا یہ فیصلہ ڈیڑھ سال بعد کیوں سنایا گیا؟ یہ خود عدالتی نظام کے لیے ایک سوال ہے۔ اس نظام میں فیصلے برآمد کرنے کے لیے 28 دنوں کو دھرنا دینا پڑتا ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

حافظ نعیم نے کہا: ’ہم اس فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہیں لیکن ایک ٹائم لائن موجود نہ ہونے کی وجہ سے سندھ حکومت کے پاس ایک لیوریج موجود ہوگا جس کی بدولت وہ ٹال مٹول سے کام لے سکتی ہے۔ اچھا ہوتا کہ فیصلے میں ایک ٹائم لائن فکس کر دی جاتی۔ اگر تھوڑی وضاحت کے ساتھ یہ فیصلہ کیا جاتا تو سندھ حکومت یہ نہیں کہتی کہ ہم اس کو دیکھیں گے اور نظرثانی کے لیے جائیں گے۔ انہیں ایک ایسا موقع ملا ہے جس کے نتیجے میں وہ مزید دیر کریں گے۔‘

تاہم پیپلز پارٹی کے سینیئر رہنما سعید غنی نے اس معاملے پر سندھ حکومت کا موقف دیتے ہوئے کہا: ’رویو میں جانا تاخیری حربہ نہیں، ہمارا حق ہے، اس لیے ہم عدالت سے اس فیصلے پر کچھ چیزوں کی وضاحت مانگیں گے۔‘

انہوں نے کہا: ’اس فیصلے میں بہت ساری چیزیں وضاحت کے ساتھ نہیں کہی گئی ہیں۔ اگر قانون کی بات کریں تو اس میں کوئی گرے ایریاز نہیں ہونے چاہیں۔ بہت ساری چیزیں ایسی بھی ہیں اس فیصلے میں جو ہم سپریم کورٹ کے کہنے سے پہلے کر چکے ہیں جیسے پراپرٹی ٹیکس کی کلیکشن وغیرہ۔‘

انہوں نے کہا: ’ہم سپریم کورٹ سے اس فیصلے پر لازمی رجوع کریں گے مگر اب یہ عدالت پر منحصر ہے وہ اس نظرثانی پر دو دنوں میں فیصلہ سناتی ہیں یا چھ سال میں۔‘

تاہم اس حوالے سے ہم نے سندھ ہائی کورٹ کے وکیل اور ماہر قانون بیریسٹر علی طاہر سے بات کی تو ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے میں بہت واضح احکامات دیے گئے ہیں۔ ’آئین پاکستان کے آرٹیکل 189 کے تحت یہ صوبائی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ فوری طور پر اس فیصلے پر عمل درآمد کیا جائے۔‘

بیریسٹر علی طاہر کے مطابق اس فیصلے میں چھ اہم نکات ہیں۔ ’پہلا نکتہ ہے کہ جب بلدیاتی حکومت موجود نہ ہو تو اس کے اختیارات صوبائی حکومت نہیں لے سکتی، یہ ضروری ہے کہ بلدیاتی حکومت کے وجود میں آنے کا انتظار کیا جائے تاکہ وہی ان اختیارات کو استعمال کریں صوبائی حکومت نہیں۔‘

ان کے مطابق دوسرا نکتہ یہ ہے کہ یہ صوبائی حکومت پر لازم ہے کہ وہ آئین کے آرٹیکل 140 اے کی پیروی کرے جس کے مطابق وفاق، تمام کنٹونمنٹ بورڈز اور صوبائی حکومتیں، بلدیاتی حکومتوں کے قیام کو یقینی بنائیں۔ انہیں تمام سیاسی، مالی اور انتظامی اختیارات کی منتقلی کی جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے تحت مقامی حکومتوں کے انتخابات بھی پابندی سے کروائے جائیں۔

تیسرا نکتہ ہے کہ کسی بھی شہر کے ماسٹر پلان کے معاملات کی ذمہ داری ہمیشہ مقامی حکومتوں کی ہی ہوتی ہے اس لیے یہ اختیار بلدیاتی حکومت کو ہی دیا جائے۔ ماسٹر پلان میں کسی بھی قسم کی تبدیلی مقامی حکومت ہی کرے گی اور اگر صوبائی حکومت اس میں کو تبدیلی کرنا چاہتی ہے تو مقامی حکومت سے رائے لینا لازمی ہے۔

بیریسٹر علی طاہر کے مطابق چوتھا نکتہ یہ ہے ان تمام قوانین کو ختم کیا جائے جو آئین کی شق 140 اے کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر مقامی حکومتوں کے اختیارات جو کہ مختلف ادارے جیسے کہ کراچی ڈویلپمنٹ اتھارٹی، ملیر ڈویلپمنٹ اتھارٹی ، لیاری ڈویلپمنٹ اتھارٹی، کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ وغیرہ کو دے دیے گئے ہیں وہ مقامی حکومت کو واپس کیے جائیں۔

پانچواں نکتہ ہے کہ صوبائی مالیاتی کمیشن (پی ایف سی) مقامی حکومتوں کو دیا جائے جس طرح قومی مالیاتی کمیشن (این ایف سی) کے فنڈز وفاقی حکومت صوبائی حکومتوں کو دیتی ہے۔

چھٹا اور آخری نکتہ یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے تحت سندھ حکومت کے موجودہ بلدیاتی قانون کی شقوں 74 اور 75 کو ختم کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ ان شقوں کے تحت سندھ حکومت کے پاس یہ اختیار تھا کہ وہ جب چاہے اپنے کوئی بھی اختیارات مقامی حکومتوں کو دے سکتی ہے اور ان سے ان کے کوئی بھی اختیارات لے سکتی ہے۔ مگر اب سپریم کورٹ کے ان شقوں کو ختم کرنے کے حکم کے بعد سندھ حکومت کے پاس یہ اختیار نہیں۔

بیرسٹر علی طاہر کا کہنا تھا: ’ایک طرح سے سپریم کورٹ نے صوبائی حکومتوں کے پاس بال پھینک دی ہے۔ اب صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس پر عمل درآمد کریں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان