نارمل، صوفی یا پاگل؟ موت کے رجسٹر میں غیرحاضری کیسے لگے؟

موت آنے کی دو صورتیں ہیں۔ ایک یقیناً وہ جو اپنے وقت پہ آئے گی، دوسری جو کسی وقت بھی چلی آئے، کسے خبر۔ ان دونوں کے علاوہ جو تیسری قسم میں نے دیکھی، وہ یہی ہے کہ جو سر پہ مسلط ہے، آ کر نہیں دیتی۔ بندہ بازو پھیلائے آتا ہے، یہ کان برابر سے نکل جاتی ہے۔

سب کچھ اتنا اچانک ہوا کہ اب تک سمجھ نہیں آئی۔ کیسا احمقانہ جملہ ہے۔ انہونی بتا کر ہوتی کب ہے؟(تصویر: پکسابے)

جانتے بوجھتے ہوئے جو موت سے روز گلے ملے وہ یا تو پاگل ہے یا کوئی صوفی صافی، ہم لوگوں جیسا عام بندہ نہیں ہو سکتا۔

موت آنے کی دو صورتیں ممکن ہیں۔ ایک یقیناً وہ جو اپنے وقت پہ آئے گی، دوسری وہ جو کسی وقت بھی چلی آئے، کسے خبر۔ ان دونوں کے علاوہ جو تیسری قسم میں نے دیکھی، وہ یہی ہے کہ جو سر پہ مسلط ہے، آ کر نہیں دیتی۔ بندہ جو ہے وہ بازو پھیلائے آتا ہے، یہ کان برابر سے نکل جاتی ہے۔ روز چھپن چھپائی، روز غیر حاضری لگانا موت کے رجسٹر میں*۔۔۔ یہ کون ہے جو روز خود موت کا تعاقب کرتا ہے؟

گھر میں کرونا پھیلا ہوا تھا۔ اوما ۔۔۔ نہیں اب عظیمہ ضرور لکھنا ہے۔ اسے گلہ ہے کہ میں کبھی ٹھیک نام نہیں لکھتا حالانکہ شادی سے پہلے وہی نام چھتیس سٹائل میں ایک ہی کاغذ پہ سارا دن لکھتا تھا۔

تو اوما کو دوسری بار اسی بیماری نے پکڑ لیا۔ اس مرتبہ حالات تکلیف دہ تھے۔ آئلہ بھی لپیٹ میں آ گئی۔ سب کچھ اتنا اچانک ہوا کہ اب تک سمجھ نہیں آئی۔ کیسا احمقانہ جملہ ہے۔ انہونی بتا کر ہوتی کب ہے؟

ایک دوست کو گھر میں پریشانی کا پتہ چلا تو ان بے چارے نے بہت تکلیف کی، بہت سی چیزیں گھر میں پکوا کر بھجوا دیں۔ جو بھائی دینے آئے انہیں علم تھا کہ یہ گھر کرونے والا ہے۔ گھنٹی بجی، نیچے گیا، دروازہ کھولا تو وہ بیس فٹ دور کھڑے ہیں۔ کھانا دروازے میں زمین پہ رکھا ہوا تھا۔ جھکا، اٹھایا، جس قدر خلوص سے شکریہ کہہ سکتا تھا کہا، اٹھا کے اوپر آ گیا۔ یہ پہلا قصہ تھا۔

جس مکان میں آج کل ہم لوگ رہتے ہیں یہ کرائے کا ہے۔ خدا کا شکر ہے کہ مجھے زندگی بھر مالک مکان اور باس (دفتری) ہمیشہ انتہائی اچھے ملے۔ اب یہاں کیا عالم ہے کہ صبح شام جو کچھ بن رہا ہے اوپر آ رہا ہے۔ انکل لا رہے ہیں، چھوٹی شہزادی ابیہہ دن میں چار بار سیڑھیاں چڑھ رہی ہے، بہن صبح روز اوما کو فون کر کے پوچھتی ہیں اور ضرورت نہ بھی ہو تو خدا معلوم کیا کچھ آ جاتا ہے۔ یخنی آج تک بنانے کی نوبت نہیں آئی کہ وہ بھیج دیتی ہیں۔ اس سارے معاملے میں اب تک مجھے یہ محسوس نہیں ہوا کہ میرے پورشن میں کرونا ہے۔

اپنے سگے رشتوں کے علاوہ شاید ہی کوئی ایسا کرتا ہو گا، جو یہاں آنٹی انکل لوگوں نے شفقت اور محبت دی ہے۔

تیسرا ایک اور واقعہ ہے۔ مقصد ڈائری لکھنا نہیں ہے۔ تین قصوں کے بعد کوئی نتیجہ شاید نکل آئے۔ ابھی تو میں بھی آپ ہی کی طرح آگے بڑھ رہا ہوں۔

جب اوما کو لے کر میں ہسپتال جاتا ہوں تو وہاں احساس تک نہیں ہوتا کہ میرے ساتھ کرونا کی ڈائیگنوزڈ مریض ہے۔ ڈاکٹر خود ماسک لگائے بیٹھا ہو گا، نرسیں اور سارا عملہ بھی اسی نقشے پہ ہو گا، لیکن کام برابر چل رہا ہے۔

دیکھیں ایک چیز ہوتا ہے وائرل لوڈ۔ مطلب ایک چھت کے نیچے کتنے لوگ کسی وائرس سے متاثرہ موجود ہیں۔ یہ ایسی ظالم چیز ہے کہ بالکل ٹھیک ٹھاک ویکسینیٹڈ بندے کو بھی نئے سرے سے بیمار کر سکتی ہے۔ جب ایک جگہ ہے ہی بیماروں کا گڑھ تو آپ کتنا بچ سکتے ہیں؟

لیکن واللہ کہ آفرین ہے، برابر آ رہے ہیں، کیا ڈاکٹر، کیا نرس، کیا صفائی کا عملہ، کیا ریسیپشن والے! بندے شدید کھانستے ہیں یہ ڈرپیں چڑھا رہے ہیں، کسی کا خون بہہ رہا ہے تو یہ ڈریسنگ میں لگے ہیں، کوئی الٹی کر رہا ہے تو وہ صفائی والے غریب اپنی ڈیوٹی کر رہے ہیں۔ کیا انہیں معلوم نہیں کہ یہ سب کرونا کے مریض ہیں؟ آپ کہہ سکتے ہیں کہ بھئی وہ اس کام کے پیسے لیتے ہیں۔ سو فیصد لیتے ہیں، لیکن آپ اگر اس وبا میں ایک نرس ہوتے، وارڈ کی صفائی کرنے والے ہوتے، یا ڈاکٹر ہی کیوں نہ ہوتے تو کیا آپ یہی سوچتے، اسی طرح روز موت کے منہ میں سر دیتے؟

ہر نئے دن ایک ہی طرح کے مریض دیکھ کر اور کسی کو مرتا اور کسی کو جیتا دیکھتے دیکھتے کب تک آپ اس کھیل تماشے کا حصہ رہ سکتے تھے؟ یہ لوگ لگے ہوئے ہیں، برابر ڈیڑھ دو سال ہو گئے یہی سب کچھ چل رہا ہے۔

ہسپتال پرائیویٹ ہے، خرچ شدید ہے، وہ دوسرا موضوع ہے۔ کاروبار کی اخلاقیات الگ ہیں، اس وقت ان پرزوں کی بات ہو رہی ہے جو آپ ہیں، جو میں ہوں۔

تو اس وقت یہ لوگ قسم سے مجھے یا پاگل لگتے ہیں یا صوفی ٹائپ کوئی چیز۔ جہاں اوما کو دوا دی جاتی ہے اس وارڈ میں تین بستر ہیں۔ گھڑی گھڑی نرس آتی ہے، جس کی ڈرپ ختم ہے وہ بدلتی ہے، صفائی والے برابر پھیرے مارتے ہیں، ان کے گھر بچے نہیں یا وہ کسی کی اولاد نہیں یا کرونا پروف ہیں؟ ویکسین لگوائی ہے، چائنا والی، روس والی، لندن والی؟ سو فیصد حفاظت تو ان سے بھی نہیں ملتی اور پھر وائرل لوڈ؟

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تو میں ان سب کو دیکھتا ہوں، گھر آتا ہوں تو انکل آنٹی کی مہربانیاں دیکھتا ہوں، کالم لکھنے بیٹھتا ہوں تو وہ زمین سے کھانا اٹھانے کا سوچتا ہوں ۔۔۔ رویے تین ہیں، وجہ ایک ہے۔ سبحان اللہ! اپنی اس بات پہ تو میں خود چادر پھاڑ کے گلی میں نکل جاؤں اور اناالحق پکارنے لگوں مگر ابھی گھر میں دو بندے کرونا سے لگے بیٹھے ہیں۔

دنیا اس پریشانی میں ہے، انسان کچھ نہیں کر سکتا۔ شکر کی سائنس بھی عجیب ہے، کرنا پڑتا ہے۔ کچھ نہ ہونے پہ بھی شکر ہے کچھ ہو جائے تو بھی شکر ہے کہ اس سے زیادہ نہیں ہوا۔ مالک کارساز ہے، بندے کو شکر کے موقعے وافر دیتا ہے، انسان سدا کا ناشکرا۔

دعا کریں، خدا صحت دے۔ جب تک خود پہ نہ گزرے اندازہ نہیں ہوتا استاد کہ سین چل کیا رہا ہے۔

نتیجہ میں نکال نہیں سکتا، زندگی آپ کی ہے اور فریجائیل ہے۔ چاہیں تو آپ کھانا زمین پہ رکھ دیں، چاہیں تو اتنی محبت میں گوندھ دیں کہ مریض خاندان زندگی بھر بدلہ نہ اتار سکے اور چاہیں تو نرسوں، عملے اور ڈاکٹرز کا ان دنوں تھوڑا زیادہ خیال کر لیں۔

باقی یار ماسک بھی جھاکا ہی ہے، آنے والا سو پردوں میں سے بھی آ دھمکتا ہے جو نہ آنا ہو تو گھنٹی تک نہیں بجاتا۔ رب دیاں رب ای جانے۔

دعا کر دیجے۔

-----------------------------------------------------------

یہ تصینف حیدر کا شعر ہے

روز اپنے ہاتھوں سے درج کرتے رہتے ہیں
موت کے رجسٹر میں غیر حاضری اپنی

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ