جب 140 روپے سے مجھے لاکھوں کا منافع ہوا

دور کہیں پیروں، فقیروں، صوفیوں کو جھانکنے کی ضرورت نہیں، میری دادی کہتی تھیں کہ پانچ روپے والی قلفی بھی ختم تو ہو جانی ہے، پھر چندا تم ایک روپے والی کیوں نہیں کھاتے؟ ایسی باتیں ہم سب کے بزرگ کرتے تھے لیکن ان کی حقیقت اب سمجھ آتی ہے۔

(پس ورق: پرافٹ آف برڈنگ)

'ویٹر تیز تیز قدموں سے ہمارے پاس آیا اور پوچھا، سر یہ آپ لوگ کیا کر رہے ہیں؟

ہم چاروں اس وقت ملائیشیا کے ایک پہاڑ پر واقع ہوٹل میں بیٹھے تھے۔ کھانے کا وقت چل رہا تھا اور ہم ساتھ ساتھ حساب بھی کر رہے تھے کہ آج ہم نے کون کون سے پرندے دیکھے۔ میں نے اسے جواب دیا، ہم برڈ واچنگ کر رہے ہیں۔

وہ دوبارہ کاؤنٹر کی طرف چلا گیا۔ وہاں موجود اس کا منیجر اور وہ دونوں پھر سے کھسر پھسر کرنے لگ گئے۔ وہ کبھی ہمیں گھورتے، کبھی تھوڑی کانا پھوسی کرتے، وہ بے چارے شدید کنفیوز نظر آ رہے تھے۔

اب وہ دوبارہ ہماری میز پر تھا۔ سر شاید آپ پرندے شکار کر رہے ہیں؟ نہیں بالکل نہیں، ہم صرف انہیں دیکھتے ہیں۔

وہ دوبارہ کاؤنٹر پہ چلا گیا۔ کچھ دیر مذاکرات کیے اور پھر واپس آیا۔ سر، تو آپ کیا پرندوں کی فلم وغیرہ بنا رہے ہیں کوئی؟ نہیں، ہم صرف پرندوں کو دیکھتے ہیں۔

کاؤنٹر پہ موجود بندہ اب بھی شدید بےیقینی میں تھا۔ ویٹر دوبارہ آ گیا۔ سر تو کیا آپ کسی طریقے سے انہیں پکڑ کے اپنے پاس رکھ لیتے ہیں؟ دوست، یقین کرو ہم صرف انہیں دیکھتے ہیں۔

سر آپ پرندے شکار نہیں کرتے، پکڑتے نہیں، ان کی فلم نہیں بناتے، صرف انہیں دیکھتے ہیں؟ تو اس میں فائدہ کیا ہے؟'

مصنف اس کے بعد پوری کتاب میں یہ بتاتا ہے کہ برڈ واچنگ (پرندوں کو دیکھنے) میں کیا فائدہ ہے۔ برائن بلینڈ ایسے ہی ایک مست ملنگ قسم کا بابا ہے۔ اچھے وقتوں میں جب ویزے شیزے کے رولے زیادہ نہیں ہوتے تھے تو وہ دنیا بھر میں گھومتا پھرتا تھا، سال میں تین تین بار ادھر بھارت کے بھی چکر مارتا تھا، بیوی اس کی میوزک کی شوقین تھیں، وہ پرندے دیکھنے کا، تو مل جل کے دونوں دن کو پارٹی کرتے رات کو اور صبح تڑکے پرندے دیکھنے نکل جاتے۔

وہ لوگ تقریبا 50 ملکوں میں ایک ہزار سے زیادہ مرتبہ گھومے، بےحساب پرندے دیکھے، بابے نے کتابیں لکھیں اور دنیا کو اپنی عقل بانٹ دی۔ ریڈنگز لاہور میں کتابوں کی ایک دکان ہے۔ وہاں کتابوں پہ سیل لگی تو 90 فیصد رعایت پر یہ 1500 کی برانڈ نیو کتاب بھائی 140 روپے میں خرید لایا۔ کتاب پڑھی اور نتیجہ یہ نکالا کہ رپھڑ صرف ملکیت کا ہے۔

چھ ماہ کا بچہ بھی جب کسی رنگین چیز کو دیکھتا ہے تو اس کی طرف ہاتھ بڑھاتا ہے کہ اسے پکڑ سکے۔ اسے اپنے قابو میں لا سکے۔ اس کے ساتھ کھیل سکے۔ یعنی کسی بھی چیز کو اپنے پاس رکھ لینا اور اس سے موقع بہ موقع یا بے موقع لطف اندوز ہونا پیدائشی فطرت ہے۔

تو بڑے ہو کر اس کیفیت پر اگر قابو پا لیا جائے یا اس منہ زور جذبے کی اگر لگامیں کھینچ لی جائیں تو کیا ہو؟

دور کہیں پیروں، فقیروں، صوفیوں کو جھانکنے کی ضرورت نہیں، میری دادی کہتی تھیں کہ پانچ روپے والی قلفی بھی ختم تو ہو جانی ہے، پھر چندا تم ایک روپے والی کیوں نہیں کھاتے؟ ایسی باتیں ہم سب کے بزرگ کرتے تھے لیکن ان کی حقیقت اس کرونائی زندگی میں پھر سے پلے پڑنے لگی ہے۔

زندگی چار مہینوں سے دو چڈی دو قمیصں میں گزر رہی ہے۔ گرمی کی شدت کسی ایک سے فراغت پر بھی قائل کر لیتی ہے۔ ایک ہوائی چپل ہے جس میں سودا لانے سے لے کر نہانے تک کے سارے دکھڑے پورے ہو جاتے ہیں۔ کوئی گھڑی، کوئی کریم، کوئی تیل، کوئی پرفیوم (سوائے بغلچو کے)، کوئی موزے، کوئی بنیانیں، کوئی پتلون، کوئی استری شدہ کپڑے، کوئی حجامت، کوئی شاپنگ کچھ بھی نہیں ہے۔

سارا دن کھڑکی سے منہ بھڑائے ایک گدے پہ لیٹے رہنا، نوکری کے وقت وہیں پہ لیپ ٹاپ کھول لینا، نوکری کے بعد وہیں کچھ پڑھ مر لینا، رات کو وہیں سو جانا، سویرے وہیں پہ آنکھ کھول دینا، سب کچھ بہترین جا رہا ہے۔ خدا آس پاس والوں کی صحت سلامتی رکھے تو موج ہی موج ہے۔

کسی نئی چیز پہ نظر پڑتی ہے تو ساتھ ہی خیال آتا ہے کہ اب جو یہ نہیں ہے، تو آخر کیا تکلیف ہے؟ پتہ لگتا ہے کہ بھئی کوئی فرق نہیں پڑ رہا، تو پھر سے ستو پی لیتا ہوں۔ بہت زیادہ کیڑا کلبلاتا ہے تو یہ سوچ لیتا ہوں کہ جو کچھ اب تک بہت زیادہ چاہ کے بھی نہیں ملا، یا جو ہاتھ آتے آتے رہ گیا، وہ سب بھی ادھر موجود ہوتا تو کیا فرق پڑتا؟ کسی اور چیز کی جستجو ہوتی۔ کچھ نیا، مزید نیا؟

ملکیت سکون کا احساس دینے کے علاوہ کسی دوسری چیز کا نام نہیں۔ اس چیز کو یوں سمجھیں کہ بابا پرندے دیکھتا تھا خوش رہتا تھا، ہمارے بڑے مدھو بالا کو دیکھتے تھے اور سکون کرتے تھے، ہم مادھوری کو دیکھ کر اور پھر سے دیکھ کر سمجھتے تھے عیش ہو گئے، یہ بچے کم کاردیشن کو دیکھتے ہیں، کبھی حاصل کر سکیں گے، کبھی اپنی ملکیت میں لا سکیں گے ان سب کو؟ نہیں۔

تو باقی چیزوں کے ساتھ بھی یہی ہو سکتا ہے اگر سمجھ آ جائے کہ حاصل کر کے بغل میں دبا لینا بے مقصد ہے۔ وہ اطمینان اگر مر جائے جو چیزوں کی ملکیت سے تعلق رکھتا ہے تو ہماری زندگی کے بے تحاشا مسئلے ختم ہو سکتے ہیں۔ اس کائنات کا سب سے بڑا جھگڑا ملکیت کا ہے۔ سب کچھ اپنے دائرے میں سمیٹ لینے کا ہے۔ کوئی ایسا کیپسول، کوئی ایسی ویکسین کوئی ایسی دوا ایجاد ہو جائے جو ملکیت کا خرناس دماغ سے نکال دے تو کیسی مست زندگی ہو؟

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

نہ زمین لینے کی ٹینشن، نہ مکان بنانے کی حسرت، نہ فالتو کپڑے، نہ یہ ڈھیر کتابوں کا جو میرا منہ چڑاتا ہے، نہ قسم قسم کے کھانے، نہ پرندوں کے شکار، نہ ملکوں کی جنگیں، نہ فرقوں کے مسئلے، نہ میرے پاس تم ہو ٹائپ کے فتور کچھ بھی نہ ہو۔ صبح اٹھیں روٹی کھائیں، چڈی قمیص میں کام کریں، رات آئے تو کچھ پیٹ میں ڈالیں اور سو جائیں۔ اگلے دن پھر وہی سب کچھ کریں جو کل کیا تھا۔

اس بیچ جو چیز اچھی لگے تو سوچ لیا جائے کہ سبحان اللہ، بہت عمدہ ہے، لیکن پاس آ بھی گئی تو کب تک؟ یا خود مر جانا ہے یا اس نے پڑے پڑے فنا ہو جانا ہے۔ جو ابھی موجود ہے وہ بہت کافی ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ یہ سب اس لاک ڈاؤن میں ہو بھی رہا ہے۔ وجہ صرف ایک ہے ۔۔۔ سامنے لٹکتی ہوئی موت کی تلوار۔

تو یہ بے نیازی شاید مستقل اسی صورت ممکن ہے جب ہم کرونا کے بعد بھی ان منحوس دنوں کو یاد رکھیں۔ ہو سکتا ہے میں زندہ رہ جاؤں تو میں شو مارنے کے لیے کوئی نئی گھڑی خرید لوں، کوئی مہنگی جینز لے لوں، سردیوں میں ٹخنوں تک آتے کوئی چرمی جوتے پسند آ جائیں، زندگی ہے بندہ پھسل جاتا ہے، لیکن ایک سبق بہرحال ذہن نشین ہو چکا ہے۔

دنیا میں بہت کچھ نہیں ہوتے ہوئے بھی انسان زندہ رہ سکتا ہے اور بہت کچھ ہوتے ہوئے بھی ایک دم مر سکتا ہے تو بہت کچھ نہ ہونے کو سیلیبریٹ کرتے ہوئے فوت ہونا کیوں نہ پسند کریں؟

بابا جی برائن بلینڈ آپ کی جے ہو، ریڈنگز والو تم سلامت رہو، تاقیامت رہو، 140 روپے میں لاکھوں کی بات سمجھا دی!

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ