لاڑکانہ کا عمدہ مہک اور مٹھاس والا ’بے نظیر‘ امرود

لاڑکانہ میں ایوان زراعت کے صدر سید سراج راشدی کا کہنا ہے کہ ان کے علاقے کا امرود مٹھاس اور مہک کے اعتبار سے پوری دنیا میں مشہور ہے۔

لاڑکانہ میں امرودوں کے باغوں کے مالک اور ایوان زراعت کے صدر سید سراج راشدی کا کہنا ہے کہ مقامی امردوں کی ایک قسم جس کا نام سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کے نام پر رکھا گیا، انتہائی مشہور اور سب سے زیادہ پیداوار دیتی ہے۔

سراج کے مطابق لاڑکانہ کا امرود مٹھاس اور مہک کے اعتبار سے پوری دنیا میں مشہور ہے۔ ’لاڑکانہ اور دیگر علاقوں کے امرود میں فرق یہ ہے کہ یہاں کا موسم اور آب و ہوا امرود کو راس آتی ہے۔‘

انہوں نے بتایا کہ لاڑکانہ کے امردوں کی نو اقسام مقبول ہیں ’لیکن ان میں بے نظیر قسم کاروباری اعتبار سے بہت اچھی ہے۔ اس کے علاوہ بیجوں کے بغیر ایک قسم ہے۔ ’ایک گلابی رنگ کی قسم ہے جو لاڑکانہ کی ہے۔ اس کی مہک اور مٹھاس اپنی مثال آپ ہے۔

’اس کے علاوہ ریالی، رمضانی، تھدا رامی، سندھی ونگو اور ایک چھوٹا سندھی امرود ہوتا ہے جو بہت پیارا ہوتا ہے اور کھانے میں بڑی مٹھاس ہوتی ہے۔‘

امرودوں کی بے حد مشہور قسم بے نظیر پر بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ لاڑکانہ میں نوے کی دہائی میں کمشنر محمد ہاشم لغاری ہوا کرتے تھے۔

پاکستان ایگری کلچرل ریسرچ والوں نے ہاشم لغاری کو کہا کہ ہمیں لاڑکانہ کے امرودوں کی اقسام بھیجیں تو وہ میرے پاس آئے اور مختلف اقسام لے گئے۔

’انہوں نے نوٹس کیا کہ بے نظیر قسم کی پیداوار بہت زیادہ تھی۔ سب سے زیادہ پھل اسی میں لگا ہوا تھا۔

’میں نے انہیں بتایا کہ یہ کاروباری قسم ہے، بڑی پیداوار دیتی ہے، تو انہوں نے کہا کہ یہ لاڑکانہ کی ہے اور نوڈیرو ہی میں زیادہ ہے تو کیوں نا اس کا نام بے نظیر رکھا جائے یوں اس کا نام بے نظیر پڑا۔‘

سراج نے مزید بتایا کہ ’اس کے بعد پاکستان ایگری کلچرل ریسرچ کونسل نے بھی اس قسم کو بے نظیر کے نام سے پکارنا شروع کر دیا۔ اب یہ بے نظیر قسم پورے پاکستان میں مشہور ہے۔‘

سراج کے مطابق لاڑکانہ کے علاوہ پنجاب کے علاقے رحیم یار خان میں بھی ان کے امرود کے باغات ہیں اور دونوں جگہ ایک ہی اقسام کے درخت لگے ہوئے ہیں۔

’تاہم جو ذائقہ، مہک اور لذت لاڑکانہ کے امرود میں ہے وہ رحیم یار خان کے امرود کی نہیں اور اس کی بنیادی وجہ صرف موسم ہے لاڑکانہ کی آب و ہوا امرودوں کے لیے بہترین ہے۔‘

انہوں نے بتایا کہ 2018 میں فروٹ فلائی کے حملے کے بعد پیداوار میں کمی اور مالی نقصان کی وجہ سے کاشت کاروں نے امرودوں کے باغات کاٹنا شروع کر دیے تھے۔

لاڑکانہ میں 2017 تک امرودوں کی سالانہ پیداوار 70 ہزار میٹرک ٹن تھی لیکن جب 2018 میں امرود کے باغات پر فروٹ فلائی کا حملہ ہوا تو پیداوار سکڑنا شروع ہو گئی اور گذشتہ سال یہ 20 سے 25 ہزار میٹرک ٹن تک رہ گئی۔

’کچھ کاشت کاروں نے وفاقی حکومت سے مدد مانگی تو فیصل آباد کی ایوب ایگری کلچرل ریسرچ انسٹیٹیوٹ نے فروٹ فلائی اور ملی بگ کے حملے کا جائزہ لینے کے بعد کاشت کاروں کو حل بتایا۔‘

ان کے مطابق: ’کاشت کار اپنے باغات پر ادویات کا اسپرے کر کے درحقیقت اپنے ہی پیروں پر کلہاڑی مار رہے تھے کیوں کہ امرودوں کے باغات کی دشمن فروٹ فلائی اور ملی بگ کے خاتمے کا حل درحقیقت وہ فصل دوست کیڑے مکوڑے تھے جو آب و ہوا میں پہلے سے موجود تھے اور جنہیں کاشت کار زہریلی ادویات کا اسپرے کر کے ختم کر رہے تھے۔‘

انہوں نے بتایا کہ اب لاڑکانہ کے بیشتر امرود کے باغ بانوں نے زہریلی ادویات کا اسپرے اور مصنوعی کھاد کا استعمال ختم کر دیا ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے بتایا کہ اب کاشت کار اپنے باغات کی حفاظت کے لیے قدرتی کنڑول پر عمل درآمد کر رہے ہیں اور ڈی کمپوزڈ ویسٹ، گڑ، سرسوں کی کھل، سالڈ ویسٹ اور دہی میں آٹھ روز تک تانبے کا ٹکڑا ڈال کر سینکڑوں لیٹرز اپنا فرٹیلائیزر بنا کر اسپرے کرتے ہیں۔

’وہ دریا کی مٹی، گوبر کی کھاد، شگر مل کی پریس مڈ اور امرودوں کے ویسٹ اور درختوں کے پتوں کو چھ ماہ تک زیر زمین دبا کر اپنی قدرتی کھاد تیار کر رہے ہیں۔‘

سراج نے بتایا کہ باغبان ٹرنک نما کھلے صندوقوں میں فروٹ فلائی کے حملے سے خراب ہونے والے امرودوں کو باغات کے بیچ میں رکھ دیتے ہیں تاکہ فروٹ فلائی ایک جگہ اکٹھی ہو اور جہاں فروٹ فلائی امرودوں میں اپنا لاروا چھوڑتی ہے وہیں قدرتی طور پر فصل دوست کیڑے مکوڑے بھی فروٹ فلائی کا لاروا کھانے آ جاتے ہیں۔

’یوں فروٹ فلائی کی نشونما نہیں ہو پاتی اور باغات نقصان سے بچ جاتے ہیں اور اسی طرح سے ملی بگ کے خاتمے کے لیے فصل دوست کیڑے مکوڑوں کو خود پالا جا رہا ہے۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان