لاڑکانہ کا ایک بھٹو جب 25 سال بعد گھر لوٹا

ایک ایسے شخص کی کہانی جو گھریلو جھگڑے کی وجہ سے لاڑکانہ میں اپنا گھر چھوڑ کر چلا گیا اور 25 سال بعد بلوچستان کے علاقے دالبندین سے ملا۔

شاہ میر بھٹو  کی پہلی تصویر جسے برکت جمالی نے  ان کے گھر والوں کو بھجوائی تھی (تصاویر: برکت جمالی)

برکت جمالی کئی سالوں سے بلوچستان کے علاقے دالبندین میں بلوچی زنانہ کپڑوں کی کشیدہ کاری کا کام کرتے ہیں۔

یوں تو ان کا تعلق بلوچستان کے سندھ سے متصل علاقے جعفر آباد سے ہے لیکن وہ روزگار کے سلسلے میں دالبندین میں مقیم ہو کر رہ گئے ہیں۔

یہاں ان کی دوستی لاڑکانہ سے آئے ایک سرکاری ملازم سے ہوئی۔ دالبندین سے تبادلے کے بعد حالیہ عرصے میں اس شخص نے برکت کو فون کرکے ایک ایسے کام کی فرمائش کی جس نے انہیں شش و پنج میں مبتلا کردیا۔

کام یہ تھا کہ دالبندین بازار میں ایک نیم برہنہ حالت میں پھرنے والے مخبوط الحواس شخص کی تصویر نکال کر واٹس ایپ کرنا تھی۔

برکت نے حامی بھرنے کے بعد اس معاملے پر توجہ نہیں دی لیکن جب دوست نے اصرار کرتے ہوئے بتایا کہ ان کے ہمسائے کے کسی جاننے والے کا قریبی رشتہ دار پچھلے 25 سالوں سے لاپتہ ہے اور شاید مطلوبہ شخص یہی نکلے تو پھر برکت نے تصویر نکالنے کی ٹھان لی۔

انہوں نے بتایا کہ ایک دن وہ ناشتہ لینے گئے تو ان کا موبائل فون موجود نہیں تھا۔ تھوڑی دور جانے کے بعد مذکورہ مخبوط الحواس شخص سے سامنا ہوا تو انہوں نے ہمت کرکے پہلی بار انہیں سندھی زبان میں ناشتے کی پیشکش کی جس پر وہ خاموش رہے۔

تاہم اگلے ہی لمحے وہ غیر معمولی طور پر چونک گئے جب برکت نے کہا کہ ’آپ کی ماں آپ کو یاد کر رہی ہیں آپ یہاں کیا کررہے ہیں؟‘

یہ سننے کے بعد وہ برکت کو گھور گھور کر دیکھتے رہے اور جب تک وہ آنکھوں سے اوجھل نہ ہوئے پیچھے مڑ مڑ کر دیکھتے رہے۔

اب جب بھی برکت کا ان سے سامنا ہوتا تو وہ عجیب نظروں سے انہیں دیکھتے رہتے۔

یہ صورت حال برکت کے لیے بھی حیران کن تھی کیونکہ پورے شہر میں عام تاثر یہی تھا کہ یہ مخبوط الحواس شخص دنیا اور لوگوں سے قطعی طور پر لاتعلق رہتے ہیں۔

تاہم شہر کے کچھ مخیر حضرات ان کا خیال رکھتے تھے، جن میں ایک ہندو تاجر بھی تھے۔ ایک بار واضح تصویر لینے میں ناکامی کے بعد بالآخر برکت نے 19 جولائی کو ان کی قابل شناخت تصویر نکال کر اپنے دوست کے توسط سے ان کے خاندان کو بھیجی تو گھر میں جیسے شادیانے بج گئے۔

21 جولائی کو عیدالاضحیٰ تھی۔ سو ان شخص کے بھائی، بیٹے اور بھانجے نے اسی وقت گاڑی لی اور عید سے ایک روز قبل دالبندین پہنچنے میں کامیاب ہو گئے جہاں برکت نے نہ صرف ان کی خدمت تواضع کی بلکہ انہیں مذکورہ شخص سے بھی ملایا جس کی تلاش میں انہوں نے سندھ اور پنجاب کا کونہ کونہ چھان مارا لیکن کبھی بلوچستان نہیں آئے۔

رشتہ داروں نے جب اپنے پیارے کو نیم برہنہ حالت اور بدبو دار کپڑوں میں سڑک پر بیٹھے دیکھا تو اپنے آنسو نہ روک پائے۔

انہیں مقامی لوگ ’سندھی ملنگ‘ یا ’تھتھڑے‘ کے نام سے پکارتے تھے لیکن ان کی اصل پہچان لاڑکانہ کے شاہ میر بھٹو کے نام سے ہوئی جن کے تین بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں۔

کبھی کبھار جب وہ غصے میں آتے تو بھرے بازار میں خود سے تیز آواز میں باتیں کرتے ہوئے سندھی زبان میں گالیاں نکالتے۔

شاہ میر ایک ایسے وقت میں بلوچستان کے ایران اور افغانستان سے متصل سرحدی علاقے چاغی کے صدر مقام دالبندین آئے جب بلوچستان میں بدامنی تھی۔

بلوچ رہنما نواب اکبر بگٹی کی ہلاکت کے بعد جب علاقے میں حالات خراب ہوئے تو شاہ میر بھی کچھ عرصے تک سکیورٹی اداروں کی نظروں میں مشکوک ہو گئے لیکن جامع تحقیقات کے بعد معلوم ہوا یہ شخص واقعی مخبوط الحواس ہے۔

لاڑکانہ کے علاقے گوٹھ غلام بھٹو سے تعلق رکھنے والے شاہ میر کے بیٹے ضمیر حسین نے بتایا کہ ان کے والد 25 سال قبل اپنے بڑے بھائی شابان بھٹو سے گھریلو معاملات پر جھگڑنے کے بعد ناراض ہوکر گھر بار چھوڑ گئے جس کے بعد انہوں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔

ضمیر کے مطابق ’ہم نے ان کو سندھ کی ہر درگاہ میں ڈھونڈا، پنجاب کے مختلف علاقوں میں تلاش کیا اور اسلام آباد تک گئے لیکن ان کا کوئی سراغ نہیں ملا۔‘

ان کے بھائی شابان بھٹو نے بتایا کہ شاہ میر کے چلے جانے کے بعد ان کی والدہ منتظر نگاہوں کے ساتھ دنیا سے رخصت ہو گئیں۔ تاہم انھیں آخر وقت تک امید تھی کہ ان کی زندگی میں نہ سہی مرنے کے بعد ان کا بیٹا ضرور واپس آئے گا۔

انہوں نے بتایا کہ شاہ میر بھٹو کا ذہنی توازن شروع سے درست نہیں تھا جس کی وجہ سے وہ ایک مرتبہ پہلے بھی ناراض ہوکر چلے گئے تھے لیکن اہل خانہ انہیں منا کر واپس گھر لے آئے تھے۔

برکت نے بتایا کہ جب شاہ میر بھٹو کے قریبی رشتہ دار ان کے گھر میں کھانا کھا رہے تھے تو شابان بھٹو نے خواہش ظاہر کی کہ وہ اپنے ہاتھ سے انھیں کھانا کھلانا چاہتے ہیں۔

جب وہ ان کے پاس گئے تو شاہ میر نے یہ کہہ کر بھائی کے ہاتھ سے کھانا لینے سے انکار کیا کہ ’اس نے مجھ سے جھگڑا کیوں کیا تھا؟‘

اس موقعے پر شابان بھٹو نے ان سے معافی مانگی اور بہت منت سماجت کے بعد انھیں کھانا کھلایا جس کے بعد ان کے داڑھی اور بال بنوا کر نئے کپڑے پہنائے گئے۔

راہ چلتے مقامی لوگوں نے جب کچھ اجنبی افراد کو شاہ میر کے پاس آتے جاتے دیکھا تو نہ صرف ان کی بڑی تعداد وہاں جمع ہوگئی بلکہ اس موقع پر پولیس نے شاہ میر بھٹو کے رشتہ داروں سے تصدیق کروائی کہ وہ واقعی ان کے اہل خانہ ہیں۔

ان کی گھر روانگی کا مرحلہ قابل دید تھا کیونکہ مقامی لوگوں کی بڑی تعداد گاڑی کے گرد جمع ہوگئی اور انہیں رخصت کیا۔

گاڑی میں بیٹھنے سے قبل انہوں نے بغیر کسی پس و پیش کے اپنے بھائی پر نگاہ دوڑاتے ہوئے پھر کہا کہ ’اس نے مجھ سے جھگڑا کیوں کیا تھا؟‘ جس پر شابان نے ایک مرتبہ پھر معافی مانگی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

شاہ میر بھٹو کے بیٹے نے بتایا کہ وہ عیدالاضحٰی کے روز ہی لاڑکانہ پہنچ گئے جہاں اس دن انہوں نے دو عیدیں ایک ساتھ منائیں کیونکہ گھر والوں کو عید سے زیادہ شاہ میر بھٹو کا انتظار تھا۔

گھر والوں نے جب 25 سال کے بعد شاہ میر بھٹو کو دیکھا تو وہ بے اختیار رو پڑے اور سب نے ان سے لپٹ لپٹ کر خوش آمدید کہا۔

ضمیر کے مطابق اب ان کے والد گھر میں زیادہ وقت اپنے کمرے میں گزارتے ہیں۔ دور دور سے رشتہ دار ان کو دیکھنے آتے ہیں لیکن وہ کسی سے ہم کلام نہیں ہوتے۔

تاہم ایک مرتبہ ایک رشتہ دار کو دیکھ کر انہوں نے نام لے کر کہا کہ یہ فلاں شخص ہے۔

شاہ میر کے دالبندین سے چلے جانے کے بعد مقامی سطح پر سوشل میڈیا پر ان کی روانگی کی تصاویر وائرل ہوئیں جس پر کئی لوگوں نے ان سے اپنی عقیدت کا اظہار کیا۔

برکت جمالی کے مطابق مقامی لوگ شاہ میر سے مانوس ہوگئے تھے کیونکہ وہ زیادہ وقت خاموشی سے گزارتے تھے کسی کو تنگ نہیں کرتے بلکہ اپنی دنیا میں مگن رہتے تھے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان