سوات میں خواتین کی لاشیں ملنے کا کیس: ’بظاہر ڈکیتی کا معاملہ ہے‘

ایک مقتولہ کے شوہر نے کہا کہ خواتین کے کانوں سے بالیاں چوری ہونے کے علاوہ صندوق سے سونا بھی غائب ہے۔ تاہم پولیس کے مطابق فی الحال کچھ اخذ کرنا قبل از وقت ہو گا۔

سوات کے ڈی پی او زاہد نواز مروت 12 فروری، 2022 کو اس کیس کے حوالے سے میڈیا کو بریفنگ دے رہے ہیں (ڈی پی او آفس سوات)

خیبر پختونخوا کے ضلع سوات میں گھر سے ایک کم سن بچی سمیت دو خواتین کی لاشیں ملنے کے کیس میں مقتولین کے اہل خانہ نے کہا ہے کہ یہ واردات بظاہر ڈکیتی لگتی ہے۔

سوات ضلعی پولیس سربراہ کے ترجمان معین فیاض نے تاہم کہا کہ ابھی تفتیش جاری ہے اور اس حوالے سے مزید کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔

اس واقعے پر اہل علاقہ کا ابتدائی ردعمل یہ تھا کہ کسی خونخوار جانور نے گھر میں گھس کر خواتین پر حملہ کیا۔

مقتول خواتین میں سے ایک کے شوہر میرا جان نے مقامی میڈیا کو بتایا کہ قتل ہونے والوں میں ایک ان کی اہلیہ، دوسری بہو اور نواسی شامل ہے۔

انھوں نے بتایا کہ خواتین کے کانوں سے سونے کی بالیاں چرا لی گئیں اور ان کے کانوں کو چیرا گیا ہے جبکہ گھر کے ایک کمرے کے اندر صندوق میں موجود سونا غائب ہے۔

انھوں نے بتایا: ’صندوق کا تالا توڑا گیا اور اس میں سے سونا چوری ہوا۔ ایک خاتون نے کمرے کے اندر زمین میں کچھ رقم رکھی ہوئی تھی وہ بھی لے گئے۔‘

مقامی صحافی آصف شہزاد کے مطابق سوات کے بالائی علاقوں میں نقدی کو محفوظ رکھنے کے لیے زمین کے اندر گھڑا بنا کر رکھا جاتا ہے کیونکہ ان علاقوں میں قریبی کسی بینک کی سہولت موجود نہیں۔

میرا جان نے بتایا کہ تینوں مقتولین کے سر پر وار کیا گیا۔ انھوں نے مبینہ ڈکیتی میں ملوث افراد کو گرفتار کر کے سزا دینے کا مطالبہ کیا۔

انھوں نے بتایا کہ ان کے خاندان کی کسی کے ساتھ کوئی ذاتی دشمنی یا تنازع نہیں۔ واقعے کا مقدمہ دفعہ پاکستان پینل کوڈ کے دفعہ 302 کے تحت درج کر لیا گیا ہے۔

سوات پولیس کے ضلعی سربراہ (ڈی پی او) زاہد نواز مروت نے جمعے کو انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا تھا کہ تینوں خواتین کا پوسٹ مارٹم ہوگیا ہے، جس کے مطابق مقتولین کو تیز دھار آلے سے قتل کیا گیا۔

زاہد اللہ نے بتایا، ’پولیس نے تینوں خواتین کے قتل کا مقدمہ نامعلوم ملزمان کے خلاف درج کر کے تفتیش شروع کر دی ہے۔‘

متعلقہ پولیس سٹیشن کے اہلکار مدثر خان کے مطابق یہ واقعہ رات کو پیش آیا جس میں ایک 61 سالہ، ایک 40 سالہ خاتون جبکہ ایک چھ سالہ بچی کی لاشیں ایک گھر سے برآمد ہوئی تھیں جبکہ ایک تین چار ماہ کی بچی جھولے میں تھی جو زندہ بچ گئی۔

علاقہ مکین کیا کہتے ہیں؟

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جس گھر سے لاشیں ملیں اس کے قریب رہائش پذیر غلام بہادر نے بتایا یہ ایک پہاڑی علاقہ ہے لیکن اس کے قریب کوئی بڑا جنگل نہیں تاہم ماضی میں جنگلی جانوروں کے نکلنے کے واقعات اس علاقے میں ماضی میں بھی ہوئے ہیں، پچھلے سال بھی ایک جانور نے گھر میں مال مویشیوں پر حملہ کیا تھا۔

ان سے جب پوچھا گیا کہ متاثرہ گھر کے مرد واقعے کے وقت کہاں تھے تو ان کا کہنا تھا: ‘یہ ایک پسماندہ علاقہ ہے اور یہاں کے مرد زیادہ تر دیگر شہروں میں مزدوری کی غرض سے جاتے ہیں۔

گاؤں کے ایک اور شخص نے مقامی میڈیا کو بتایا کہ ان کی پھوپی مقتول خواتین میں سے ایک سے ملنے کی غرض سے ان کے گھر گئیں تو وہاں پر ان کو لاشیں ملیں۔

انہوں نے بتایا کہ ایک خاتون کی لاش کچن میں، دوسرے کی ایک کمرے میں لگے روایتی چولہے (مقامی زبان پشتو میں اس کو انگیٹی کہا جاتا ہے جو چمنی کی طرز کا ہوتا ہے جس میں لکڑیاں جلا کر سردیوں میں گرم کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے) کے ساتھ پڑی تھیں جبکہ ان کے قریب ہی کم سن بچی کی لاش پڑی تھی۔

لاشوں پر زخموں کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ تینوں لاشوں کے سروں پر وار کیے گئے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان