سوات: ‘خواتین پر جانور نے حملہ نہیں کیا، قتل کیا گیا‘

گھر سے ملنے والی خواتین کی لاشوں کے بارے میں علاقہ مکینوں کا کہنا تھا کہ ان پر کسی جانور نے گھر میں گھس کر حملہ کیا ہے تاہم پولیس کے مطابق خواتین پر کسی جانور نے حملہ نہیں بلکہ ان کو قتل کیا گیا ہے۔

1 اگست 2009 کو لی گئی اس تصویر میں ایک پاکستانی پولیس اہلکار کو وادی سوات کے صدر مقام مینگورہ میں ایک چیک پوسٹ کے پاس سے کھڑے دیکھا جاسکتا ہے۔ اوڑہ، جہاں پر گھر سے لاشیں ملیں، مینگورہ سے تقریبا 30 کلومیٹر کی مسافت پر واقع ہے (اے ایف پی/ فائل)

سوات کی تحصیل مٹہ کے نواحی علاقے اوڑہ میں گھر سے دو خواتین اور ایک کم سن بچی کی لاش برآمد ہونے کے بارے میں پولیس کا کہنا ہے کہ پوسٹ مارٹم رپورٹ میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ تینوں کو تیزدھار آلے سے قتل کیا گیا ہے۔

سوات پولیس کے ضلعی سربراہ زاہداللہ مروت نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ تینوں خواتین کا پوسٹ مارٹم ہوگیا ہے اور پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق تینوں کو تیز دھار آلے سے قتل کیا گیا ہے۔

زاہداللہ نے بتایا،’ پولیس نے تینوں خواتین کے قتل کا مقدمہ نامعلوم ملزمان کے خلاف درج کردیا ہے اور تفتیش شروع کی ہے۔’

یاد رہے کہ گھر سے ملنے والے خواتین کے لاشوں بارے میں یہ کہا جا رہا تھا کہ ان پر کسی جانور نے گھر میں گھس کر حملہ کیا ہے تاہم پولیس کے مطابق خواتین پر کسی جانور نے حملہ نہیں بلکہ ان کو قتل کیا گیا ہے۔

پوسٹ مارٹم سے قبل متعلقہ پولیس سٹیشن کے اہلکار مدثر خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ یہ واقعہ رات کو پیش آیا تھا جس میں ایک 61 سالہ، ایک 40 سالہ خاتون جبکہ ایک چھ سالہ بچی کی لاشیں ایک گھر سے برآمد ہوئی تھیں۔

پولیس اہلکار نے بتایا،’علاقے کے لوگوں کا دعویٰ ہے کہ خواتین کو ایک خونخوار جانور نے ماردیا ہے، جو قریبی پہاڑی سے گھر میں گھس گیا تھا۔ تاہم ان میں سے  کسی نے خونخوار جانور کو گھر میں گھستے ہوئے اور نکلتے ہوئے نہیں دیکھا ہے۔‘

اہلکار نے بتایا کہ ابھی تک یہ صرف افواہ ہے اور پولیس تفتیش کر رہی ہے کہ کیا واقعی خواتین پر حملہ کسی خونخوار جانور نے کیا ہے۔ علاقہ مکین یہ بھی بتاتے ہیں کہ گھر میں جانور کے حملے کے دوران کوئی مرد موجود نہیں تھا کیونکہ وہ پنجاب میں مزدوری کی غرض سے گئے تھے۔

مدثر نے بتایا کہ پولیس ٹیم اس کیس پر کام کر رہی ہے اورلاشوں کے پوسٹ مارٹم کے لیے نمونے لیبارٹری بھجوائے تھے اور لاشیں مٹہ کے سول ہسپتال منتقل کی گئیں تھیں۔

علاقہ مکین کیا کہتے ہیں؟

غلام بہادر اس علاقے کے رہنے والے ہیں جہاں پر یہ واقعہ پیش آیا ہے اور ان کا گھر اسی گھر کے بالکل قریب ہے۔

انہوں نے بتایا،’ یہ ایک پہاڑی علاقہ ہے لیکن اس کے قریب کوئی خاص جنگل واقعہ نہیں ہے تاہم جنگلی جانوروں کے نکلنے کے واقعات اس علاقے میں ماضی میں بھی ہوئے ہیں۔ پچھلے سال بھی ایک جانور نے گھر میں مال مویشیوں پر حملہ کیا تھا۔

غلام بہادر سے جب پوچھا گیا کہ گھر کے مرد کہاں گئے تھے، تو اس کی جواب میں ان کا کہنا تھا: ‘یہ ایک پسماندہ علاقہ ہے اور ان دنوں گھروں کے مرد زیادہ تر دیگر شہروں میں مزدوری کی غرض سے جاتے ہیں۔

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو فون پر بتایا کہ  یہ واقعہ ایسا لگتا ہے کہ رات کے وقت پیش آیا تھا کیونکہ علاقے کے لوگوں کو صبح آٹھ نو بجے پتہ لگ گیا تھا کہ گھر میں لاشیں پڑی ہیں جبکہ ایک تین چارماہ کی بچی جو جھولے میں تھی، وہ بچ گئی ہے۔’

انہوں نے بتایا،’ یہاں یہ ایک قسم کا ٹرینڈ ہے کہ سردیوں میں گھر کے مرد مزدوری کے لیے دیگر شہروں میں جاتے ہیں اور زیادہ تر لوگ ملوں میں مزدوری کرتے ہیں۔’

اسی واقعے کے حوالے سے گاؤں کے ایک اور شخص نے مقامی میڈیا کو بتایا کہ ان کی پھوپی ان خواتین میں سے ایک سے ملنے کی غرض سے ان کے گھر گئیں تو وہاں پر ان کو لاشیں ملیں۔

انہوں نے بتایا کہ ایک خاتون کی لاش کچن میں، دوسرے کی ایک کمرے میں لگے روایتی چولہے (مقامی زبان پشتو میں اس کو بخاری کہا جاتا ہے جو چمنی کی طرز کا ہوتا ہے کس میں لکڑیاں جلا کر سردیوں میں گرم کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے) کے ساتھ پڑی تھیں جبکہ ان کے قریب ہی کم سن بچی کی لاش پڑی تھی۔

لاشوں پر زخموں کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ تینوں لاشوں کے ‘سروں پر وار کیے گئے ہیں۔

جہاں تک اس علاقے کا تعلق ہے، یہ سوات کے مرکزی شہر مینگورہ سے تقریبا 30 کلومیٹر کی مسافت پر واقع ہے، جو ضلع سوات کا بالائی علاقہ ہے۔ علاقہ مکین غلام بہادر کے مطابق یہاں پر ایسا کوئی جنگل موجود نہیں ہے، تاہم گھروں کے قریب کھیت ضرور موجود ہیں۔ ‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان